ایک اور دوست رخصت ہوا آخری حصہ
ہالینڈ سے واپسی کے بعد انھوں نے لیبر ایجوکیشن کے حوالے سے ایک ادارہ (PILER) قائم کیا
زیادہ پرانی بات نہیں کہ جب پاکستان سمیت پوری دنیا میں مزدور تحریکیں اپنے عروج پر تھیں۔ کراچی اس دور میں مزدور تحریک کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ 1963 میں شہر میں ایک بہت بڑی مزدور تحریک چلی تھی۔ کرامت علی اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں '' یہ کراچی کی ایک بڑی لیبر موومنٹ تھی جو مارچ 1963 میں چلی۔ ہم جس دن فیکٹری میں تھے، ہم نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا جلوس ہے جو شیر شاہ کی طرف سے آرہا تھا تو اس فیکٹری میں جنرل منیجر انیس ہاشمی صاحب تھے جو بہت بڑے کمیونسٹ تھے۔ انھوں نے فیکٹری کا بوائلر بند کرا دیا تاکہ چمنی سے دھواں نہیں نکلے جب ورکرز وہاں گیٹ پر پہنچے تو ان سے کہا کہ ہماری فیکٹری بند ہے۔
گیٹ وغیرہ پہلے ہی بند کردیے گئے تھے، خیر ہم لوگ اس جلوس میں تو نہیں گئے اورکچھ دیر بعد دیکھا کہ وہاں سے کوئی آدھا میل دور ورکرز پرگولی چلی ہے، اگلے دن ہم لوگوں کو پتہ چلا کہ یہ سب کیا ہوا تھا تو اس طرح لیبر موومنٹ کے بارے میں تھوڑی سی معلومات ہوئیں، اسی زمانے میں یہ ہوا کہ شام میں ہم لوگ ساتھ بیٹھتے تھے ،ایک فیکٹری منیجر صاحب تھے ان کا ایک بھائی ایک دوسری فیکٹری میں جو سائٹ میں تھی وہاں کام کرتا تھا اور بھی لوگ بیٹھتے تھے، وہ بتاتے تھے کہ ہم یونین بنا رہے ہیں یہاں بڑا بورڈ پر مرکزی مزدورکمیٹی تھی، وہ اس کے ساتھ مل کر یونین بنا رہے تھے ۔
ایک سال کے بعد مجھے وہاں کی لیبارٹری میں شفٹ کر دیا گیا۔ یہ '' مقبول اینڈ کمپنی'' اب بند ہوگئی ہے جب صنعتوں کو نیشنلائزڈ کیا گیا تھا تو یہ بھی نیشنلائزڈ ہوگئی تھی۔ یہ گھی اور صابن کا کارخانہ تھا تو لیبارٹری میں مجھے لیب اسسٹنٹ کی جاب مل گئی۔ اس میں یہ ہوا کہ میرے کزن نے مجھے کہا کہ تم کو سیکنڈ شفٹ میں کردیتے ہیں تاکہ تم اپنی پڑھائی شروع کردو تو پھر میں نے سوچا کہ چلو ٹھیک ہے مجھے تین بجے سے گیارہ بجے تک مستقل ڈیوٹی مل گئی، اس سے فائدہ اٹھا کر میں نے پھرکالج میں داخلہ لے لیا۔ میں ایس ایم سائنس کالج میں رہا اور وہاں سے دو سال بعد انٹر کر لیا چونکہ کام بھی کرنا ہوتا تھا تو پڑھائی میں اتنا وقت دینا ممکن نہیں تھا۔
بس پاس ہوگئے خیال تھا کہ کچھ ٹھیک سے نمبر آجائیں تو میڈیکل کالج میں داخلہ مل جائے گا لیکن وہ نہیں ہوا۔ اسی زمانے میں طالب علموں کی سرگرمیاں بھی شروع ہوگئی تھیں، ان ہی دنوں بعض ان لوگوں سے دوبارہ ملاقات ہوگئی جو شہر بدر ہوکر ملتان آئے تھے۔ ان میں معراج محمد خان وغیرہ شامل تھے، معراج محمد خان ایک دن ہمارے کالج آئے تو ہم ان سے ملے ان کو بھی یاد تھا، انھوں نے مجھے کہا کہ این ایس ایف میں شامل ہوجائیں لٰہذا ہم لوگ باقاعدہ این ایس ایف میں شامل ہوگئے۔ ہماری سرگرمیاں این ایس ایف کے پلیٹ فارم سے جاری رہیں، جناح کالج میں یونین کی سرگرمیوں میں این ایس ایف کے جو لوگ بہت سرگرم ہوتے تھے وہ ایک لحاظ سے ڈی جے کالج وغیرہ کے دوستوں سے بہت زیادہ متحرک اور فعال تھے ۔
ہمارا بڑا وقت ان سرگرمیوں میں صرف ہونے لگا چنانچہ ہمارا جو پہلا جلوس ایوب خان کے خلاف نکلا وہ بھی ہمارے کالج سے ہی نکلا تھا، پھر این ایس ایف کے جو اہم لیڈر تھے وہ بھی ہمارے کالج کے تھے، ممتاز مہکری تھے ،ضیا اللہ اور مبشر ، یہ دونوں بعد میں پریزیڈنٹ چنے گئے تو یہ جو ناظم آباد پاپوش نگر والا علاقہ تھا، اس میں بہت سارے لوگ جو سرگرم تھے اسٹوڈنٹ موومنٹ میں وہ یا تو جناح کالج میں پڑھتے تھے یا اس علاقے میں رہتے تھے جیسے رشید رضوی ہیں یہ تو جناح کالج میں نہیں تھے بلکہ یونیورسٹی میں تھے، البتہ ان کے بھائی جناح کالج میں ہوتے تھے تو ان کا گھر کالج کی گلی ہی میں تھا ،ایک اڈہ ان کا ہوتا تھا ،پھر فرحت سعید تھے، راحت سعید کے بھائی۔ وہ بھی پچھلی گلی ہی میں رہتے تھے ، یوں اس علاقے میں ہمارا ایک اچھا خاصا گروپ بن گیا تھا جو این ایس ایف کے لڑکوں پر مشتمل تھا، لہٰذا 1968 کی جو موومنٹ تھی اس میں ان لوگوں کا بڑا رول تھا۔
پھر این ایس ایف کا ہی1967 میں کنونشن ہوا تھا، یہاں گرومندر پر اس میں ذوالفقار علی بھٹو بھی آئے تھے، ان کو تاشقند کے بعد ایوب خان نے نکال دیا تھا تو این ایس ایف نے بھٹو کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا تھا، یہ تقریب گل رعنا کلب میں ہوئی تھی۔ جب بھٹو صاحب آئے یہاں کراچی میں تو مہینے میں ایک آدھ بار گروپ کی صورت میں ہم لوگ ان سے جا کر ملا کرتے تھے لیکن شامل نہیں ہوئے۔ معراج محمد خان اور بہت سارے لوگ شامل ہوگئے، ہم لوگوں کا جو گروپ تھا وہ اس شمولیت کے خلاف تھا ،ہم لوگ رشید حسن خان کے ساتھ تھے ،معراج کے بعد اس کنونشن میں رشید حسن خان ہی منتخب ہوئے تھے، معراج کی جگہ صدر۔ تو پھر سیاست اور این ایس ایف کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہمارا ملکی سیاست کے ساتھ جڑنے کا عمل شروع ہوگیا۔
