پی ٹی آئی کے حقیقی چہرے
ریاستی جبر اور مشکل حالات کا مقابلہ ہر سیاسی شخص نہیں کر سکتا خواہ وہ پارٹی کا کتنا ہی وفادار کیوں نہ ہو
9 مئی 2023 کے بعد سے پی ٹی آئی کی قیادت اورکارکن مشکل حالات سے دوچار ہیں، اس کے باوجود پی ٹی آئی پاکستان کی سیاست میں اپنا رول برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے ۔ اس نے کئی اہم سیاسی چہروں کو جو پی ٹی آئی کی سیاست سے وابستہ تھے اور ہیں ان کو ایک مضبوط سیاسی کردار کے طور پر پیش کیا ہے ۔ پی ٹی آئی کی سیاست دو مختلف چہروں کے ساتھ موجود ہے ۔ اول وہ جو مشکل حالات کا مقابلہ نہ کرسکے اور انھوں نے پارٹی کو انتہائی مشکل حالات میں چھوڑ دیا۔
ان میں سے بیشتر وہ لوگ بھی شامل تھے جو پارٹی کو کسی بھی صورت چھوڑنا نہیں چاہتے تھے مگر حالات کے دباؤ کے سامنے وہ خود کو کھڑا نہ کر سکے۔ دوئم وہ لوگ تھے جن پر دباؤ بھی اتنا ہی شدید تھا جو چھوڑنے والوں پر تھا مگر انھوں نے نہ تو ہمت ہاری اور نہ ہی خود کو کسی پریس کانفرنس کا حصہ بنایا بلکہ بڑی جرات سے انھوں نے جیل جانے، مقدمات کا سامنا کرنے، اپنے اور خاندان کے لیے مشکلات پیدا کرنے اور پارٹی وابستگی سے مضبوط کمٹمنٹ اور عمران خان کی قیادت کے ساتھ کھڑ ا رہنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ لوگ بھی پریس کانفرنس کا راستہ اختیارکرکے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے آسان راستہ اختیار کرسکتے تھے مگر ان کی سیاسی مزاحمت نے ثابت کیا کہ یہ ہی لوگ پی ٹی آئی کی سیاست کا حقیقی چہرہ ہیں ۔
یہ کوئی نئی بات نہیں 'ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں انتہائی مشکل حالات میں بہت سے وفادار لوگ بھی سیاسی مصلحت کے تحت اپنی پارٹی چھوڑ دیتے ہیں اور کسی مناسب موقع کا انتظار کرتے ہیں کہ جب بھی حالات بدلیں اور مناسب موقع ملا تو دوبارہ سے اپنی پارٹی کو جوائن کر لیں گے۔ملک کی سیاسی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ریاستی جبر اور مشکل حالات کا مقابلہ ہر سیاسی شخص نہیں کر سکتا خواہ وہ پارٹی کا کتنا ہی وفادار کیوں نہ ہو ۔جب پکڑ دھکڑ شروع ہوتی ہے اور پولیس گھروں پر چھاپہ مارتی ہے 'اہل خانہ کو ہراساں کرتی ہے تو بہت سے سیاسی رہنما اور کارکن حالات سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ریاستی جبر کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں۔
عمران خان ، شاہ محمود قریشی ، چوہدری پرویز الٰہی ،ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید ، اعجاز چوہدری ، عمر سرفراز چیمہ ، فردوس شمیم نقوی ، جمشید اقبال چیمہ سمیت کئی اور اہم نام شامل ہیں ۔ اسی طرح ضلعی اور مقامی سطح پر بھی بہت سے لوگ آج بھی مقدمات کا سامنا کررہے ہیں، جیل میں ہیں یا روپوش ہیں ۔ڈاکٹریاسمین راشد کینسر کی مریضہ ہیں۔میاں محمود الرشید کئی بار پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، وہ پی ٹی آئی کے بانی ارکان میں سے ہیں۔ لاہور پی ٹی آئی کے سابق صدر رہے۔
