اسمگلنگ اور دہشت گردی کا گٹھ جوڑ
آپ چمن کو دیکھیں حکومت نے لاگڑی سسٹم ختم کر کے ایک اچھا ٹریڈ ٹرمینل بنا دیا ہے
عزم استحکام آپریشن کے حوالے سے بہت ابہام موجود ہے۔ خیبر پختونخوا کی سیاسی جماعتیں ایسا تاثر دے رہی ہیں، جیسے یہ کوئی فوجی آپریشن ہے اور وہ ایک نئے فوجی آپریشن کی اجازت نہیں دے سکتیں۔ یہ سیاسی جماعتیں یہ بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کررہی ہیں کہ نیا فوجی آپریشن خیبر پختونخوا میں حالات مزید خراب کر دے گا, سا تھ ساتھ پرانے فوجی آپریشنز کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
میں نے عزم استحکام آپریشن کے حوالے سے پہلے بھی لکھا ہے کہ یہ کوئی نیا فوجی آپریشن نہیں ہے لیکن دوست مان نہیں رہے۔ میں نے لکھا ہے کہ کسی بھی نئے فوجی آپریشن کے لیے کسی نئی اجازت کی ضرورت نہیں ہے، یہ اجازت سیکیورٹی اداروں کے پاس پہلے سے موجود ہے۔ سرحدی علاقوں میں یہ آپریشن مسلسل جاری رہتے ہیں۔
آج دہشت گردی کے ایک نئے روپ کے حوالے سے لکھنا چاہتا ہوں یعنی افغانستان اور ایران کی سرحدی سے متصل علاقوں میں اسمگلنگ اور دہشت گردی کا آپس میں کیا رشتہ ہے۔آج جب پاکستان اپنے بارڈرز پر اسمگلنگ روک رہا ہے تو جن علاقوں میں اسمگلنگ روکی جا رہی ہے وہاں دہشت گردی میں اضافہ بھی نظرآرہا ہے۔ پاکستان میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ کی باتیں عام ہیں۔ اس غیرقانونی دھندے میں اہم لوگوں کے ملوث ہونے کی بھی بہت بات کی جاتی ہے۔
اسمگلنگ کے خلاف آپریشن آج سے چھ ماہ پہلے شروع کیا گیا تھا۔ملک میں ڈالر کو کنٹرول کرنے کے لیے اسمگلنگ کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا۔ اسی لیے ہمیں آج بھی پاک افغان بارڈر بند نظر آتا ہے۔ حکومت پاکستان نے لوگوں کی آمد و رفت کو کنٹرول کرنے کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرائط لگائی ہیں، پوری دنیا میں یہی اصول اور قانون لاگو ہے ۔
ریاستی اعداد و شمار کے مطابق آج سے چھ ماہ پہلے تک روزانہ تقریبا پندرہ ملین لٹر تیل اسمگل ہوکر پاکستان میں آتا تھا۔ یہ کوئی چھوٹی مقدار نہیں ہے۔آج سے چھ ماہ پہلے جب بارڈر اسمگلنگ کو روکنے کی بات کی گئی تو پاک ایران بارڈر پر تیل کی اسمگلنگ کو بھی روکنے کا فیصلہ کیا گیا۔ آج چھ ماہ میں یہ اسمگلنگ پندرہ ملین لٹر روزانہ سے کم ہو کر چھ ملین لٹر روزانہ پر آگئی ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ تیل کی اسمگلنگ کے حوالے سے وفاق اور صوبے کوئی باقاعدہ اور مربوط پالیسی بھی نہیں ہے ۔بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں ایرانی تیل ہی استعمال ہو رہا ہے ، اس لیے وہاں مکمل بند بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ایک اہم سرکاری بریفنگ میں صحافیوں کو یہ بتایا گیا کہ اسمگلرز ایران سے پندرہ بیس روپے فی لٹر تیل خرید کر پاکستان میں 240سے 230روپے لٹر فروخت کرتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ ایران سے پاکستان پہنچنے میں کیا خرچہ آتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق نقل وحمل کے اخراجات 30سے40روپے فی لٹر سے زیادہ نہیں ہیں۔ یوں اسمگلرز کو فی لٹر دو سو روپے بچتے ہیں۔ اگر فی لٹر دو سو روپے منافع کا تخمینہ لگایا جائے تو روزانہ منافع ایک ارب اسی کروڑ روپے بنتا ہے۔
