حضرت لعل شہباز قلندر
برصغیرکا شاید ہی کوئی انسان خواہ کسی مذہب اور دین کا پیروکار ہو وہ حضرت لعل شہباز قلندر سے ضرور واقف ہو گا۔
برصغیرکا شاید ہی کوئی انسان خواہ کسی مذہب اور دین کا پیروکار ہو وہ حضرت لعل شہباز قلندر سے ضرور واقف ہو گا۔ صوفیائے کرام جنہوں نے اپنے پاک و پاکیزہ صالح عمل سے لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کیا انھی صوفیوں میں ایک اصطلاح قلندر کی استعمال کی جاتی ہے اور دنیا میں دو قلندر ہی مشہور ہوئے ایک بو علی قلندر اور دوسرے لعل شہباز قلندر جن کا مزار سندھ کے شہر سیہون میں ہے یہ حضرت کے مزار کی وجہ سے سیہون شریف کہلاتا ہے۔ لعل شہباز قلندر جن کا شجرہ نسب حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ علیہ سے ملتا ہے۔
573ہجری بمطابق 1177عیسوی آذر بائیجان کے شہر مرند میں پیدا ہوئے، ان کے والد گرامی کا نام سّید ابراہیم کبیرالدین تھا جو501ہجری بمطابق 1108عیسوی کو پیدا ہوئے ان کی شہرت کا سبب یہ تھا کہ جب بھی وہ کربلا معلی سّید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی کے روضہ اقدس پر حاضری دیتے اور کوئی مسئلہ پوچھتے تو انھیں جواب ملتا تھا۔ اس لیے ان کی شہرت نام کا لقب جوابی پڑ گیا۔ انھوں نے علم حاصل کیا اور ان کی صلب سے یہ لعل شہباز قلندر متولد ہوئے جن کا نام عثمان المعروف لعل شہباز ۔ لعل شہباز قلندر کا وصال 583ہجری بمطابق650عیسوی ہے۔ ہر سال 18شعبان سے 20شعبان المعظم کو ان کا عرس بڑی دھوم دھام سے منا یا جاتا ہے۔
لعل شہباز قلندر نے سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرلیا تھا اس کے بعد عربی وفارسی علوم میں مہارت حاصل کی۔ آپ کے علم کی شہرت اس وقت بام عروج پر تھی جب آپ ملتان تشریف لائے اس وقت غیاث الدین بلبن حکمران تھا جو صاحبان علم کی قدرکرتا تھا جب اس نے سنا عثمان مرندی ملتان آئے ہیں تو اس نے آپ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور بہت سے تحفے ہدیہ کیے۔
حضرت لعل شہباز قلندر اپنے کسی بزرگ کے حکم پر کربلائے معلی سے سندھ کی طرف آئے آپ کی آمد مکران کے راستے سے ہوئی اور اس کے قریب ایک وادی پنجگور کے سرسبز میدان میں چلّہ کی غرض سے قیام کرتے رہے جب وہاں کے مکرانیوں نے آپکی ریاضت اور عبادت دیکھی تو بہت مرغوب ہوئے اور اس طرح ہزاروں کی تعداد میں آپکے مریدوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ آج بھی اس میدان کو دشت شہباز سے یاد رکھا جاتا ہے۔ لعل شہباز قلندر نے ملتان، کشمیر، بلخ اور بخارا میں بھی قیام کیا پھر سندھ اور پنجاب میں بھی دورہ کر کے تبلیغ کا سلسلہ آگے بڑھایا۔ لعل شہباز قلندرکی ملاقات حضرت بو علی قلندر سے بھی ہوئی۔
