مسلم دنیا پر قبضے کا نقشہ
عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ، جنگ کا تمام تعاون عراق سے وصول کرنے کے لیے سو سالہ معاہدے بنائے گئے
مغرب ، صیہونی طاقتوں اور ان سے وابستہ مفاد پرست گروپوں نے دنیائے اسلام میں تفرقہ ڈالنے اور اسے بحران میں مبتلا کرنے کے لیے گھنائونی سازشوں کا جال بُنا ہوا ہے۔صیہونی طاقتیں مشرق وسطی سمیت پوری دنیا کے مسلم ممالک کا نقشہ اپنے مفادات کے لیے اپنے طور مرتب کرکے اسے دنیا بھر کے مسلمانوں پر عائد کرنا چاہتی ہیں۔صیہونی طاقتیں یہ بھی اچھی طرح جانتی ہیں کہ جب تک امت واحدہ کے تصور کو ختم نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک ان کے مقاصد پورے نہیں ہوسکتے۔
یہی وجہ ہے اسلام کے نام پر فقہی ، گروہی اور فرقہ وارانہ چپقلشوں اور اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صیہونی طاقتیں اپنا من پسند کھیل ،کھیل رہی ہیں۔ اس سازش کی ابتدا برطانیہ اور فرانس نے اس وقت کی تھی جب 1916ء میں فرینکوئس جارجیس پکٹ اور مارک سائکس نے سلطنت عثمانیہ کی تقسیم کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے اور موجودہ مشرق وسطی کا نقشہ کھنچا تھا۔ اس معاہدے کے تحت سرزمیں عرب و اسلام کے قلب میں یہودیوں کو لاکر آباد کرنا مقصود تھا ، یورپی ممالک اور اسرائیل آج بھی اپنے منصوبوں پر کامیابی سے عمل پیرا ہیں کیونکہ ان کی نظر میں مشرق وسطی کی جو سرحدیں یورپ سے متصل ہیں ، وہ کافی نہیں ہیں۔
2006 میں امریکی فوج کے لیفٹینیٹ کرنل(ر) رالف پیٹرس نے اپنی بد نام زمانہ کتاب ''بلڈ باڈرز''(خونی سرحدیں)میں مشرق وسطی کا ازسر نو نقشہ بنانے کے صیہونی دلائل پیش کیے تھے تاکہ یہاں مغربی طاقتوں کو اپنے مقاصد پانے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔پیٹرس نے لکھا تھا کہ ''غیر فعال سرحدوں کی وجہ سے مشرق وسطی کے لیے جو مسائل پیدا ہورہے ہیں ، ان سے بھی بڑے مسائل کا تعلق اس خطے پر طاری ہونے والی تہذیبی جمود اور یہاں سر ابھارنے والی مذہبی شدت پسندی سے ہے ۔ اس خطے کی ناکامی کی وجہ صرف اسلام نہیں ہے (نعوذباللہ) بلکہ وہ بین الاقوامی سرحدیں ہیں،ہمارے سفارتکار جن کا حد درجے احترام کرتے ہیں۔
یہ مسلم دنیا پر قبضہ کا بلیو پرنٹ ہے اور اس کے نشانے پر عرب جزیرہ نما سے لے کر ایران، عراق، شام، ترکی، افغانستان اور پاکستان سے لے کر مشرقی ایشیا کے سبھی مسلم ممالک شامل ہیں۔جب کہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرنیوالے ٹوبی بلیئر کا کہنا ہے کہ'' عراق میں حالیہ شورش کا الزام 2003ء میں عراق پر اتحادی فوجوں کی چڑھائی پر نہیں لگایا جاسکتا ، اگر اس وقت صدام حسین کا تختہ نہ بھی الٹا جاتا تب بھی عراق کو آج بڑے مسئلے کا سامنا ہوتا ۔''جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور اس کے حواریوں نے عراق اور افغانستان میں فوج کشی کرکے وہاں عدم استحکام کی جو بنیاد رکھی ہے اس کا مدوا کسی کے پاس نہیں ہے۔جب بھی عراق کی تباہی کی تاریخ رقم کی جائے تو سب سے پہلے امریکا اور اس کے اتحادیوںکا نام لکھا جائے گا ۔
دولت اسلامیہ فی العراق و الشام ( آئی ایس آئی ایس ) یا داعش کا وجود ،دراصل کٹھ پتلی وزیر اعظم نوری المالکی کی فرقہ وارانہ پالیسوں کی پیداوار ہے اس عسکریت پسند گروہ نے اپنے سرگرمیاں عراق اور شام میں جاری رکھی ہوئی ہیں اور مبصرین درست سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ داعش القائدہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے خطرناک گروپ بنتا جارہا ہے ۔ عراق کو آمریت کے چنگل سے نکال کر کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے کے دعوے داروں نے بظاہر عراقی عوام کو صدام حسین سے نجات دلانے کے لیے عراق پر لشکر کشی کی تو اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ اس جنگ جوئی میں کم و بیش پندرہ لاکھ انسانوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ، جنگ کا تمام تعاون عراق سے وصول کرنے کے لیے سو سالہ معاہدے بنائے گئے ، تیل کے ذخائر کو اپنے تصرف میں لانے کے لیے ارزاں ترین نرخوں پر عراق کے تیل کے وسائل پر قبضہ کرلیا گیا ، جنگ خود مسلط کی اور تمام تر خراج عراق کے عوام سے وصول کیا جا رہا ہے،کویت کو ہرجانے کے طور پر اربوں ڈالرز مالیت کے تیل کے ڈخائر کی آمدنی وقف کردی گئی۔اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے بعد امریکا مالیاتی دیوالیہ ہونے سے بچ گیا اور اس نے نمائشی بنیادوں پر 2011ء میں لاکھوں انسانوں کی لاشوں پر کٹھ پتلی جمہوریت کا کتبہ رکھ دیا کہ یہاں جمہوریت کے لیے بے دریغ ہلاک کیے جانے والوں کی لاشیں ہیں۔
ایک کٹھ پتلی وزیراعظم نوری المالکی کو ایک تربیت یافتہ فوج فراہم کرتے وقت یہ خوش فہمی تھی کہ ان کے اقتدار کو قائم و دائم رکھنے کا واحد وسیلہ ثابت ہوگی ۔ نوری کی فرقہ وارانہ پالسیوں کی بنا پر گزشتہ چند دنوں کے دوران عراق میں داعش جنگجوئوں نے ایسی کاروائیاں سر انجام دیں کہ نوری المالکی کی فوج ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور ایک جھٹکے میں نوری المالکی کے پیروں سے زمیں نکل گئی اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ ''القاعدہ اور داعش کی افرادی قوت سرکاری فوج اور پولیس کے مقابلے میں انتہائی کم تھی لیکن پھر کیا ہوا اور کیوں کر ہوا ، فوجی یونٹ آنا فانا ہتھیار کیوںڈالتے چلے گئے۔''عراقی فوج کے ترجمان لیفٹینٹ جنرل قاسم عطا ء کا کہنا ہے کہ القائم ، راد اور عناہ سے عراقی فوج کی پسپائی حکمت عملی کے تحت کی گئی ۔
عراقی عسکریت پسندوں نے 1932 کی نو آبادیاتی طاقتوں کی طرف سے شام اور عراق کے درمیان کھینچی گئی سرحدی لکیر ختم کرکے القاعدہ کے متحارب گروپ کے پانچ جنگجوئوں نے عراق اور شام کو ایک مملکت بنانے کا دعوے اور اگلی ہدف اردن اور لبنان کو قرار دیا ہے۔جب کہ ان کے مقابلے پر مقتدی الصدر کی اپیل پر شیعہ ملیشیا گروپ ''مہدی آرمی'' قائم کردی گئی ہے ۔بصرہ اور العمارہ میں انھوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ نوری المالکی کے پاس امریکی ساخت کے اپاچی ہیلی کاپٹر ، گن شپ ، ایف سولہ لڑاکا طیارے اور جدید ترین ٹینکوں اور اسلحے کی بھرمار ہیں لیکن اس کے باوجود اس نے امریکا سے مدد کی درخواست کی جسے امریکا نے فوری طور پر رد کردیا اور اپنے سفارتخانے کی حفاظت کے لیے تین سو فوجی بھیج دئیے۔امریکی حکام نے عراقی فوج کی تعمیر نو پر سولہ ارب ڈالر خرچ کیے تھے لیکن اس کے باوجود امریکا کی تمام منصوبہ بندیوں کو بظاہر ناکامی کا سامنا ہے مجموعی طور پر اس وقت خانہ جنگی کی بدترین صورتحال ہے ، جس کی تمام تر ذمے داری امریکا اور اس کے اتحادیوں پر عائد ہوتی ہے۔ دراصل یہ امریکا کا مسلم دنیا پر قبضہ کا بلیو پرنٹ ہے۔
سنی شیعہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوئے ہیں ۔عالم اسلام کو مسلک اور عقیدے کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا اس سے بہتر منصوبہ اور کیا ہوسکتا ہے جو اس وقت عراق ، شام میں ہو رہا ہے۔ اتحاد بین المسلمین کے لیے دونوں طرف کے سیاسی قائدین، حکومتیں ، مذہبی علماء اور سماجی ادارے اس تفریق کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے سر جوڑ کر نہیں بیٹھیں گے اس کا سلسلہ چلتا رہے گا اور یہ بہت بڑی مصیبت صرف عراق تک محدود نہیں رہے گی ۔ جب صیہونی طاقتیں پوری دنیا کے مسلم ممالک کا نقشہ اپنے مفادات کے لیے تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو تمام اختلافات پس پشت ڈال کر باہمی اتفاق و اتحاد سے اس کا مقابلہ کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ صلیبی جنگوں کی شکست کا داغ ابھی تک ان کے دلوں سے نہیں جارہا اور مسلم دنیا پر قبضہ کرنے کے لیے مصروف ہیں۔