دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف ہماری ہے
یہ ظلم رکنا چاہیے اور اس ظلم کو ظلم کہتے ہوئے کسی کو ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کرنا چاہیے
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ہر معاملہ فوج پر چھوڑ دینا خطرناک روش ہے، صوبائی حکومتیں سیکیورٹی کی ذمے داری سے مبرا نہیں ہوسکتیں، اس طرح سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ دہشت گردی میں مبتلا غیر مستحکم ریاست میں اچھی معیشت کا تصور نہیں کیا جاسکتا، نرم ریاست سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل نہیں کرسکتی، ہمیں طاقت کے تمام عناصر کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔
بلاشبہ وزیراعظم نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پائی جانے والی خامیوں کے بارے میں صائب خیالات کا اظہار کیا ہے، درحقیقت نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کے خلاف پورے ملک میں جو آپریشن جاری ہے اور جس میں فوج کا اہم کردار ہے، اس آپریشن سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ریاستی ادارے دہشت گردوں کے خلاف اپنے فرائض پوری جانفشانی سے سرانجام دے رہے ہیں اور دہشت گردوں کے ساتھ کسی قسم کی نرمی برتنا دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ نظام میں ہر طرح کی اصلاحات بہرحال سویلین حکومتوں اور پارلیمنٹ کو ہی کرنا ہیں۔
پاکستان طویل عرصے سے دہشت گردی کی جنگ کی لپیٹ میں ہے، ہتھیار، ہیروئن، پناہ گزین، معاشرے میں اجنبی روایات، مسلکی منافرت اور وسائل پر قبضہ، ہماری معاشرتی اقدار برباد ہو چکی ہیں۔ یہ کہنا کسی طور پر غلط نہیں کہ 1979 سے اب تک پاکستان نے اس جنگ کا بوجھ افغانستان سے کہیں زیادہ اٹھایا ہے۔ نجانے کتنے غیر ملکی باشندے آج پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے ساتھ ملک میں جائیداد و کاروبار کے مالک بنے بیٹھے ہیں؟ جنھیں نکالنا ممکن نہیں۔ اب 37 سال بعد ہمیں سی پیک کی شکل میں ایک موقعہ مل رہا ہے کہ کم از کم نئی نسل کو ایک خوشحال اور مضبوط پاکستان دے سکیں۔
قوموں کی زندگی میں ایسے موقعے بار بار نہیں آتے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خوشحالی کا پودا دھماکوں، فسادات، خونریز سوچ اور وحشیانہ ماحول میں نہیں پنپتا۔ کوئی بھی ملک سرمایہ لگانے کی خواہش میں کب تک پاکستان میں امن و امان کی اطمینان بخش صورتحال کا منتظر رہے گا۔ سی پیک یقینی طور پر گیم چینجر ہے مگر اس کے لیے پاکستان میں امن کا قیام نا گزیر ہے۔ اس لیے اس اہم منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے اور قیام امن کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا پڑے گا۔
خیبر پختون خوا میں تسلسل سے دہشت گردی کی کارروائیاں دراصل صوبائی حکومت کی ناکامی پر دلالت کرتی ہیں۔ وفاق خیبر پختون خوا حکومت کو سیکیورٹی خطرات کے الرٹ بھیجتا رہتا ہے، لیکن پھر بھی سانحات کا رونما ہونا صوبائی حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستان میں خفیہ اطلاعات پر ہزاروں چھوٹے بڑے آپریشنز کیے گئے جس کے باعث دہشت گرد سرحد پار دم دبا کر بھاگ نکلے مگر افغانستان کا ان دہشت گردوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ پشاور، مردان، بنوں، صوابی اور چارسدہ دہشت گردوں کے نشانے پرہیں اور یہ ان کے لیے آسان اہداف ہیں دہشت گرد یہاں کے مکینوں میں بے چینی اور بدگمانی پھیلانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں، دہشت گرداب آسان ہدف چنتے ہیں۔
