پاکستان کی قومی اسمبلی نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسزکے مزید بوجھ پر اعتراضات کے باوجود مالی سال 25-2024 کے بجٹ کی منظوری دے دی،12 جون 2024 کو حکومت کی جانب سے بجٹ پیش کیے جانے کے بعد اس پر اپوزیشن کے علاوہ بزنس کمیونٹی اور تنخواہ دار طبقے کی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔
اس میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح کو بڑھایا گیا ہے، اس بجٹ کی منظوری سے قبل اس میں ایک تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ ماہانہ ایک کروڑ سے زیادہ آمدن کمانے والے افراد پر سرچارج لگایا گیا ہے، یعنی ایسے افراد جن کی ماہانہ تنخواہ یا آمدن ایک کروڑ ہو، انھیں45 فیصد نارمل ٹیکس کے علاوہ دس فیصد سر چارج بھی ادا کرنا پڑے گا، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح وہی ہے جو قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کے بعد تجویز کیے گئے تھے۔
حکومت کی جانب سے بجٹ پاس کرتے وقت پٹرول اور ڈیزل پر آئندہ مالی سال میں پٹرولیم لیوی کی شرح کو ساٹھ روپے فی لیٹر سے 80 روپے فی لیٹر تک بڑھانے کی تجویز دی گئی تھی، تاہم منظور شدہ فنانس بل میں اس کی شرح70 روپے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے جو آئندہ مالی سال میں پٹرول و ڈیزل کے صارفین سے وصول کی جائے گی۔
اس سال پانچ سلیبز کے ریٹس میں تبدیلی تجویز کی گئی تھی، جن کی منظوری قومی اسمبلی نے دے دی ہے، پہلے سلیب میں ایسے افراد شامل ہیں، جن کی تنخواہ 6 لاکھ روپے سالانہ ہے اور ان پر کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا، دوسرا سلیب ایسے افراد کا ہے، جن کی سالانہ آمدن6 لاکھ سے زیادہ اور12لاکھ تک آمدن ہے، ایسے افرادکو آمدن پر5 فیصد ٹیکس دینا ہو گا۔ (یہ رواں مالی سال میں ڈھائی فیصد تھا)، تیسرا سلیب سالانہ12 لاکھ سے 22 لاکھ کی آمدن والے افراد کے لیے ہے۔
ان کے لیے 30 ہزار فکسڈ ٹیکس ہوگا جبکہ اس کے علاوہ12 لاکھ سے زائد کی آمدن پر15 فیصد ٹیکس لگے گا، (یہ رواں مالی سال میں15 ہزار فکسڈ اور 12 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 12.5 فیصد تھا)، چوتھا سلیب ان افراد کے لیے ہے، جن کی سالانہ تنخواہ22 لاکھ سے زیادہ اور 32 لاکھ تک ہے، انھیں سالانہ ایک لاکھ80 ہزار فکسڈ اور22 لاکھ سے زیادہ آمدن پر25 فیصد کے حساب سے ٹیکس ادا کرنا ہو گا، (یہ رواں مالی سال میں ایک لاکھ 65 ہزار فکسڈ اور 24 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 22.5 فیصد تھا)، پانچواں سلیب 32 لاکھ سے 41 لاکھ کی سالانہ آمدن والے افراد کیلیے ہے۔
جنھیں4 لاکھ 30 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 32 لاکھ سے زیادہ آمدن پر30 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا، (یہ پہلے چار لاکھ 35 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 36 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 27.5 فیصد تھا)، چھٹا سلیب41 لاکھ سے زائد آمدنی والے تنخواہ دار طبقے پر7 لاکھ فکسڈ انکم ٹیکس اور41 لاکھ سے زائد آمدن پر 35 فیصد ٹیکس لاگو ہو گا، (یہ پہلے 10 لاکھ 95 ہزار فکسڈ اور 60 لاکھ سے زائد آمدن پر 35 فیصد تھا)، ساتویں سلیب میں ایسے افراد یا ایسوسی ایشن آف پرسنز ہیں، جن کی ماہانہ تنخواہ یا آمدن ایک کروڑ یعنی 12کروڑ سالانہ ہو، انھیں 45 فیصد نارمل ٹیکس کے علاوہ دس فیصد سر چارج بھی ادا کرنا پڑے گا۔آپ کا ٹیکس کتنا بڑھے گا؟ اگر آپ کی آمدن50 ہزار روپے ماہانہ ہے تو آپ کو کوئی انکم ٹیکس نہیں دینا ہو گا۔
تاہم اگر یہ آمدن 50 ہزار اور ایک لاکھ روپے ماہانہ کے درمیان ہے، یعنی مثال کے طور پر 80 ہزار ہے تو آپ کو ماہانہ چار ہزار روپے ٹیکس دینا پڑے گا جو گذشتہ برس دو ہزار تھا، ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے آمدن کی صورت میں گذشتہ برس آپ کو7500 روپے ماہانہ ٹیکس ادا کرنا ہوتا تھا، تاہم اب یہ رقم بڑھ کر10 ہزار روپے ماہانہ ہو جائے گی،2 لاکھ روپے ماہانہ کمانے والوں کو گذشتہ برس تک 13750 روپے ماہانہ ٹیکس دینا پڑتا تھا، تاہم اب ان کا سلیب تبدیل ہو گیا ہے اور انھیں 19,166 روپے ماہانہ ٹیکس دینا پڑے گا، ایسے افراد جن کی ماہانہ آمدن ڈھائی لاکھ روپے ہے، وہ اس سے قبل 25 ہزار روپے ماہانہ ٹیکس کی مد میں دیا کرتے تھے۔
اب یہ 31666 روپے ماہانہ انکم ٹیکس دیں گے،3 لاکھ ماہانہ کمانے والے افراد پہلے ماہانہ36250 روپے انکم ٹیکس دیتے تھے اور اب اس رقم پر ان کا ماہانہ ٹیکس 45833 روپے بنے گا، ساڑھے تین لاکھ کمانے والوں کا ماضی میں ماہانہ انکم ٹیکس 50 ہزار روپے تھا، جو اب بڑھ کر 61250 روپے ہو جائے گا، ایسے افراد جن کی ماہانہ آمدن چار لاکھ روپے ہے، وہ اس سے قبل63750 روپے ماہانہ ٹیکس ادا کرتے تھے، اب یہ رقم بڑھ کر 78750 روپے ہو جائے گی، ماہر ٹیکس امور ذیشان مرچنٹ نے صحافی تنویر ملک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ٹیکس کی شرح کو عام فہم انداز میں سمجھا جائے تو ایک فرد جو ماہانہ 75000 روپے کما رہا ہے۔
وہ سال بھر میں 900000 روپے کماتا ہے، وہ موجودہ مالی سال میں ڈھائی فیصد کی شرح سے سالانہ7500 روپے حکومت کے خزانے میں جمع کرواتا ہے، اگلے مالی سال میں پانچ فیصد کی شرح سے15000 روپے جمع کرانا ہوں گے، انھوں نے کہا کہ حکومت نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح بڑھا کر ظلم کیا ہے، کیونکہ یہی شعبہ ٹیکس دیتا ہے اور اسے سب سے زیادہ ٹیکس کا سامنا ہے۔