’’ذوق پرواز‘‘ ایک سفر نامہ
عام طور پر پولیس والوں کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا ہوتا ہے لیکن ان کے کان میں قلم اورہاتھ میں کتاب ہوتی ہے
ہم آج تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ یہ شخص ہے کیا؟ یا یہ کہ یہ شخص کیا کیا، اورکیا کیا نہیں ہے ؟
کوئی جھنکار ہے نغمہ ہے صدا ہے کیا ہے
تو کرن ہے کہ کلی ہے کہ صبا ہے کیاہے ؟
اور اس شخص کا نام ہے فصیح الدین اشرف، دیکھئیے تو یہ ایک پولیس والا ہے اورپولیس والا بھی وہ نہیں جو عام طور پر ہوتے ہیں بلکہ وہ پولیس والا ہے جو نہیں ہوتے اوراگر ہوتے ہیں تو بہت کم کم ، خال خال ، گنے چنے جیسے کسی لق ودق صحرا میں نخلستان یا پھل دار اور سایہ دار درخت
رند جو مجھ کو سمجھتے ہیں نہیں ہوش نہیں
میکدہ سازہوں میں میکدہ بردوش نہیں
مطلب یہ کہ انھیں '' پولس باز'' کی بجائے پولیس ساز کہاجائے تو زیادہ صحیح ہوگا کہ زیادہ تر ان کاتعلق پولیس کی تربیت اورتربیت گاہ سے رہا ہے، ہنگو کے پولیس ٹریننگ اسکول کے پرنسپل رہے ہیں بلکہ اب بھی ہیں، بییچ بیچ میں اگر ادھر ادھرگئے بھی ہیں تو ہرجگہ حسرت موہانی رہے ہیں کہ ؎
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی
عام طور پر پولیس والوں کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا ہوتا ہے لیکن ان کے کان میں قلم اور ہاتھ میں کتاب ہوتی ہے پڑھتے رہتے ہیں ، لکھتے رہتے ہیں لکھتے رہتے ہیں اور پڑھتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب لکھتے ہیں تو ایسا کہ ... وہ لکھے اور پڑھا کرے کوئی ...کؤں کہ اس لکھنے کے پیچھے پڑھنے کا زور ہوتا ہے ویسا ہی زور... جیسا کہ کسی تیر سے پوچھا کہ تم اتنا تیز کؤں اڑ رہے ہو، تو تیر نے کہا کہ میرے پیچھے کمان کا زور ہے چنانچہ''خامہ بجوش'' کے نام سے وہ اخبارات میں جو کالم لکھتے رہے ہیں اور جن کے مجموعے بھی خامہ بجوش اورصحرا میں اذان کے نام سے کتابی صورت میں چھپے ہیں، واقعی خامہ بجوش کے مظہر ہیں ان کالموں میں ان کے رنگ تو بہت سارے جھلکتے ہیں
تری آنکھوں میں کئی رنگ جھلکتے دیکھے
سادگی ہے کہ جھجک ہے کہ حیا ہے کیاہے؟
ان کے دو خاص موضوعات ہیں اور یہاں بھی وہی اجتماع ضدین والا معاملہ ہے یا اخروٹ اور ناریل والا کہیے اوپر سے سخت اوراندر سے نرم اور میٹھا۔ ان کا ایک موضوع تو کرمنالوجی ہے جس کے سلسلے میں وہ قومی اوربین الاقوامی مجلوں میں لکھتے ہیں اوراسی سلسلے میں وہ بہت سارے کانفرنسوں میں اور سیمیناروں میں شرکت کرتے ہیں ، پاکستان جرنل آف کرمنالوجی ان میں خاص طورپر قابل ذکرہے۔ لیکن یہاں بھی موصوف نے اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہے اورعلم کے دونوں ذرائع استعمال کیے ہیں
علم و تعلیم کے بارے میں بہت کہا سنا اورلکھا پڑھا جاتا ہے لیکن کوئی بھی علم اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک حصول علم کے دونوں ذرائع استعمال نہ کیے جائیں، حصول علم کے ان دو ذرائع میں سے ایک تو مطالعہ ہے اوردوسرا مشاہدہ ۔ قدیم ہندی نوشتوں میں ان ذرائع کو سرتی اورسمرتی کہاگیا ہے، سرتی وہ علم جو کانوں کے ذریعے حاصل کیا جائے یعنی سننے سے ، اسے ہم مطالعہ کہہ سکتے ہیں کہ اگلے زمانوں میں کتابیں نہیں ہوتی تھیں اورلوگ سن سن کر علم حاصل کرتے تھے دوسرا ذریعہ سمرتی کہلاتا ہے جو آنکھوں سے حاصل ہوتا ہے یعنی مشاہدہ۔
اورجب تک یہ دونوں مطالعہ اورمشاہدہ یکجا نہیں ہوتے اسے علم یامکمل علم نہیں کہاجاسکتا ۔