دوسری جانب چند روز قبل بلوچستان کی کوئٹہ نوشکی ہائی وے پر ایک بس کو رکاوٹیں کھڑی کر کے روکا جاتا ہے۔ بس میں اسلحہ بردار نقاب پوش داخل ہوتے ہیں۔ بس میں سوار تمام افراد کا شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں اور نو ایسے مسافروں کو جن کے شناختی کارڈ پر پنجاب کے ایڈریس درج ہوتے ہیں انھیں گن پوائنٹ پر بس سے اتار لیا جاتا ہے اور باقی مسافروں کو بس سمیت آگے جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے بعد ازاں نو افراد کی لاشیں ایک پل کے نیچے سے ملتی ہیں۔
میڈیا، سیاستدان، انسانی حقوق کی تنظیمیں اگرچہ بلوچستان میں گمشدہ افراد کے مسئلہ پر بہت بات کرتی ہیں، اس پر دھرنے، لانگ مارچ اور مظاہرے بھی کیے جاتے ہیں جس پر کسی کو اعتراض نہیں لیکن بلوچستان میں بسوں سے اتار اتار کر پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کی بہیمانہ قتل و غارت پر کیوں ایسے ہی بات نہیں کی جاتی۔ یہ بھی ریاست کی ذمے داری ہے کہ قانون کے مطابق کسی بھی غیر قانونی عمل یا دہشتگردی میں شریک افراد سے نمٹا جائے لیکن سوال یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ حقوق کے نام پر کتنے بے قصور ڈاکٹروں، پروفیسروں، اساتذہ، کاروباری افراد، محنت کشوں کو محض اُن کی کسی مخصوص علاقہ سے شناخت کی بنیاد پر قتل کیا جاتا ہے۔
یہ ظلم رکنا چاہیے اور اس ظلم کو ظلم کہتے ہوئے کسی کو ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ طویل عرصے بعد لگا تار دہشت گردی کی کارروائیوں نے واضح کر دیا ہے کہ مبہم اور نیم دلانہ پالیسیوں سے کام نہیں چلے گا، ساتھ ہی بہت سارے سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ مذہب کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں، مگر یہ تو جاننا ہوگا کہ یہ سب کچھ کس کے نام پر ہو رہا ہے، مرنے والے کون اور مارنے والے کون ہیں؟ دہشت گرد کی تعریف اور گڈ اور بیڈ طالبان میں کیا فرق ہے؟ کالعدم تنظیموں اور منافرت پھیلانے والوں کے خلاف موثر کارروائیاں کیوں نہیں ہوتیں؟ کون کون سے ادارے اہداف کے حصول میں ناکام رہے ہیں؟ اختیارات ہمیشہ احتساب سے مشروط ہوتے ہیں، کیا ناکامیوں کا بھرپور جائزہ لیا گیا؟ ایسے بہت سے سوال موجود ہیں جن کا جواب منافقت کا چولا اتار کر سیاسی اور تزویراتی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر تلاش کرنا پڑے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ جنگ صرف اور صرف ہماری ہے، ملک اور نسل کے بقا کی جنگ، اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ دانش مندانہ اور فلسفیانہ موشگافیوں سے نکل کر حقیقت سے آنکھیں چار کرنی ہوں گی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں کی بھی ایک تعداد موجودہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ ضرور دیکھنا ہو گا پیچھے کیا غلطیاں اور کوتاہیاں رہیں۔ کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پالیسی میں کہیں کوئی کجی، کوئی خامی تو موجود نہیں جو نتائج کے حصول میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ افغانستان مسلسل پاکستان دشمنی پر آمادہ ہے اس کے باوجود تیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کی واپسی آج بھی سوالیہ نشان ہے۔ افغانستان حکومت کو بھی پاکستان سے کچھ شکایات ہونگی مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تمام احسانات بھلا کر دشمنی بھی کی جائے اور پھر پاکستان سے مہربانی کی توقع بھی رکھی جائے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ افغان حکومت ہی نہیں عوام کا ایک طبقہ بھی پاکستان دشمنی کا مظاہرہ کرنے میں پیچھے نہیں رہتا اور اگر ہمارے ملک میں افغانستان کے خلاف کوئی بات کی جائے تو سیاسی رہنماؤں کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