وہ پنجاب اسمبلی میں سابق اپوزیشن لیڈر اور صوبائی وزیر بھی رہے ۔طلبہ سیاست سے قومی یا صوبائی سطح کی سیاست میں انھوں نے ہمیشہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ۔ان کے خلاف پارٹی کے داخلی محاذ سے کئی بار اندر کے لوگوں نے ہی سازشیں کی اور یہ منفی مہم چلائی کہ وہ عملا پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں۔لیکن میاں محمود الرشید نے مشکل حالات کے باوجود پارٹی اور عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔اعجاز چوہدری سینیٹر ہیں اور سابق گورنر عمر سرفراز چیمہ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو شروع ہی سے پی ٹی آئی میں تھے اور کئی بار نظرانداز ہونے کے باوجود پارٹی کے ساتھ ہیں۔
سچ پوچھیں تو پی ٹی آئی جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ ممی ڈیڈی جماعت ہے اور مزاحمت کی سیاست اس کے مزاج کا حصہ نہیں مگر پی ٹی آئی کے حقیقی چہروں نے تجزیہ نگاروں کو حیران کردیا ہے ۔9 مئی کا سانحہ اصولی طور پر نہیں ہونا چاہیے تھا ، اس مہم جوئی کے مرتکب افراد کے ساتھ قانون کے مطابق کارروائی کی جانی چاہیے ۔ ابھی پی ٹی آئی کے لوگوں پر الزامات ہیں اور ان کی تحقیقات ہونی ہیں۔ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں سے غلطیاں ہوئی ہوں ، ان کی سیاست اور سیاسی حکمت عملیوں یا سیاسی طرز عمل سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور شدید تنقید بھی ہوسکتی ہے مگر ان کو دہشت گرد قرار دینا درست نہیں اور نہ ہی اس سے سیاست اور جمہوریت کو کوئی فائدہ ہوگا ۔ سیاست میں پہلے ہی سیاسی رواداری اور سیاسی برداشت کا عمل کمزور ہوا ہے ، اسے مزید کمزور نہیں کرنا چاہیے۔
حکومت ہو یا اسٹیبلیشمنٹ دونوں کو سیاسی مسائل کا حل سیاسی انداز میں اور سیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر ہی تلاش کرنا چاہیے۔ کیونکہ سیاسی عمل میں سیاسی جماعتیں ، قیادتیں اور کارکنان یا ان کی ووٹروں کو طاقت کی بنیاد پر ختم نہیں کیا جاسکتا ۔بہتر عمل تو یہ ہی ہے کہ حکومت ، اسٹیبلیشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت کے عمل پر بات آگے بڑھنی چاہیے ۔
پی ٹی آئی میں عمران خان سمیت دیگر قیادت کو بھی سمجھنا ہوگا کہ وہ ضرور اپنی مزاحمت کریں مگر جو کچھ بھی کیاجائے وہ آئینی، قانونی ، سیاسی اور جمہوری دائرہ کار میںہی ہو اور بات چیت کی بات کو ہر صورت آگے بڑھانے کی ذمے داری میں ان کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔کیونکہ سیاسی تقسیم اور سیاسی ڈیڈلاک نے ملک کی سیاست اور جمہوریت کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے ۔اگر آج اس کھیل کو نہیں روکا گیا تو اس کھیل کا تسلسل سیاست اور جمہوریت کو اور زیادہ خراب کرنے کا سبب بنے گا۔ کل کوئی اور عتاب میں تھا اور آج کوئی اور عتاب میں ہے ۔ یہ سلسلہ نہ رکا تو کل نئے کرداروں کو نئے عتاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سانحہ 9 مئی کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اسیر رہنماؤں پر جو الزامات ہیں، ایسے ہی الزامات ان لوگوں پر بھی تھے جنھوں نے پریس کانفرنس کی مگر اس پریس کانفرنس کے نتیجہ میں وہ ان مقدمات سے بری کردیے گئے ۔اسی تضاد کی وجہ سے نئے سوالات نے جنم لیا جو آج بھی تواتر کے ساتھ منظر نامہ پر موجود ہیں ۔ بہرحال اصل کام پاکستان کی ترقی اور سلامتی ہے۔اس لیے سب اسٹیک ہولڈرز کو احتیاط کے ساتھ مفاہمت کی راہ پر چلنا چاہیے۔