لارڈ میکالے کا تھیسس دوسرا اور آخری حصہ
انگلینڈ کا ادب اب قدیم کلاسکل دور سے زیادہ جدید اور قیمتی ہے
لارڈ میکالے مزید کہتا ہے ، اگر ہمارے آباؤ اجداد نے ویسا ہی کیا ہوتا جیسا کہ کمیٹی آف پبلک انسٹرکشن نے اب تک نوٹ کیا ہے،کیا انھوں نے ارسطو اور افلاطون ، سیسرو اور سقراط کی زبان کونظر انداز کیا ہوتا، کیا انھوں نے اپنی توجہ ہمارے اپنے جزیرے (انگلینڈ) کی پرانی بولیوں تک محدود نہ کردی ہوتی،کیا ہم کچھ کاغذ پر کچھ چھاپ پاتے اور یونیورسٹیوں میں کچھ نیا پڑھا پاتے کیا انگلینڈ وہی ہوتا جو اب وہ ہے؟ انگلینڈ کا ادب اب قدیم کلاسکل دور سے زیادہ جدید اور قیمتی ہے۔ مجھے شک ہے کہ آیا سنسکرت ادب اتنا ہی قیمتی ہے جتنا کہ ہمارے سیکسن اور نارمن اجداد کا ہے۔
ایک اور مثال ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ پچھلے ایک سو بیس برس میں ایک ایسی قوم جو پہلے اتنی ہی وحشیانہ حالت میں تھی، جیسے ہمارے آباؤ اجداد صلیبی جنگوں سے پہلے کے دور میں ہوا کرتے تھے، پھر وہ بتدریج اس لاعلمی و وحشی پن سے باہر نکل کر ابھری ہے اور اس نے مہذب اقوام میں اپنی جگہ لے لی ہے، میں روس کی بات کررہا ہوں۔ اب اس ملک میں ایک بہت بڑا تعلیم یافتہ طبقہ وجود میں آچکا ہے، اس میں ایسے افراد موجود ہیںجو اعلیٰ ترین عہدوں پر ریاست کی خدمت کرنے کے اہل ہیں لیکن فی الحال پیرس اور لندن کے تعلیم یافتہ حلقوں کے انتہائی ماہر افراد سے کمتر ہیں۔
امید کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہماری وسیع سلطنت جو ہمارے دادا کے زمانے میں شاید پنجاب سے بھی پیچھے تھی، ہمارے پوتے پوتیوں کے ترقی یافتہ زمانے میں فرانس اور برطانیہ اس قریب پہنچ کر اس پر دباؤ ڈال سکتے ہیں اور یہ تبدیلی کیسے ہوئی؟ قومی تعصبات کی چاپلوسی کرنے سے نہیں ،نواجون مسکوویٹ کے ذہن میں بوڑھی عورتوں کی کہانیاں بھرنے سے نہیں، جن پر اس کے بدتہذیب باپ دادا نے یقین کیا تھا، سینٹ نکولیس کے بارے میں جھوٹے افسانوں سے دماغ بھرنے سے نہیں، اس عظیم سوال کا مطالعہ کرنے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے سے نہیں کہ 13ستمبر کو دنیا کی تخلیق ہوئی یا نہیں، بلکہ اس علم و حکمت سے جو انھیں غیر ملکی زبانیں سکھا کر حاصل کیا گیا۔ مغربی یورپ کی زبانوں نے روس کو مہذب بنایا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ہندوستان کے باشندوں کے لیے بھی وہی کریں گے جو انھوں نے روسیوں کے لیے کیا ہے۔
اس کورس کے خلاف کیا دلائل ہیں جو نظریے اور تجربے کے لحاظ سے یکساں طور پر تجویز کیے جاتے ہیں؟یہ کہ ہمیں( انگریز سرکار ) مقامی لوگوں کا تعاون حاصل کرنا چاہیے، اور یہ کہ ہم( انگریز سرکار) یہ صرف سنسکرت اور عربی کی تعلیم دے کر ہی کرسکتے ہیں۔
میں کسی بھی طرح یہ تسلیم نہیں کرسکتا کہ جب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دانشور قوم کسی نسبتاً کم تعلیم یافتہ اور ذہین قوم کی تعلیم اور تعلیمی نظام کی نگرانی کرنے کا عہد کرتی ہے تو لازمی طور پر وہ کورس تجویز کرتی ہے جسے اساتذہ کو لازمی پڑھانا ہوتا ہے۔ ہم اس وقت مقامی لوگوں کا تعاون حاصل کرنے کا ایجنڈا لے کرنہیں بیٹھے ہیں۔ ہم کوئی مشورہ نہیںدے رہے ہیں۔ ہم صرف وہ سیکھنا روک رہے ہیں جو مقامی لوگوں کے لیے قابل قبول ہے۔ ہم ان پر وہ سیکھنا لازم کررہے ہیں جس سے وہ گھبراتے ہیں۔
