عوام کی آواز
معاشی طور پرکمزور ممالک آئی ایم ایف کو قرض کے حصول کا آخری راستہ سمجھتے ہیں
آئی ایم ایف کا قیام دسمبر 1945 کو عمل میں آیا تھا، اگرچہ اس ادارے کے 190 رکن ممالک مل کر عالمی معیشت کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم مالی طور پر مستحکم بڑے ممالک جن میں امریکا و برطانیہ سرفہرست ہیں۔ آئی ایم ایف کو سب سے زیادہ فنڈ مہیا کرتے ہیں، اسی باعث یہ آئی ایم ایف پر اپنا دباؤ بھی برقرار رکھتے ہیں اور اس کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ انٹرنیشنل مالیاتی فنڈ کسی بھی ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے تین بنیادی کام کرتا ہے۔
اول معاشی و مالی معاملات کی ٹریکنگ یعنی یہ دیکھنا کہ کسی ملک کی معاشی و اقتصادی اور سیاسی کارکردگی کیسی ہے، اسے کن خطرات کا سامنا ہے اور مستقبل میں اس کے کیا منفی اثرات رونما ہو سکتے ہیں، جیسے برطانیہ میں بریگزیٹ کی غیر یقینی صورت حال کے بعد تجارتی تنازعات کا جنم لینا اسی طرح پاکستان میں انتہا پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں کے معیشت پر منفی اثرات کا پڑنا۔ دوم آئی ایم ایف رکن ممالک کے معاشی و اقتصادی مسائل کی روشنی میں غوروخوص کے بعد تجاویز دیتا ہے کہ وہ اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات اٹھائیں۔ سوم معاشی پریشانیوں میں گھرے ممالک کو اپنی شرائط کے مطابق قرضے فراہم کرتا ہے تاکہ وہ ان کی معیشت گرداب سے نکل کر مستحکم بنیادوں پر استوار ہو سکے۔
معاشی طور پرکمزور ممالک آئی ایم ایف کو قرض کے حصول کا آخری راستہ سمجھتے ہیں۔ یہ ادارہ معاشی بحران سے متاثرکسی بھی ملک کی آخری امید قرار دیا جاتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر معیشت بنجامن فریڈمین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے اثرات کا درست تعین کرنا ذرا مشکل ہے۔
کیوں یہ جاننا ناممکن ہے کہ ''آیا اس کی مداخلت نے کسی ملک میں معاملات کو بہتر بنایا ہے یا بدتر اور اس کا متبادل کیا ہو سکتا ہے۔'' یہ حقیقت تو اظہرمن الشمس ہے کہ آئی ایم ایف قرض دیتے وقت اکثر اوقات رکن پر سخت شرائط عائد کرتا ہے، جن میں حکومتی قرضے میں کمی، کارپوریٹ ٹیکسوں میں کمی یا اضافہ اور ملک کو بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کھولنا اور مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے لیے ٹیکسوں کے دائرہ کارکو بڑھانا وغیرہ جیسی سخت شرائط شامل ہوتی ہیں۔
پاکستان 1954 میں آئی ایم ایف کا رکن بنا تھا، ایک محتاط اندازے کے مطابق آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان اب تک 23 پروگرام کے معاہدے پا چکے ہیں۔ صدر جنرل ایوب خان کے دور میں آئی ایم ایف کے ساتھ تین پروگرام ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹوکے دور حکومت میں پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ چار پروگرام ہوئے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں پاکستان نے دو پروگراموں میں شرکت کی۔
بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں دو اور دوسری مدت کے دوران پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تین پروگرام ہوئے۔ اسی طرح نواز شریف کی پہلی حکومت کے دوران ایک جب کہ دوسری وزارت عظمیٰ کے دوران دو پروگرام طے ہوئے۔ جنرل مشرف برسراقتدار آئے تو ان کے آٹھ سالہ دور میں دو پروگراموں میں پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ شامل ہوا۔ بعدازاں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی (2008 تا 2013) تو پاکستان ایک پروگرام میں شریک ہوا۔ مسلم لیگ نواز شریف کے دور حکومت (2013 تا2018) کے درمیان آئی ایم ایف کے ساتھ ایک پروگرام کا معاہدہ جب کہ پی ٹی آئی دور حکومت میں بھی صرف ایک پروگرام میں پاکستان شامل ہوا۔
شہباز شریف کی مخلوط حکومت کے دور میں پاکستان نے ایک پروگرام میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا۔ 8فروری2024 کے انتخابات کے بعد شہباز شریف دوبارہ وزیر اعظم بنے ہیں اور آج ان کا یہ دعویٰ ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والا آخری پروگرام ہوگا پھر ہم کشکول توڑ دیں گے۔ انھوں نے اسمبلی کے فلور پر یہ بھی تسلیم کیا کہ موجودہ بجٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر بنانا پڑا جو ان کی مجبوری تھی۔کیا واقعی یہ آئی ایم ایف کے ساتھ آخری پروگرام ہوگا؟ اس سوال کا جواب ہاں میں آسان نہیں ہے کیونکہ ملک کی معیشت بحران کا شکار ہے۔ نئے قرضوں سے پرانے قرضوں کی قسطیں ادا کی جاتی ہیں جن میں بڑا حصہ سود کا ہوتا ہے اس طرح اصل قرضہ اپنی جگہ موجود رہتا ہے جو نئے معاشی بحران کو جنم دیتا ہے اور حکمران پھر کشکول لیے آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
بجٹ یکم جولائی سے نافذ ہو چکا ہے جس میں 12970 ارب کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں جس سے مہنگائی کا سونامی غریب عوام کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ ماہرین معاشیات اور ورلڈ بینک کے مطابق مزید ایک کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے آجائیں گے۔ وزیر خزانہ اورنگزیب صاحب نے برملا اعتراف کیا ہے کہ نئے ٹیکسوں سے لوگ دباؤ میں آجائیں گے۔ آئی ایم ایف نے 10 جولائی سے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ کردیا ہے۔ یکم جولائی سے حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھا دی ہیں۔ تاجر، عوام اور صنعتکار سب سراپا احتجاج ہیں، اگر حکومت نے عوام کی آواز پرکان نہ دھرے اور ان کی مشکلات کا ازالہ نہ کیا تو حاکموں کا اقتدار خطرے میں پڑ جائے گا۔