اسی زمانے میں مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی جو نیشنل عوامی پارٹی تھی، ان کے ساتھ ہمارا کچھ رابطہ ہوا تو ہم لوگوں کو مولانا بھاشانی نے زیادہ متاثر کیا یعنی یہ جو پورا دور تھا اکتوبر1968 سے لے کر مارچ 1969 کا جس میں تقریباً مسلسل ہی ایجی ٹیشن چلا تھا تو سیاست میں وہیں ہمارا عمل دخل اس زمانے میں شروع ہوا۔ بی ایس سی کر لیا تو ہمارا خیال تھا کہ یونیورسٹی جائیں گے اس زمانے میں کچھ پڑھنے کا شوق بھی ہوگیا تھا، اسٹڈی سرکل وغیرہ بھی جاتے تھے، فلسفہ پڑھنے کی سوچ بن رہی تھی۔
اس وقت تو خیر ہم لوگوں کو داخلہ نہیں ملا، اس لیے یونیورسٹی نہیں جاسکے پھر ہم فل ٹائم ٹریڈ یونین میں چلے گئے۔1976 میں میں نے دوبارہ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا فلسفے میں لیکن وہ چند مہینے ہی کیا کیونکہ اس زمانے میں شعبہ فلسفہ کے سربراہ ڈاکٹر منظور ہوتے تھے۔ ایک دن وہ آئے، مجھے کلاس میں دیکھا اور بلایا اپنے دفتر میں۔ انھوں نے کہا کہ آپ کو اسی ڈیپارٹمنٹ میں آنا تھا کیا؟ میں نے کہا '' جی پڑھنا چاہتا ہوں'' انھوں نے کہا کہ '' آپ کو گریڈز چاہئیں ہم آپ کو پاس کردیں گے۔'' میں نے کہا کہ '' مجھے گریڈز نہیں چاہییں مجھے تو پڑھنا ہے ،میں گریڈز لے کر کیا کروں گا۔'' اس وقت تک میں ٹریڈ یونین میں متحدہ مزدور فیڈریشن کا 1974 میں جنرل سیکریٹری منتخب ہوگیا تھا۔
وہ ہم لوگوں کو جانتے تھے، زمانہ طالب علمی سے۔ انھوں نے کہا '' آپ مت آئیں'' میں نے کہا کہ ''اگر اس طرح سے آ پ لوگ تعلیم دیتے ہیں تو ظاہر ہے کہ یہاں آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔'' میرا خیال ہے کہ میں وہاں کوئی دو ڈھائی مہینے گیا ہوں گا بہر حال وہ میں نے چھوڑ دیا پھر جو لیبر میں کام ہم کرتے تھے تو ہم نے سوچا کہ بھئی وکیلوں کا بڑا مسئلہ ہوتا تھا لہٰذا 1977 کے شروع میں میں نے اسلامیہ لاء کالج میں داخلہ لے لیا لیکن وہ بھی کوئی میرے خیال سے سات مہینے ہی میں گیا ہوں گا ، کیونکہ پھر بھٹو کے خلاف موومنٹ شروع ہوگئی تو وہ بھی بیچ میں ہی ہم نے چھوڑا، بہرحال آخری باقاعدہ قسم کی تعلیم اس وقت ہوئی جب میں 1983 میں ہالینڈ گیا اور وہاں لیبر اینڈ ڈیولپمنٹ میں ماسٹرکیا۔''
ہالینڈ سے واپسی کے بعد انھوں نے لیبر ایجوکیشن کے حوالے سے ایک ادارہ (PILER) قائم کیا، اس ادارے سے بہت سے لوگوں نے تربیت حاصل کی اور پاکستان میں بڑا نام کمایا۔ کرامت علی آخری سانس تک پاکستان کے محنت کشوں اور مظلوم طبقات کے حقوق کے لیے لڑتے رہے۔ وہ ایک بے لوث انسان تھے، شہرت اور منصب کی کبھی کوئی تمنا نہیں کی اور اسی سبب وہ عزت کمائی جوکم لوگوں کے نصیب میں آتی ہے۔ ان کا دنیا سے رخصت ہونا ہمارے ملک کا ایک بڑا نقصان ہے۔ ایسے لوگ کم کم پیدا ہوتے ہیں، وہ دنیا میں نہ رہیں لیکن مظلوم انسانوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