کوئی ان سے پوچھے کہ کیا افغان سیاسی عمائدین بھی پاکستان کے حق ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں؟ موجودہ صورتحال میں پاکستان کے لیے بھارت اور افغانستان دونوں برابر ہیں۔ دو کشتیوں میں سوار ہوکر دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جاسکتی، بلا تفریق مسلک، ملت، سیاسی اور لسانی فرقہ بندی ہر دہشت گرد کو بنا کسی ابہام کے انجام تک پہنچانا ہوگا۔ حکومت، ادارے، سیاست اور شہری آزادی، یہ سب ریاست کے دم سے ہیں، پاکستان ہے تو سب کچھ ہے ورنہ کچھ نہیں۔ قوم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بھرپور اختیار حکومت کو دیا ہے جس نے مختلف اختیارات اداروں کو سونپے ہیں۔
نظام میں اصلاحات کا کام سویلین حکومت اور پارلیمنٹ کا ہے۔ قوانین اور نظام انصاف میں کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے نئی قانون سازی کی ضرورت ہو گی اور اس میں پارلیمنٹ کا کردار ہی سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس امر سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہمارے نظام انصاف میں بہت کمزوریاں ہیں۔ ان کمزوریوں کی وجہ سے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کو پنپنے کا موقع ملتا ہے اور معاشرے میں عدم اطمینان پیدا ہوتا ہے۔ اس نظام میں سب سے بڑی خامی کرپشن ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشتگردوں کو گرفتار کرتے ہیں لیکن قوانین اور نظام انصاف میں کمزوریوں اور کرپشن کی وجہ سے ان دہشتگردوں کو نہ صرف قانون کے مطابق سزا نہیں ملتی بلکہ وہ رہا بھی ہو جاتے ہیں۔
دہشتگردوں کے خلاف حالیہ جنگ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ نظام میں اصلاحات کا کام صرف اور صرف پارلیمنٹ ہی کر سکتی ہے۔ ہمارے نظام کی ان کمزوریوں کی ہر کوئی نشاندہی کر رہا ہے۔ نظام میں اصلاحات صرف اور صرف سیاسی عمل کو جاری رکھ کر ہی کی جا سکتی ہیں۔ یہ کام بھی سیاسی حکومتوں کا ہے کہ وہ نظام میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ ان پالیسیوں کو بھی تبدیل کریں، جو آمرانہ ادوار میں بنی تھیں۔ سیاسی حکومتیں یہ کام تب کرسکتی ہیں، جب وہ مضبوط ہوں اور ان کی مضبوطی صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں کو دور کریں اور پاکستان کے عوام کو یہ باور کرائیں کہ پاکستان میں اچھی حکمرانی ہے۔ لوگوں کو ریلیف اور انصاف مل رہا ہے۔ قانون سب کے لیے برابر ہے۔
سارے کام میرٹ پر ہو رہے ہیں۔ کرپشن نہیں ہے۔ اب پارلیمنٹ نے پالیسی کا رخ متعین کرنا ہے ۔ لفظی و معنوی دونوں اعتبار سے اس پالیسی کے نفاذ کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر نیک نیتی سے قوم کو اعتماد میں لیا جائے اور اس کی تائید و عملی شراکت سے اس سمت میں پیشِ رفت کی جائے تو حالات جلد تبدیل ہوسکتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ مصلحتوں کا بالائے طاق رکھ کر پورے ملک میں دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے خلاف بھرپور جنگ چھیڑی جائے۔