فرعون شکست کھا سکتا ہے

کسی بھی معاشرے یا قبیلہ میں آسائش صرف چند فیصد لوگوں کے نصیب میں ہی نظر آتی ہے


راؤ منظر حیات June 29, 2024
[email protected]

ملک کے حالات 1947میں جیسے تھے۔ آج بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ مشکلات کی نوعیت بہرحال بدلتی رہتی ہے۔ مگر گھمبیر مسائل ' مگر مچھ کی طرح' لوگوں کو زندہ نگل رہے ہیں۔ شروع سے ملاحظہ فرما لیجیے۔ مہاجرین اور سیٹلمنٹ کلیمز کے نام پر جو کھلواڑ کھیلا گیا۔


آج وہی بدنصیبی ' آئی پی پی کے عفریت نما نام پر عوام کی زندگی اجیرن کر چکی ہے۔ 1947 میں بھی امیر آدمی آسودہ تھا اور آج بھی وہی کیفیت ہے۔ جوہری طور پر بدنصیبی کا قافلہ سیل رواں کی طرح گامزن ہے۔ لوٹ مار پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے۔ اب سوال یہ کہ ایک عام انسان کو ملک میں زندگی گزارنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ یہ وہ جوہری سوال ہے جس کا جواب موجودہ اور ماضی کے بزرجمہر کبھی بھی نہیں دے سکے۔


آج بھی کسی ٹی وی چینل' کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ' کسی بحث ' کسی سیمینار میں چلے جائیں۔ بڑے بڑے قلغی والے ماہرین مسائل در مسائل بتائیں گے۔ مگر جب ان سے سوال کریں کہ اعلیٰ حضرت' اس کا حل کیا ہے۔ تو آئیں بائیں شائیں شروع ہو جائے گی۔ یہ نہیں کہ مسائل کو حل نہیں کرنا چاہتے۔ بالکل نہیں' تمام صائب لوگوں کی دلی خواہش ہے کہ پیچیدہ ترین مسئلے' کسی نہ کسی طور پر ختم ہوں۔ مگر یہ صرف ذہنی خراش کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔


کسی کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہراتا ۔ کسی ادارے کو بھی برائی یا زیادتی کا منبع نہیں گردانتا۔ جو نظام ہمیں دیا گیا ہے جس میں ہم پیدا ہوئے ہیں۔ وہ ناپاک نظام کم از کم ہمارے ملک میں اتنا توانا ہو چکا ہے کہ کوئی اندرونی طاقت اسے بدلنے کی کوشش تک نہیں کر سکتی بلکہ سوچ تک نہیں سکتی۔ اس نظام میں اگر نوے فیصد لوگوں کے لیے آنسو' تکلیف اور اندوہ ہے تو جناب وہیں دس فیصد افراد کے لیے دنیا کا ہر آرام اور سہولت ہے۔ صرف اپنے ملک کی بات نہیں کر رہا۔ جب سے دنیا قائم ہے۔


کسی بھی معاشرے یا قبیلہ میں آسائش صرف چند فیصد لوگوں کے نصیب میں ہی نظر آتی ہے۔ چلیے' تاریخ سے مثالیں اٹھا کر دیکھیں۔ فراعین مصر اپنے دور کے سب سے طاقتور اور امیر ترین افراد تھے۔ان کے مال و دولت کا اندازہ تک نہیں لگایا جا سکتا۔ مگر فراعین مصر کی تعداد صرف اور صرف ایک سو ستر (170) تھی۔ اور کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ان دو سو سے بھی کم بادشاہوں نے مصر پر کتنا عرصہ حکومت کی۔ تو دل تھام کر سنیے۔ ان کی حکومت کا پورا دورانیہ ' تین ہزار اور دو سو برس تھا۔ مگر اب اس ترتیب کو الٹا کر لیجیے۔ ان بتیس صدیوں میں' مصر میں کتنے عام لوگ اور غلام موجود تھے۔


