آپ بھی ایسے بن سکتے ہیں
ایک عورت نسلوں کو تبدیل کرنے کا ہنر رکھتی ہے، آپ کے ارد گرد بھی کوئی نہ کوئی ایسی عورت ضرورہوگی
اس سے پہلے اس محلے کا بھی وہی حال تھا جو کہ آج کل کسی بھی ماڈرن سوسائٹی میں ہوتا ہے ۔ اصل مسئلہ ماڈرن اور غیر ماڈرن ہونے کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب بہت مصروف ہو گئے ہیں اور وقت ہونے کے باوصف بھی ہر وقت تنگیٔ وقت کا رونا روتے ہیں ۔ لوگ ایک دوسرے سے ملاقا ت کرنے کے منصوبے بناتے رہ جاتے ہیں اورایک وقت آتا ہے کہ انھیں وہاں لازمی جانا پڑجاتا ہے جہاں جانے کے لیے وہ ارادہ ہی کرتے رہ گئے ۔
اس وقت دلوں میں بھی اپنی لاپروائی کا احساس ہوتا ہے اور چہرے پر شرمندگی بھی مگر جانے والا یہ سب نہیں دیکھ سکتا ۔ سو اس محلے میں بھی ہر کوئی اپنی اسی بھیڑ چال میں تھا کہ دوڑ ہی دوڑ تھی۔ کوئی سر راہ مل جاتا تو آنٹی، انکل، برو اور سسٹر کہہ کر پکارتا اور سلام کر کے آگے بڑھ جاتا تھا، اس سے زائد سوال کرنے کا وقت ہی نہ ہوتا تھا کیونکہ فون کان سے لگا ہوتا تھا۔
پھر اس محلے میں ایسا انقلاب آیا جیسا کہ ایران میں آیا تھا اور ہم سب بھی سوچتے ہیں کہ ہمارے ہاں کے حالات بھی ایسے ہی کسی انقلاب سے سدھر سکتے ہیں ۔ وہاںپر ایک نیا گھرانہ آ کر آباد ہوا۔ ان کے ہاں گھر میں کوئی مرد تو نہ تھا ، خاتون خانہ تھیں اور ان کے تین بیٹے ۔ اپنا سامان وغیرہ سیٹ کرنے کے بعد، اس خاتون خانہ نے اس محلے میں پہلے اپنے بالکل ساتھ والے ہمسائیوں کے ہاں ایک پلیٹ میں چاول ڈال کر، اوپر سے نفیس سے کپڑے سے ڈھک کر اور ٹرے میں رکھ کر اپنے بیٹے کے ہاتھ بھجوائی تو دیکھنے والوں نے حیرت سے دیکھا کہ وہ وہاں کا رواج نہیں تھا۔
چند دن اور گزرے تو ایسی ہی ٹرے ایک نہیں ، دو نہیں بلکہ تین، اس کے سامنے والے تینوں گھروں میں گئیں ۔ اب جس جس نے وہ ٹرے وصول کی تھی، وہ اسے خالی تو نہیں لوٹا سکتے تھے، جواب میں کسی نے کچھ اور کسی نے کچھ ان کے ہاں بھیجا۔ کسی کے گھر کچھ ایسا نہیں پکا تھا کہ انھیں بھجوا سکے تو انھوں نے ایک پاؤ مٹھائی ہی دکان سے لے کر ان کے ہاں بھجوائی ۔
اپنی پلیٹوں کے لوٹنے کے بعد اس خاتون نے ان سب گھروں میں جا جاکران کا شکریہ ادا کیا کہ نہ صرف انھوں نے اس کی بھجوائی ہوئی حقیر سی سوغات کو قبول کیا بلکہ اس کے جواب میں اتنی اچھی اچھی چیزیں بھجوا کر، اسے اس قابل جاناکہ اس سے ربط بڑھایا جائے ۔ اب اس محلے میں ربط بڑھانا تو دور کی بات، رابطہ رکھنے کا بھی رواج نہ تھا مگر اس خاتون کے انداز میں ایسا کچھ تھا کہ کوئی اسے یہ نہ کہہ سکا کہ بی بی جاؤ، کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔
ان سب اللوں تللوں کا۔ پھر تو اس نے کبھی کچھ بھی اچھا بنایا، خواہ وہ چٹنی یا اچار ہی ہوتا تو وہ درجنوں خالی بوتلوں میں بھرتیں اور اتنے ہی گھروں میں بھجوا دیتیں اور ساتھ پیغام ہوتا کہ اس کی بوتل کو واپس نہ بھیجیں البتہ اگر ان کے گھروں میں کوئی خالی بوتلیں ہوں تو اسے بھجوا دیں کہ ضرورت رہتی ہے ۔ اس نے محلے کی عورتوں کو خالہ، تائی، پھوپھو، چچی، خالہ، آپا اور بہنا بنا لیا اور آدمی... بابا، چچا ، تایا بڑے بھائی ، بھیا اور بیٹا بن گئے۔
وہ اتنی باخبر رہتیں کہ اگر کسی کے گھر سے کوئی باہر نکلتا تو وہ باہر نکل کر پوچھتیں کہ کہاں جا رہے ہیں، اگر کوئی اسپتال جاتا اور اسے علم ہوتا کہ وہ بیمار ہے تو ان کے ہاں اس کی واپسی تک اس کے لیے کھچڑی، دلیہ، قہوہ یا یخنی تیار ہوتی اور ان کے گھر اسی طرح نفاست سے بھجوائی جاتی۔ کسی کو بیماری تکلیف ہوتی اور کوئی اور ان کو اسپتال لے کر جانے والا نہ ہوتا تو انھیں اسپتال تک لے جانا، کسی کی ماں بہن کا انتقال ہوتا تو میت کو غسل دینے کا فریضہ بھی سرانجام دیتیں ۔
اپنے عمدہ طرز تخاطب کے علاوہ اس گھر کے لوگوں میں اور بھی بہت سی صفات تھیں کہ جنھوں نے انھیں سب سے ممتازکر دیا تھا۔ باتمیز، باشعور، سلجھے ہوئے اور باادب بچے، سلیقہ شعار خاتون خانہ یہی صفات انسان کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ باقی گھروں میں والدین ان بچوں کے گھر کی مثالیں دیتے تھے، وہ محلے بھر کا ایک آئیڈیل گھرانہ تھے۔
اسی لیے کہتے ہیں کہ ایک عورت نسلوں کو تبدیل کرنے کا ہنر رکھتی ہے، آپ کے ارد گرد بھی کوئی نہ کوئی ایسی عورت ضرورہوگی، ہے کہ نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں آپ خود وہ عورت بن جاتیں !!!