کامرس کالجز کا انضمام نقصان ہی نقصان

اس انضمام سے کاروباری تعلیم کا مستقبل معدوم ہوجائے گا


اکرم ثاقب July 04, 2024
کامرس کالجز کو قریبی جنرل کالجز میں ضم کرنے کا فیصلہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ (فوٹو: فائل)

محکمہ ہائر ایجوکیشن کی طرف سے مختلف چٹھیاں جاری ہوتی رہی ہیں جن میں کامرس کالجز کی صورت حال کو جاننے سے لے کر ان کے بارے میں پالیسی بنانے تک کے احکامات شامل رہے ہیں۔ پہلے پہل خسارے کو بہانہ بنا کر بہت سے اداروں کو قریبی جنرل کالجز میں ضم کرنے یا قریبی کامرس کالجز میں ضم کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ اس پر بہت سے کوائف جمع کیے گئے اور کئی کالجز کو ضم کرنے کے احکامات بھی جاری کردیے گئے۔


اسی اثنا میں ایک عجیب چٹھی جاری ہوگئی کہ پنجاب کے ٹاپ کے دس کامرس کالجز کو اٹھا کر قریبی جنرل کالجز میں پھینک دیے جانے کا طریقہ کار فوری طور پر بتایا جائے۔ ان کالجز کی عمارتوں کا کیا کرنا ہے، اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ البتہ ان کامرس کالجز کے پرنسپل صاحبان کو کہا گیا کہ وہ اپنا ساز و سامان، عملہ اور عمارت کی تفصیل کے ساتھ ساتھ اپنی موت کا پسندیدہ طریقہ بھی بتائیں کہ کس جنرل کالج میں جاکر اختتام پذیر ہونا چاہتے ہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا سب نے اپنا موقف اور حکومتی احکامات کی تعمیل کی۔


پہلی بات تو یہ ہے کہ جو ادارے داخلے کم کر رہے ہیں ان سے جواب طلبی کی جاتی، انہیں وارننگ دی جاتی اور پھر بھی وہ خود کو نہ سنبھالتے تو محکمانہ کارروائی کی جاتی۔ انہیں کسی دوسری جگہ منتقل کردیا جاتا۔ کسی تادیبی کارروائی کا نتیجہ دیکھا جاتا۔ تھوڑی سختی کی جاتی تاکہ ادارے اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاتے۔ کامرس کالجز میں کچھ ادارے کرایے کی بلڈنگز میں کام کر رہے ہیں، انہیں یہ واضح کردیا جاتا کہ حکومت نے کوئی کرایہ نہیں دینا، اس کا بندوبست اور انتظام اداروں نے خود کرنا ہے ورنہ وہ ادارے کسی دوسری جگہ پر بھیج دیے جائیں گے۔


پنجاب ڈویژن کے دس بڑے کامرس کالجز کے انضمام کے بارے میں کارروائی جاری ہے، جو کہ سراسر خسارے کا عمل ہے۔ اس سے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں طلبا و طالبات اور ان کے والدین، اساتذہ اور دیگر عملے کے افراد دربدر ہوجائیں گے۔


ہر ادارے میں سیکڑوں طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنا مناسب نہ ہوگا۔ دوسرے یہ کہ جنرل کالجز میں انہیں سمونے کی نہ صلاحیت ہے نہ گنجائش۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ جنرل کالجز والے کامرس کالجز والوں کو اپنے مساوی حیثیت نہیں دیتے اور پہلے ہی انہیں کم تر سمجھتے ہیں۔ اس سے بعد کے حالات اور بھی برے ہوں گے۔


اس انضمام سے کاروباری تعلیم کا مستقبل معدوم ہوجائے گا۔ عدالتوں، انتظامیہ اور دیگر عسکری و سول اداروں میں اسٹینوگرافر اور تربیت یافتہ دفتری عملہ دستیاب نہ ہوسکے گا۔ جنرل کالجز کے بہت سارے افسران اور پروفیسر صاحبان کہتے ہیں کہ ایک شارٹ ہینڈ ہی تو ہے وہ بھی وہاں کرلی جائے گی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جب یہ ادارے جنرل کالجز میں شفٹ کردیے جائیں گے تو ان کے ساتھ لامحالہ سوتیلا سلوک ہوگا اور شارٹ ہینڈ کو خاص طور پر ٹارگٹ کیا جائے گا کہ ان کا وجود ختم ہو۔


اس سے بڑھ کر دنیا پر اس وقت آئی ایم ایف کی حکومت ہے۔ آئی ایم ایف ایک مالیاتی ادارہ ہے اور یہ کامرس کالجز مالیاتی تعلیم کے ہی ادارے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ فنانس، بینکنگ، ایف بی آر اور انکم ٹیکس جیسے ادارے ان ہی کامرس کالجز کے فارغ التحصیل طلبا ہی چلا رہے ہیں۔ ملک کی معشت جو کہ پہلے ہی ڈانواں ڈول ہے ان اداروں کے پڑھے افراد کی وجہ سے کچھ چل رہی ہے، یہ یکسر لڑکھڑا جائے گی اگر کامرس کالجز کو معاشی اور مالیاتی تعلیم دینے کے حق اور فرض سے محروم کردیا جاتا ہے۔


جس کسی نے بھی یہ شوشا چھوڑا ہے وہ ہرگز حکومت کا خیر خواہ نہیں ہوسکتا کہ اس سے نہ صرف ہزاروں اساتذہ کے خاندان متاثر ہوں گے بلکہ طلبا و طالبات اور ان کے والدین بھی خوار ہوجائیں گے۔ اس لیے گزارش ہے کہ کوئی بھی ایسا فیصلہ کرنے سے پہلے ان کامرس اداروں کے اہلکاروں کی رائے بھی ضرور لے لیں۔ ہوسکتا ہے حکومت اور کامرس کالجز بہت بڑے خسارے اور پریشانی سے بچ جائیں۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں