دھوم ہماری زباں کی
آج پاکستانی طلبہ اگر جرمنی تعلیم حاصل کرنے جانا چاہیں تو انھیں پہلے جرمن زبان سیکھنا پڑتی ہے
ہم اور آپ جو اتنا لکھ رہے ہیں ، اردو اخبارات میں جو کچھ شایع ہو رہا ہے۔ اردو میں جو اتنا علمی، تاریخی، مذہبی، سائنسی معلومات کا ذخیرہ ہے۔ ادب، شعرو شاعری کا جو خزانہ ہے محض چند برس بعد (بلکہ آج بھی) کوئی اس سے استفادہ کرنے والا بھی نہ رہے گا۔ انگریزی نے پاکستان سے اردو کا ''دیس نکالا'' کردیا بلکہ پورے برصغیر سے۔ ہم انگریزی بول، پڑھ لکھ کر خوش ہیں اردو کا معیار دن بہ دن پست ہوتا جا رہا ہے۔ اردو کی جنگ لڑنے والے بھی تھکے ہوئے اور مایوس نظر آتے ہیں۔ ترقی اردو اور نفاذ اردو کی تمام کوششیں سرد پڑچکی ہیں۔
بظاہر تو شہر شہر اردو فیسٹیول کانفرنسز، عالمی مشاعرے اور دنیا بھر سے اردو کے جید اسکالرز کو جمع کیا جا رہا ہے اردو کے مستقبل کو تابناک اور روشن قرار دیا جا رہا ہے مگر یہ اعلیٰ سطحی کاوشیں تعلیمی اداروں میں اردو کے گرتے ہوئے معیار کو سہارا دینے کے لیے کچھ نہیں کر رہیں۔ صرف ادبی ذوق کے حامل افراد کی دلچسپی کا سماں مہیا کر رہی ہیں۔ یہ ساری کاوشیں اس وقت تک بارآور ثابت نہیں ہوسکتیں جب تک کہ تعلیمی اداروں سے اردو دان اردو فہم وادراک رکھنے والے اور زبان و ادب کا ذوق رکھنے والے نکل کر معاشرے کا حصہ نہ بنیں۔
اس کے برعکس بڑی خوبصورتی سے تعلیمی اداروں سے اردو سے نابلد طلبہ کی کھیپ برآمد کی جا رہی ہے جو فخریہ انگریزی میں بات کرتے ہیں اور اردو بولنے والوں کا نہ صرف منہ تکتے ہیں بلکہ ناگواری سے ان کی طرف دیکھتے ہیں۔ تو ایسے میں وہ عالمی و ادبی ذخیرہ آئندہ نسلوں کے کس کام کا رہ جائے گا۔ جب کہ یورپ نے مسلمانوں کے علمی ذخیرے کو ترجمہ کرکے علم کا میدان مار لیا اور آج ہم اپنے ہی محققین کے کارناموں سے بذریعہ انگریزی واقفیت حاصل کرنا قابل فخر محسوس کرتے ہیں اور ان مفکرین کے اصل (عربی) ناموں کو بھی انگریزی انداز سے جانتے ہیں۔
اس صورت حال سے اردو کو جو نقصان ہو رہا ہے وہ الگ کہانی ہے مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم نے علمی و ذہنی استعداد کا بھی صرف الٹی سیدھی انگریزی بولنے یا سمجھ لینے کو معیار مقرر کردیا ہے۔ اب اردو ذریعہ تعلیم سے کوئی بھی اعلیٰ ڈگری یا لیاقت رکھنے والا ہر ترقی اور ہر اعلیٰ عہدے کے حصول کے لیے نااہل قرار پائے گا کیونکہ اپنے مضمون یا شعبے پر دسترس ہو یا نہ ہو تمام اعلیٰ مناصب انگریزی جاننے والوں کی دسترس میں ہیں۔ اردو اچھی طرح نہ بولنے لکھنے والے لاکھوں قابل ہوں کوئی بڑے عہدے کے لیے ان کو نہیں پوچھے گا۔
