ٹیکس اور آئی ایم ایف

حکومت کو چاہیے کہ ٹیکس وصولی کا رخ اشرافیہ کی جانب رکھے



دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کے جتنے ممالک بھی آزاد ہوئے تقریباً تمام غریب تھے۔ سوائے چند ایک ممالک کے۔ اب ان غریب ممالک جنھیں ترقی پذیر ممالک کا نام دیا گیا انھیں مالی وسائل کی سخت ضرورت ہوئی۔ ان کے اپنے ملکی یا مقامی وسائل جوکہ زیادہ تر زراعت، گلہ بانی یا کان کنی، ماہی گیری غرض اس قسم کے وسائل تھے جن میں صنعتکاری کا عمل دخل نہایت ہی کم تھا۔


اس کے ساتھ ہر ملک کو ترقی کی خواہش کے باعث مالی وسائل کی ضرورت محسوس ہوئی، چنانچہ ایسے موقعے پر انھوں نے امیر صنعتی ممالک کی جانب رجوع کیا۔ دوسری طرف آئی ایم ایف اور عالمی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے شکست و ریخت سے دوچار یورپی ممالک کی تعمیر و ترقی اور امداد میں سرگرمی سے حصہ لے رہے تھے۔


ترقی پذیر ملکوں نے امیر ممالک سے تعاون طلب کرنا شروع کردیا اور ان ملکوں نے اپنے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے مالی امداد یا سرکاری سطح پر قرض دینے یا امداد دینے کا آغاز کیا۔ غریب ممالک کی برآمدات کا انحصار زیادہ تر زراعت پر تھا۔ عالمی خوراک کی منڈی ہو یا زراعت پر مبنی صنعت کی منڈی ہو، ان تمام پر ترقی یافتہ ملکوں کی گرفت مضبوط تھی، لہٰذا ان امیر ممالک نے اس بات کو محسوس کرتے ہوئے کہ بہت سی مصنوعات اور مشینریوں، پرزہ جات، ادویات، زرعی مشینری، کپڑے، ادویات، کھاد اور بہت سی ضرورت کی اشیا جو کہ کسی ملک کی ترقی کے لیے ضروری تھیں ان کی قیمتیں بلند کردیں اور بلند رکھی گئیں۔


قیمتیں گرنے نہ دی گئیں جب کہ عالمی منڈی میں زرعی اشیا کی قیمتوں میں کمی بیشی کا سلسلہ جاری رہا اور 60 کی دہائی تک پہنچتے پہنچتے ان ملکوں کو زری، مالیاتی، ساخت تمائی اور کئی معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری طرف 1973 میں تیل کی قیمت میں اضافے نے بڑھتے ہوئے درآمدی بل کے باعث ادائیگیوں کے توازن میں خسارے کو ناقابل برداشت بنانا شروع کردیا۔ ایسے میں آئی ایم ایف کا کردار بھی بڑھ گیا اور بالآخر دنیا نے دیکھا کہ 1976 سے 1979 تک عالمی پیمانے پر افراط زر نے کس طرح سے عالمی معیشت کو جکڑ لیا تھا، لیکن 1979 سے 1983 تک عالمی معیشت میں کئی طرح کے غیر معمولی واقعات رونما ہوئے۔


اس دوران تیل کی قیمت میں کبھی کمی یا کبھی اضافہ بھی دیکھنے میں آیا۔ ترقی یافتہ ممالک نے بڑھتے ہوئے افراط زر کو کنٹرول کرنا شروع کیا تاکہ اپنے اپنے ملکوں کے شہریوں کو رام کیا جاسکے، لیکن اس کے منفی اثرات غریب ملکوں میں محسوس کیے گئے، افراط زر کو بہت سے ملکوں نے جب کنٹرول کرنا شروع کر دیا تو عالمی پیمانے پر کساد بازاری کا آغاز ہوا۔ اس تمام صورت حال نے ترقی پذیر ملکوں کے خسارے کو حد سے زیادہ بڑھا دیا اس صورتحال سے پاکستان بھی متاثر ہوا اور آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنستا چلا گیا۔