یہ اس حقیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم اپنے عربی اور سنسکرت پڑھنے والے طلبا کو ادائیگی کرنے پر مجبور ہیں جب کہ انگریزی سیکھنے والے لوگ ہمیں ادائیگی کرنے کو تیار ہیں۔ اپنی مذہبی مقدس زبانوں اور مقامی لوگوں کی محبت اور عقیدت کے بارے میں دنیا میں تمام بیانات، کسی بھی غیر جانبدار شخص کے ذہن میں، اس غیر متنازعہ حقیقت سے کیں زیادہ نہیں ہوں گے کہ ہمیں اپنی پوری وسیع سلطنت میں ایک بھی ایسا طالب نہیں مل سکتا جو ہمیں ان بولیوں کو سکھانے دے، جب تک کہ ہم اسے ادائیگی نہ کریں۔
اب میرے سامنے ایک مہینے یعنی دسمبر 1833 کے مدراس کے کھاتے ہیں۔ عربی کے طالب علموں کی تعداد ستتر معلوم ہوتی ہے، سب کو عوام( سرکاری خزانہ) سے وظیفہ ملتا ہے، جو ماہانہ 500روپے سے زیادہ ہے۔ جب کہ انگریزی کے باہر کے طلبا سے مئی، جون اور جولائی کے مہینوں کے لیے وصول کی گئی کٹوتی کی رقم 103روپے ہے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ ایسا محض مقامی تجربے کی کمی کی وجہ سے ہے ، میں ان مظاہر پر حیران ہوں، اور یہ کہ ہندوستان میں طلباء کے لیے اپنے اخراجات پر تعلیم حاصل کرنا فیشن نہیں ہے۔دنیا کے کسی بھی حصے میں مردوں کو وہ کام کرنے کے لیے ادائیگی کرنا ضروری نہیںہوسکتا جسے وہ اپنے لیے مراعات یا منافع بخش سمجھتے ہیں۔ ہندوستان اس اصول سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ہندوستان کے لوگوں کو بھوکے ہونے پر چاول کھانے یا سردی کے موسم میںاونی کپڑا پہنے کے لیے پیسے دینے کی ضرورت نہیں ہے۔وہ بچے جو گاؤں کے سرکاری اسکول میں ماسٹر سے حروف لکھنا اور ابتدائی ریاضی سیکھتے ہیں، انھیں اسکول یا ماسٹر کی طرف سے ادائیگی نہیں کی جاتی ہے بلکہ ماسٹر کو تعلیم دینے کے لیے معاوضہ دیا جاتا ہے۔ پھر لوگوں کو سنسکرت اور عربی پڑھانے اور سیکھنے کے لیے پیسے دینا کیوں ضروری ہے؟
اگر بارے میں اگر دوسرے شواہد کی ضرورت ہوتو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ سنسکرت کالج کے کئی سابق طلباء نے گزشتہ سال کمیٹی کے سامنے ایک پٹیشن پیش کی تھی۔ ان درخواست گزاروں نے کہا کہ انھوں نے کالج میں دس یا بارہ سال تعلیم حاصل کی ہے، انھوں نے ہندی ادب اور سائنس کا مطالعہ کیا ہے، ان علوم میں انھیں مہارت کی سند ملی ہے اور اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ وہ کہتے ہیں، ہمارے پاس آپ کی معزز کمیٹی کی جانب سے ملنے والے وظیفے کے بغیر اپنی حالت بہتر بنانے کا بہت کم امکان ہے، انھیں ہم وطنوں کی طرف سے بے حسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان سے حوصلہ افزائی اور مدد کی کوئی امید نہیں دیکھتے ہیں۔ اس لیے وہ التجا کرتے ہیں کہ ان کی سفارش گورنر جنرل کو کی جائے کہ انھیں سرکاری محکموں میں نچلے درجے کی نوکریوں پر ایڈجسٹ کرلیا جائے نہ کہ اعلیٰ وقار یا معاوضے کی جگہیں، بلکہ ایسی جگہیں جو ان کے معاشرتی اور معاشی درجے کو بڑھاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ہمیں معقول زندگی گزارنے اور اپنی معاشی بہتری کے لیے وسائل کی ضرورت ہے، جو ہم حکومت کی مدد کے بغیر حاصل نہیں کرسکتے۔ وہ یہ انتہائی دل ہلادینے والی باتیں اس لیے کرتے ہیں کہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ ان کی تعلیم کے دوران ان کے ساتھ اتنا فراغ دلانہ سلوک کرنے کے بعد حکومت کا یہ ارادہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ وہ انھیں بے سہارا اور نظر انداز کردے۔