یہ کوئی چھوٹی رقم نہیں۔ ایک ماہ میں یہ منافع 54ارب روپے بنتا ہے۔یہ سوال بھی اہم ہے کہ اسمگلنگ کے حوالے یہ تو صرف ایک آئٹم کی آمدن ہے، اس کے علاوہ منشیات و ڈرگز، اسلحہ،گاڑیاں، ان کے اسپیئر پارٹس، ٹائرز، سمیت سیکڑوں اشیا کی اسمگلنگ جاری ہے جب کہ پاکستان سے گندم، اجناس، ڈالر اسمگل ہوکر دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں۔ اس غیرقانونی اور غیراخلاقی دھندے سے وفاقی حکومت کو کوئی ٹیکس آمدن ہوتی ہے نہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان حکومت کو ٹیکس ملتا ہے۔یوں پاکستان میں اربوں ڈالر کی بلیک اکانومی فروغ پا رہی ہے۔
مشاہدے کی بات یہی ہے کہ جہاں جہاں سرحد پر غیرقانونی نقل و حرکت روکنے کا عمل ہوا، وہاں یک دم دہشت گردی بڑھ جاتی ہے۔ اس بات میں وزن لگتا ہے کہ بارڈرز روٹس کھلوانے کے لیے اسمگلرز دہشت گرد تنظیموں کا تعاون حاصل کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ تعاون دوطرفہ مفادات کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا ہے ۔ مقامی سیاسی قیادت کو بھی سرحدی روٹس کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان پہلوؤں پر بھی غور کرنا چاہیے ۔ کھلے بارڈرز کا جہاں اسمگلرز کو فائدہ ہوتا ہے۔
وہاں دہشت گردوں کا بھی فائدہ ہوتا ہے۔ اس لیے اب دونوں گروپوں میں ایک تعاون کی کڑی نظرآر ہی ہے۔آپ چمن کو دیکھیں حکومت نے لاگڑی سسٹم ختم کر کے ایک اچھا ٹریڈ ٹرمینل بنا دیا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ تجارت کو قانونی دائرے میں لانے کے عمل کی ستائش کے بجائے احتجاج کرایا جاتا ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسئلہ باقاعدہ اور لیگل ٹریڈ کا نہیں ہے، مسئلہ مادر پدر آزاد آمدورفت کا ہے تاکہ اسمگلنگ کا دھندہ جاری رہے ، باقاعدہ اور لیگل ٹریڈ سے اتنا بھاری بھرکم منافع نہیں ملتا جتنا اسمگلنگ کے مال سے کمایا جارہا ہے۔ اسی لیے پاک افغان سرحد سے متصل علاقوں میں ہڑ تال اور مظاہرہ کلچر کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ورنہ ٹریڈ ٹرمینل کے بننے کے بعد تو تجارتی معاملات زیادہ آسان ہو جانے چاہیے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے، اتنا غیر معمولی کالا دھن پاکستان میں نہیں رہتا۔ یہی کالی دولت ہنڈی حو الے کے ذریعے سے بیرون ملک جاتی ہے۔ اسی لیے پورے ملک میں ڈالر ریٹ ایک طرف اور پشاور کی ڈالر مارکیٹ کا ڈالر ریٹ دوسری طرف نظرآتا تھا۔ پشاور کی ڈالر مارکیٹ سے ڈالر کون لیتا تھا؟ کالا دھن کمانے والا مافیا ڈالرخریدتا تھا اور ہنڈی حوالہ کے ذریعے بیرون ملک بھیجتا تھا۔ اب کالا دھن کمانے والا مافیا پریشان ہے۔ ایران اور افغانستان میں ڈالر ملتے نہیں، پاکستان میں سختی ہو گئی ہے، اسی لیے پاکستان میں ڈالر ریٹ بھی خاصی حد تک مستحکم ہوگیا ہے۔ اس کھیل کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ریاست کو اخلاقی حمایت دینے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہم کبھی اپنے پاؤں پر نہیں کھڑے ہو سکیں گے۔