قیافہ صرف یہ ہے کہ فراعین مصر کے دور میںعوام کی تعداد دس لاکھ سے لے کر چالیس لاکھ کے لگ بھگ تھی اور اس میں غلاموں اور لونڈیوں کی تعداد بھی شامل تھی۔ اگر پورا حساب کر لیں تو تین ہزار برس میں ' لوگوں کی تعداد پانچ یا چھ کروڑ ہو سکتی ہے۔ اب فراعین مصر کے علاوہ ان عام لوگوں میں کسی کا نام 'کسی کا نام و نشان اور کسی کا حسب نسب بتا دیں۔ تمام تاریخ اس پر خاموش ہے۔ اس کے برعکس فراعین کے نام اور فہرست مکمل طور پر موجود ہے۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ دنیا کے ابتدائی دور سے عام آدمی ہمیشہ بے حیثیت رہا ہے۔


مگر! کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ دنیا آج سے تقریباً تین سو برس قبل ' صنعتی انقلاب اور انسانی ذہن اس معراج کی طرف دوڑنا شروع کر دے گا۔ جہاں عام سے آدمی کے بھی حقوق موجود ہونگے۔ حکومت سازی میں ووٹ کے ذریعے ' اس کا بھی ایک رول ہو گا۔ یورپ نے وہ فکری اور سائنسی انقلاب برپا کیا' جس نے ہزاروں برس پرانی دنیا کی بنیادیں برباد کر کے رکھ دیں۔ امریکی اور برطانوی صدر اور وزیراعظم کے بھی وہی حقوق ہیں جو ایک عام آدمی کے ہیں۔ پھر یہ کلیہ یورپ کے علاوہ دنیا کے صرف چند ممالک نے اپنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ گل و گلزار بن گئے۔


ہندوستان ' ووٹ کی طاقت کی سب سے بڑی مثال بن کر دنیا میں ابھرا۔ آج وہ ایک بین الاقوامی صنعتی طاقت بننے کی طرف گامزن ہے۔ مسلمان ممالک نے صنعتی انقلاب کے کچھ خواص اپنانے کی ضرور کوشش کی ۔ مگر وہ دنیا میں برپا فکری انقلاب سے مکمل طور پر خوف زدہ ہو گئے۔ انھوں نے وہی فراعین مصر کی پالیسی کو برقرار رکھا کہ ریاست کے تمام وسائل کو شخصی وسائل میں بدل دیا۔ مشرق وسطیٰ کے حالات دیکھ لیں۔ وہاں کے شاہی خاندان' ملک کے تمام وسائل پر جن کی طرح قابض ہیں۔ اگر کوئی انسانی حقوق یا لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کی بات کر ے' تو اسے غدار قرار دے کر مار دیا جاتا ہے۔


مشرق وسطیٰ کی کسی جیل کو دیکھیں۔ اس میں آپ کو وہ لوگ بدترین حالت میں نظر آئیں گے۔ جنھوں نے ''اسٹیٹس کو'' تبدیل کرنے کی بات کی تھی۔ 2018 کی بات کرتا ہوں۔ جمال خشوگی کا قصور کیا تھا۔ کہ وہ انسانی حقوق اور مساوات کی اذان دے رہا تھا۔ اسے ہلاک کر دیا گیا۔ اس طرح کے معاملات بہر حال آج بھی مشرق وسطیٰ کے اندر جاری و ساری ہیں۔ وہاں ابلاغ عامہ کا کوئی مربوط نظام نہیں ہے۔ لہٰذا بیرونی دنیا کو معلومات کم ہی ملتی ہے۔