حتیٰ کہ اسکول و کالج میں اردو اساتذہ کے انتخاب کے وقت بھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ انگریزی لکھنا، بولنا اور پڑھنا آتا ہے کہ نہیں۔ کیونکہ نتائج کے ساتھ جو اساتذہ کی (ہر مضمون کے اساتذہ) رائے طلبہ کے لیے دی جاتی ہے وہ انگریزی میں ہی لکھی ہوتی ہے۔ انگریزی داں طبقے کو اگر اردو نہیں آتی تو باعث شرمندگی نہیں مگر اردو داں افراد اگر کسی لفظ کو غلط تلفظ سے ادا بھی کردیں تو ان کا مذاق بنایا جاتا ہے۔ اگر اردو داں بلکہ گھریلو اور معمولی پڑھی لکھی خواتین بھی کوئی لفظ غلط انگریزی میں ادا کردیں تو انھیں شرمندہ کیا جاتا ہے۔ مگر ایسے بااعتماد لوگ بھی ہیں جو اسی صورتحال میں مدمقابل کو جواب دیتے ہیں کہ آپ ذرا فصیح اردو میں ایک دو جملے ہی ادا کرکے دکھا دیجیے۔
غرض کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اردو اساتذہ کو بھی انگریزی سیکھنا ضروری ہے کیونکہ اساتذہ کے ماہانہ اجلاس (میٹنگ) انگریزی ذریعہ تعلیم کے تعلیمی اداروں میں انگریزی ہی میں ہوتی ہیں۔ ان اساتذہ سے جو کچھ پوچھا جاتا ہے وہ بھی انگریزی میں وہ چاہیں تو جواب اردو میں دے سکتے ہیں مگر جواب تو تب ہی دیں گے جب سوال سمجھ گئے ہوں گے تو بہرحال انگریزی جاننا ان کی ضرورت تو قرار پائی۔
امریکا کی بیشتر جامعات میں دیگر مشہور زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو بھی بڑی مستعدی سے سکھائی جا رہی ہے۔ آج آپ امریکا کا ویزا لینے جائیں تو آپ سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ انٹرویو اردو میں دیں گے یا انگریزی میں؟ اس کا مطلب ہم سمجھے تھے کہ شاید انھوں نے پاکستانیوں کی خدمات حاصل کی ہیں مگر جب انٹرویو ہوا تو ایک امریکن خاتون نے بڑی سلجھی ہوئی شستہ اردو میں ہمارا انٹرویو لیا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک خبر بھی ہماری نظر سے گزری تھی کہ ''اب امریکن آپ سے اردو میں بات کریں گے۔'' لیکن ہمیں شرم نہ آئی کہ ہم بھی اپنی زبان کو ذریعہ گفتگو بنائیں۔
بہرحال امریکا ہی نہیں برطانیہ، چین، جاپان وغیرہ کی جامعات میں بڑی تعداد میں طلبہ اردو پڑھ رہے ہیں۔ ٹوکیو یونیورسٹی کی ایک طالبہ جو اردو میں ماسٹر کر رہی تھی پاکستانی تعلیمی اداروں میں اردو تدریس کا مشاہدہ کرنے کے لیے آئی ہوئی تھی ایک دن میری پرنسپل ان خاتون کو میری جماعت میں لائیں اور تعارف کے بعد کہا کہ یہ طریقہ تدریس کا مشاہدہ کرنا چاہ رہی ہیں یہ آپ کی کلاس میں بیٹھیں گی۔ میں نے خوش دلی سے ان کو خوش آمدید کہا اور ان کو بٹھایا میں طلبہ کو ناول امراؤ جان ادا کے کردار پڑھا رہی تھی ،طلبہ کے ساتھ انھوں نے بھی مجھ سے دو چار سوالات کیے جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ نہ صرف انھوں نے یہ ناول بلکہ ہمارا خاصہ کلاسیکل ادب پڑھا ہوا ہے۔
یہ بات تو برسبیل تذکرہ درمیان میں آگئی اصل بات جو میں کہنا چاہ رہی ہوں وہ یہ ہے کہ اردو برصغیر (خصوصاً پاکستان) سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل رہی ہے بلکہ دنیا کی مقبول زبانوں میں شمار کی جا رہی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق دنیا کی تیسری بڑی اور ایک کیمطابق چوتھی بڑی زبان اردو ہے۔ میں پہلے ہی عرض کرچکی ہوں کہ اردو کو کبھی بھی سرکاری سرپرستی حاصل نہ ہوسکی بلکہ اس کو مٹانے اور ختم کرنے کے لیے طرح طرح کے بہانے اور تعصب اختیار کیے گئے۔ بھارت کی ایک شاعرہ کا شعر ذہن میں آرہا ہے کہ