پاکستان میں 80 کی دہائی سے لوڈ شیڈنگ کا آغاز ہوا۔ 1972 کی صنعتوں کو قومیائے جانے والی پالیسی کی بدولت ملکی صنعتی ترقی کو نقصان پہنچا۔ ملک میں بجلی کی کمی کے باعث بہت سے کارخانے دار دوسرے ملکوں کو چلے گئے۔ اب ہمارا ملک ایک درآمدی ملک کی جانب بتدریج سفر کر رہا تھا اور درآمدات میں تیزی آنی شروع ہو گئی لہٰذا ہم نے آئی ایم ایف کی طرف دیکھنا شروع کیا۔


بہت سے ممالک جوکہ آئی ایم ایف کو چھوڑ چکے تھے ہم نے ان سے طریقہ کار سیکھنے کے بجائے عالمی مالیاتی ادارے کی منت سماجت کو ترجیح دی۔ آہستہ آہستہ آئی ایم ایف نے بھی اپنا شکنجہ کسنا شروع کر دیا، حکومتیں آتی رہیں اور جاتی رہیں، ملک میں پٹرول کی قیمت بڑھتی رہی، مہنگائی بڑھتی رہی، درآمدی اشیا کی مانگ میں اضافہ ہوتا رہا، درآمدی بل بڑھتا ہی رہا اور تجارتی خسارہ جوکہ کروڑوں ڈالر سے نکل کر اربوں ڈالر پھر 20 ارب پھر 30 سے 40 ارب ڈالر تک جا پہنچا تھا۔


بجٹ کے ذریعے ملکی صنعت کو پروان چڑھانا ہوتا ہے چند دن کی بات ہے جب وزیر اعظم شہباز شریف نے 200 ارب روپے کا صنعتی پیکیج دیا، جس کے تحت بجلی نرخوں میں 10.69 روپے فی یونٹ کمی کی گئی۔ اس پر آئی ایم ایف نے اعتراض اٹھایا اور اسے خفیہ سبسڈی دینے کے مترادف قرار دیا۔ پاکستان میں عوام اور صنعت کو مہنگی ترین بجلی مہیا کی جاتی ہے جب کہ دیگر ملکوں میں نرخ کم ہیں، کیا انھیں پتا نہیں کہ اس طرح مہنگی بجلی کے باعث برآمدات میں کمی ہو رہی ہے؟


ادھر بھاری ٹیکسز کے باعث کاٹن جنرزکا کہنا ہے کہ ہم کاروبار جاری نہیں رکھ سکتے۔ ان کا خیال ہے کہ جننگ سیکٹر پر پہلے ہی جی ایس ٹی عائد ہے، بجلی کے فکسڈ چارجز میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے، اس طرح ملک گیر سطح پر کپاس کی خریداری معطل ہونے کا خدشہ ہے۔ ظاہر ہے اس طرح ٹیکسٹائل ملوں کو روئی کی سپلائی بند ہو جائے گی۔


یہ بات تو خوش آیند ہے کہ عوام کو مجوزہ ٹیکسوں میں ریلیف دینے کا فیصلہ آئی ایم معاہدہ خطرے میں ڈالے بغیر کیا جائے گا۔ ایسی مالیاتی گنجائش پیدا کرنے کے لیے ترقیاتی بجٹ میں 250 ارب روپے کٹوتی کی خبریں آ رہی ہیں۔


حکومت کو چاہیے کہ ٹیکس وصولی کا رخ اشرافیہ کی جانب رکھے اور تنخواہ دار طبقے خاص طور پر پنشن یافتہ افراد سے ٹیکس وصولی کے معیشت پر منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔ حکومت کئی اداروں کو فروخت بھی کرنا چاہتی ہے جہاں تک اسٹیل ملز کی بات ہے تو وزیر اعظم اس سلسلے میں روس کو دعوت دیں کیونکہ انھوں نے صحرا میں ریت کے لق ودق میدان میں دنیا کا بہترین اسٹیل ملز قائم کرکے ہمارے حوالے کیا تھا۔ ایک وزیرکہتے ہیں کہ یہ اسکریپ بن چکا ہے ان کے حوالے کریں، اگر انھوں نے یہ حوالگی قبول کرلی تو ایک اور بہت بڑا اسٹیل مل چند سالوں میں واپس مل سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