مگر پاکستان' اسلامی دنیا کا ایک اچھوتا تجربہ تھا۔ مغربی اداروں سے فارغ التحصیل لوگوں نے جمہوریت' انسانی حقوق' معاشی اور سماجی ترقی کے نام پر' ووٹ کی طاقت سے ایک بے نظیر مملکت کو جنم دیا۔ مگر حددرجہ قلیل عرصہ میں ' وہ تمام منفی قوتیں جو تبدیلی سے اپنے مفاد پر زد پڑتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ اس انقلابی ریاست کی جڑوں میں بیٹھ گئی۔ انھوںنے طاقت کے بل بوتے پر پورے نظام پر قبضہ کرلیا اور ملکی وسائل پر قابض ہو گئے۔ اور ایک طبقہ فراعین مصر میں تبدیل ہو گیا۔ حقیقت بالکل سادہ سی ہے۔ عام آدمی کو صرف اور صرف سانس لینے کی اجازت تھی اور ہے۔ مگر ایک معاملہ اس صورت حال کے لیے حددرجہ مہلک ثابت ہوا۔


ابلاغ کے جدید ذرایع نے دنیا میں ہر چیز کو کھول کر سب کے سامنے رکھ دیا۔ اسٹیٹس کو کا نظام' اس ابلاغ کا کہیں بھی دلیل کی بنیاد پر مقابلہ نہیں کر سکا۔ لہٰذا ہمارے جیسے ممالک میں بزور شمشیر تبدیلی کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ مگر یہ کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ کیونکہ ' فکری آزادی' وہ توانائی ہے جو ممولہ کو شاہین سے لڑا سکتی ہے۔ جس کے لیے عام آدمی اپنی زندگی بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔


بات کہاں سے شروع کی تھی۔ اور کہاں نکل گئی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ملک میں لوگوں کو ترقی کرنے کے لیے یکساں یا بہتر مواقع موجود نہیں ہیں تو کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ مجھے آیندہ بیس پچیس برس میں کوئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آ رہی ۔ پہلا رد عمل تو مکمل طور پر قدرتی ہے۔ جو نوجوان بچے اور بچیاں ' مغربی ممالک میں جا سکتے ہیں۔ انھیں فوراً چلے جانا چاہیے۔ بہرحال زندگی وہاں بھی آسان نہیں ہے۔ دوسرا قدم یہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ کہ سرکاری یا نجی نوکری کی طرف بھاگنے کے بجائے اپنا مقدر' خود اپنے ہاتھ میں لے لیجیے۔ چھوٹے سے چھوٹا کاروبار کیجیے۔ یقین فرمایے کہ اپنے اوپر اعتماد کر کے ' معمولی سا کام شروع کریں۔


تھوڑے سے عرصے میں اپنے چمکتے ہوئے مقدر کو دیکھ کر خود حیران ہوجائیں گے۔ کسی فیکٹری یا مل کی بات نہیں کر رہا۔ اگر آپ صرف صاف ستھرے کھانے کی ریڑھی لگا لیں' بہترین فروٹ کی دکان کھول لیں۔ ایمانداری کو اپنا شعار بنائیں تو پھر دیکھیے کہ ترقی کس طرح آپ کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ محنت کیجیے۔ پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے ۔ اقتدار پر قابض فرعون' آپ کے لیے بے معنی ہو جائیں گے۔


ہاں ایک اہم نکتہ اور بھی ہے اگر ابتدائی طور پر آپ کسی چھوٹے یا بڑے کام میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ توہمت نہ ہاریئے ۔ خدا پر بھروسہ کر کے دوبارہ کام کریں۔ اگر خدانخواستہ پھر کامیاب نہیں ہوتے ۔ تو قطعاً مایوس نہ ہوں۔ تیسری بار بھی لگاتار کوشش کیجیے۔ یقین فرمایے کامیابی ہر صورت میں آپ کے قدم چومے گی۔ کسی کا بھی انتظار نہ کریں۔ غیبی مدد بھی اس وقت آئے گی جب آپ خود محنت کریں گے۔ فرعونوں کو زیر کرنے کا واحد حل ' آپ کی اپنی محنت ہے۔ اس میں آپ کی کامیابی کو کوئی نہیں روک سکتا!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