زبان ہند ہے اردو تو ماتھے پر شکن کیوں ہے؟
وطن میں بے وطن کیوں ہے وطن میں بے وطن کیوں ہے؟
مگر اردو بھی ماشاء اللہ اتنی سخت جان ہے بلکہ مثبت انداز میں یوں کہنا چاہیے کہ اردو میں وہ طاقت وہ قوت برداشت ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود ختم ہونے کے بجائے پوری دنیا میں سمجھی اور بولی جانے لگی ہے بلکہ پڑھائی بھی جانے لگی ہے۔ داغ دہلوی اپنے زمانے میں ہندوستان (برصغیر) ہی کو بہت اہم اور بڑا سمجھتے تھے اگر آج ہوتے تو ''ہندوستان میں دھوم ہماری زباں کی ہے'' کے بجائے کہتے
اردو ہے جس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
لہٰذا جو لوگ اردو کا مستقبل تابناک قرار دیتے ہیں شاید وہ بھی غلط نہیں کہتے۔ اگر پاکستان سے اردو ختم کرنے کا تہیہ کرلیا گیا ہے تو بات دوسری ہے اردو کے چاہنے والے اس کے لیے دوسرے مقامات دریافت کرلیں گے۔ اردو زندہ بھی رہے گی اور ترقی بھی کرے گی مگر افسوس ہم غلامانہ ذہنیت کے مالک تو مغرب کی اندھی تقلید کو باعث شرم سمجھنے کے بجائے باعث افتخار سمجھتے ہیں۔ ملکی یکجہتی کے تمام اداروں کو محض اپنی تنگ نظری، جہالت اور ذاتی مفاد کی خاطر تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ آخر کیا بات ہے کہ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک ہم سے زیادہ برے حالات سے گزر کر بلکہ تباہی کے بعد (جاپان، جرمنی) بھی آج ہم سے زیادہ ترقی یافتہ اور پرامن ممالک ہیں وجہ اس کی یہ ہے کہ انھوں نے اپنی قومی زبان و ثقافت پر کسی بھی حال میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اپنے بچوں کو اپنی زبان میں تعلیم مہیا کی۔
آج پاکستانی طلبہ اگر جرمنی تعلیم حاصل کرنے جانا چاہیں تو انھیں پہلے جرمن زبان سیکھنا پڑتی ہے اور ہمارے وہ طلبہ جو اردو (لازمی) کی کلاس سے بھی غائب رہتے ہیں وہ جرمنی خوشی خوشی سیکھ لیتے ہیں(اردو کو تکنیکی مشکل قرار دینے کے بارے میں بھی کئی اعتراض ہوتے ہیں جب کہ یہی تمام اعتراضات انگریزی پر بھی عائد ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک الگ اور طویل موضوع ہے جس پر ایک مکمل کالم کی ضرورت ہے لہٰذا اس پر پھر کبھی سہی) اس کالم کا اختتام تو میں صرف اس گزارش پر کرنا چاہوں گی کہ جو قومیں اپنی زبان، ثقافت اور تہذیبی اقدار کو فراموش کردیتی ہیں وہ دنیا میں نہ آگے بڑھ سکتی ہیں اور نہ ترقی کرسکتی ہیں خاص کر وہ جنھوں نے اپنی قومی زبان کو نظرانداز کیا (کیونکہ باقی سب کچھ زبان کے ساتھ ہی منسلک ہے) ایسی قوموں کے لیے یہی کہنا کافی ہے کہ ''تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں'' ترقی و خوشحالی کی تو باتیں ہے۔ (دلی ہنوز دور است)