حضرت لعل شہباز قلندر کی آمد کے وقت سر زمین سندھ پر سومرو خاندان کی حکومت تھی۔لعل شہباز قلندر 649ہجری میںسندھ آئے اور سندھ کے علاقہ سیستان میں قیام کیا اور یہیں مستقل سکونت جاری رکھی ان کی وجہ سے اس سیستان کا نام سیہون ہوگیا اورلعل شہباز قلندرکی شہرت پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب لعل شہباز قلندر سیستان تشریف لائے تو اس علاقے میں غیر اخلاقی کام بہت ہوا کرتے تھے لیکن جب آپ نے یہاں قدم رکھے تو پہلے بے آب گیاہ میدان سر سبز ہوا اور پھر وہاں بد کار عورتوں کے پاس آنے والے مرد بدل گئے ، لوگوں کو احساس ہوا کہ کوئی بزرگ آیا ہے جس کی یہ کرامات ہیں اس طرح لوگوں نے اس چھوٹی سی پہاڑی یا ٹیلہ کا رخ کیا جہاں لعل شہباز قلندر آکر بیٹھا کرتے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس بستی میں اصلاح پیدا ہوگئی اور لوگوں نے جوق درجوق لعل شہباز قلندر سے دینی اور روحانی معاملات میں رجوع کرنا شروع کر دیا۔
لعل شہباز قلندر کے مصاحبین اور مریدین بھی مشہور ہونے لگے ان کے نام یہ ہیں حضرت سکندر بہار، سّید علی سرمست، سّید عبدالوھاب، سّید عبداللہ شاہ علوی المعروف سّید عدل دریا شاہ، سّید میر کلاں رحمت، حضرت لعل موسیٰ، حضرت لعل بکر، پیر پٹھ شاہ عالم، حضرت شاہ گودڑیو۔ لعل شہباز قلندر شاعر بھی تھے مگر ان کا دیوان دستیاب نہیں کچھ لوگوں کے پاس قلمی نسخہ کے طور پر ہے۔ آپ نے شان محمدﷺ سے عقیدت کے طور پر بہت کچھ لکھا ہے۔
آں شاہ ہر دو عالم عربی محمدؐ است
مقصود بود آدم عربی محمدؐ است
صد شکراں خدائے کہ پشت و پنا ہ خلق
شہنشاہے مکرم عربی محمدؐ است
لعل شہباز قلندر کا دھمال بہت مشہور ہوئے اس کا ایک شعر یہ ہے۔
کعبہ علی ؑ داتے جھکدے سکندر طریقت دا پہلا نمازی قلندر
کربل دی خاک شفا مند تے بل کے پاوے دھمالاں حسینی قلندر
لعل شہباز قلندر کے مزار پر نوبت اور دھمال کی رسم ادا ہوتی ہے بہت دور دور سے عقیدت مند آتے ہیں۔لعل شہباز قلندر نے سات سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھا اور آپ اللہ تعالیٰ ،اس کے بعد اس کے حبیب حضرت محمدﷺ پھر امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ؑ کے کلمہ گو تھے۔ وحدانیت، رسالت وولایت پر پختہ عقیدہ تھا اور محمدؐ وآل محمدؐ کی مودّت سے سرشار تھے۔ آپ کا وصال 669ہجری میں ہوا جب کہ ولادت 590بھی درج ہے۔
جب آپ کا وقت وفات آیا تو آپ نے اپنے مریدین اور خلفاء کو جمع کیا واعظ و نصحیت کر کے ایک حجرے میں مراقبہ میں چلے گئے جہاں ان کی رحلت ہوئی۔ پھر آپ کو موجودہ درگاہ کے مغرب کی طرف غسل دیا آپ کو اس جگہ دفن کیا جہاں آپ اکثر تکیہ لگا کر بیٹھا کرتے تھے ۔ آپ کا عرس ہر سال 18شعبان سے 20شعبان المعظم منایا جاتا ہے۔ ہر سال اس عرس میں شرکت کرنے والوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ ہماری حکومت سندھ سے التجا ہے کہ وہ سیہون شریف میں مسافر خانے بنوائے اور لعل شہباز قلندر کے عقیدت مندوں کے لیے عرس میں مفت ٹرانسپورٹ چلائے۔