جب کہ فصیح الدین اشرف کا مطالعہ اورمشاہدہ دونوں بھرپور ہیں وہ جب کرمنالوجی پر لکھتے ہیں تو مطالعے کے ساتھ مشاہدہ بھی ان کے پاس ہوتا ہے اوریہی سلسلہ ان کے دوسرے خصوصی موضوع تصوف کے ساتھ بھی ہے یہاں بھی نہ صرف مطالعہ ان کے ساتھ ہوتا ہے بلکہ خود بھی راہ سلوک کے راہی ہیں چنانچہ جب وہ ان میں سے ہرموضوع پر لکھتے ہیں تو ان کاخامہ بجوش ہوتا ہے اورپڑھنے والوں کی وہی کیفیت ہوتی ہے جو مرشد نے بتائی ہے یعنی ۔۔۔۔میںنے یہ جانا کہ گویا یہ بھی مرے دل میں ہے ۔
اب تک ان کی جو کتابیں آئی ہیں اورزیادہ تر ان کے کالموں پر مبنی ہیں ان میں زیادہ تر یہی دو موضوعات زیربحث رہے ہیں۔ کرمنالوجی اورتصوف۔ اگر دوسرے موضوعات زیر بحث آئے بھی ہیں تو ان میں بھی ان کایہی مطالعہ اورمشاہدہ جھلکتا رہا ہے ۔
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں بادہ وساغر کہے بغیر
ان کی تحریروں کی روح دراصل وہ ''کاش'' ہے جو ہردردمند پاکستانی کے دل میں ہوتا ہے ۔ کاش ایسا ہوتا ۔۔کاش ویسا نہ ہوتا ۔ کاش کاش
کاش ایسا کوئی منظر ہوتا
میرے کاندھے پہ تیرا سر ہوتا
کاش میں سب کے برابر ہوتا ۔اس سلسلے میں ان کا وہ مشاہدہ سامنے آتا ہے جو انھوں نے دنیا بھر کے ممالک میں پھرپھر کر کیا ہے۔ وہ کرمنالوجی کے سیمیناروں اور کانفرنسوں میں تقریباً ہرقابل ذکر ملک کامشاہدہ کرچکے ہیں اوران میں شرکت کرنے والے دنیا بھر کے علماء کے مقالہ جات سن چکے ہیں خاص طورپر ممالک جو ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوچکے ہیں ۔
ظاہرہے کہ وہ سب بہت آگے بڑھ چکے ہیں اورہم ابھی جوتے تلاش کررہے ہیں جو شاید کبھی نہ مل سکے خدشہ ہے کہ وہ جوتے کوئی چرا کرنہ لے گیا ہو ؎
یاران تیزگام نے منزل کو جالیا
ہم محو نالہ جرس کارواں رہے
کہتے ہیں پرانے زمانے کے ایک نواب صاحب نے دوسرے نواب کی دعوت کی ، جب کھانے پر بیٹھنے کاوقت آیا تو میزبان نواب نے دستر خوان کو دیکھ کر کہا۔۔بھئی دہی کی کمی ہے۔ فوراً ایک نوکر کو بازار بھیجاگیا اورمیزبان نواب ساتھ ہی غائبانہ کمنٹری کرنے لگے ابھی وہ دہی کی دکان پر پہنچ گیا دکاندار نے دہی دے دیا وہ واپس آرہا ہے گھر کے دروازے پر پہنچ گیا۔ اے لو وہ پہنچ گیا ہے ، ساتھ ہی نوکر کو آواز دی ۔ دہی لے آئے۔ باہرسے نوکر نے کہا جی حضور۔ اورپھردہی لیے ہوئے اندر آگیا ۔
مہمان نواب اس ٹائمنگ سے متاثرہوا اورجوابی دعوت میں اس نے بھی اپنے ایک نوکر کو خوب ٹرینڈ کیا ، اسی طرح کسی چیز کی کمی۔ پھر نوکر کو بھیجا اورپھر رننگ کمنٹری۔۔ اورپھر۔۔۔ اے لو وہ پہنچ گیا ،آواز دی ۔۔۔فلاں ۔۔لے آئے کیا؟ نوکر نے باہرسے جواب دیا ۔۔ حضورابھی جارہاہوں جوتے مل جائیں تو ۔
جناب فصیح الدین اشرف کی تازہ ترین کتاب ایک سفرنامہ ''ذوق پرواز'' ہے لیکن یہ کسی ایک ملک کاسفر نامہ نہیں یا ویسا سفرنامہ نہیں ہے جسے سفرناموں کی آج کل بھر مارہے ۔ فصیح الدین اشرف کاسفرنامہ ایک بالکل ہی منفرد سفرنامہ ہے وہ جہاں جہاں بھی گئے وہاں سے پاکستان اورپاکستانؤں کادرد لے کر آئے ہیں وہاں کی بے پناہ ترقؤں ،صحت مند رحجانات اورروایات کو دیکھ کر کڑھتے رہے ہیں اوروہی بات کہ ۔کاش میں سب کے برابر ہوتا بلکہ ان کی کیفیت کے لیے میں اپنا ہی ایک شعر پیش کروں گا
چہ دے خپل زڑگی تہ گورم دیارانوں پہ محفل کے
لکہ کوردچاکنڈروی پہ آبادہ آبادے کے
ترجمہ۔ جب میں یاروں کی محفل میں اپنے دل کو دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے بھرے پرے شہر میں کسی کاگھر ویران کھنڈر ہوگیا ہو۔
زیرنظر کتاب''ذوق پرواز'' سفرنامہ تو ہے لیکن اس میں سفر صرف ممالک یازمینوں کا نہیں ہواہے بلکہ ساتھ ساتھ ایک اورسفر بھی جاری رہتا ہے اورروہ سفر ہے ذہن کاذہنوں تک سفر ، جذبات سے جذبات تک کاسفر احساسات سے احساسات کاسفر۔ذوق پرواز کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہم نے کیا کیا کھویا اورلوگوں نے کیا کیا پایا ۔