اتحاد اُمت
مسلمان اتحاد و اتفاق کے ساتھ آپس میں ایک ہو کر بڑی قوت بن جاتے ہیں
اتحاد و اتفاق اور محبّت کی تعلیم سب سے زیادہ اسلام دیتا ہے۔ اسلام کی یہ ایک ایسی خوبی ہے کہ مسلمانوں کو اس پر فخر کرنا چاہیے اور اپنے اختلافات کو دُور کرکے اور ظاہری تفریق کو مٹا کر ایک خدا کا بندہ بن کر میل جول اور محبت سے زند گی گزارنا چاہیے۔
کوئی امیر اپنے آپ کو دولت کی وجہ سے اونچا نہ سمجھے، کوئی غریب دولت نہ ہو نے کی وجہ سے اپنے آپ کو کم زور اور ذلیل خیال نہ کرے، رنگ اور بولی کی تفریق کو ختم کر دیا جائے۔ اپنے آپ کو ایک خدا کا بندہ اور حضرت محمد ﷺ کا اُمتی سمجھے اور ہر ایک دین کی پابندی کر کے خدا کے یہاں اپنا مقام بلند کرنے کی کوشش کرے، ایک دوسرے کی مدد کرنے اور مصیبت میں کام آنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ مسلمانوں کا ماضی اتنا شان دار ہے کہ اگر مسلمان اس کو اپنے سامنے رکھیں تو ان میں اتحاد و اتفاق بھی پیدا ہوسکتا ہے اور ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ بھی۔ اس سلسلے میں ان چند اہم واقعات پر غور کیجیے۔
جنگ اُحد میں نبی کریم حضرت محمّد ﷺ کے چچا حضرت امیر حمزہؓ شہید ہوگئے جن سے حضور ﷺ کو بہت محبت تھی اور انہوں نے اسلام کی بڑی خدمت کی۔ جب ان کے شہید ہونے کی خبر اُن کی بہن صفیہؓ کو ہوئی تو وہ اپنے بھائی کے کفن کے لیے دو چادریں لے کر آئیں۔ جب ان چادروں میں حضرت حمزہؓ کو کفن دیا جانے لگا تو پتا چلا کہ ایک دوسرے صحابیؓ بھی شہید ہوئے ہیں لیکن ان کو کفن دینے کے لیے کوئی کپڑا نہیں۔ حضرت حمزہؓ کی بہن اور ان کے عزیزوں نے فوراً بڑی چادر اپنے مسلمان بھائی کے لیے دے دی اور حضرت حمزہؓ کو ایک چادر میں دفن کیا گیا جو اتنی چھوٹی تھی کہ جب حضرت حمزہؓ کے پاؤں ڈھکے جاتے تھے تو سر کھل جاتا تھا اور جب سر ڈھکا جاتا تھا تو پاؤں کھل جاتے تھے۔
جنگ یرموک میں ایک مسلمان سپاہی زخموں سے بے چین ہے جان نکلنے کے قریب ہے، اس حال میں ایک مسلمان بھائی پانی دیتا ہے لیکن یہ تڑپتا ہوا مسلمان بھائی اشارے سے کہتا ہے کہ پہلے میرے دوسرے بھائی کو پلاؤ۔ اور پھر ایک کے بعد دوسرے نے یہی عمل اصرار کیا اور پانی والا جب دوبارہ تڑپتے ہوئے پیاسے بھائیوں کے پاس پہنچا تو سب جان دے چکے تھے۔
جب نبی کریم ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے اور آپؐ نے مکہ کے مسلمانوں کو مدینے کے مسلمانوں کا بھائی بنایا تو وہ ایک دوسرے سے اتنی محبت کرنے لگے کہ مدینے کے مسلمانوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کو اپنے کاروبار میں شریک کرلیا، اپنی زمینیں تقسیم کردیں، اپنے مکان دے دیے اور ہر طرح ان کی مدد کی اور مہاجر اپنے انصار بھائیوں سے اتنی محبت کرتے تھے کہ اپنی کمائی ہوئی دولت تک ان کے سپرد کردیتے تھے۔ اسلام کی تاریخ کا ہر واقعہ اتحاد و اتفاق کی مثال پیش کرتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس اتحاد و اتفاق ہی کی برکت سے عرب کے گندے ماحول میں اسلام پھیلا اور مسلمانوں نے عزت حاصل کی اور بڑی عظیم طاقتوں کا مقابلہ کیا اور ہمیشہ کام یاب ہوئے۔
اتحاد سے جو قوت حاصل ہوتی ہے اُس کو اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ جب بہت سے تنکوں کو ایک جگہ باندھ کر جھاڑو بنا دیا جاتا ہے تو وہ جھاڑ پورے مکان کو کوڑے وغیرہ سے صاف کردیتا ہے۔ لیکن اگر ان تنکوں کو علاحدہ کرکے مکان صاف کرنے کی کوشش کی جائے تو مکان کبھی صاف نہیں ہوسکتا بل کہ ہر تنکا ٹوٹ کر یا ہوا میں اُڑ کر ختم ہوجائے گا۔ بالکل اسی طرح مسلمان اتحاد و اتفاق کے ساتھ آپس میں ایک ہو کر بڑی قوت بن جاتے ہیں اور اپنے عظیم مکان اسلام کو دشمنوں سے بچا لیتے ہیں لیکن اگر ان میں اختلاف پیدا ہوجائے اور وہ ایک دوسرے سے علاحدہ اور دور ہوجائیں تو خود ختم ہوجاتے اور دشمن کی نذر ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو اسلام کی حفاظت اور اپنی عزت و آبرو کے لیے اپنے ہر اختلاف کو دور کرکے اپنے اندر اتحاد و اتفاق اور محبت پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اسلام نے اتحاد و اتفاق سے رہنے کا حکم صرف مسلمانوں ہی کے ساتھ نہیں دیا بل کہ دوسرے مذہب کے لوگوں کے ساتھ بھی اسلام مِل جُل کر رہنے کی تعلیم دیتا ہے، اسلام میں دوسری قوموں کو ستانے یا ان کو ذلیل سمجھنے کی ہرگز اجازت نہیں۔
جس طرح ربّ تعالیٰ اپنے نہ ماننے والوں کو دنیا کی تمام نعمتیں دیتا ہے اسی طرح وہ یہ پسند فرماتا ہے کہ اس کے ماننے والے کسی کو پریشان نہ کریں بل کہ ہر ایک کو امن و سکون اور آرام سے زندگی گزارنے دیں۔ کسی باغ کا مالک ہرگز یہ نہیں پسند کرتا کہ کوئی اس کے لگائے ہوئے درختوں، پھولوں یا پھلوں کو خراب کردے۔ یہ ساری دنیا خُدا کا لگایا ہُوا باغ ہے اس کا مالک حقیقی یہ پسند نہیں فرماتا کہ ہم آپس میں لڑیں جھگڑا کریں اور ایک دوسرے کو قتل کریں یا ایک دوسرے کے مال پر قبضہ کریں۔
غیر قوموں کے ساتھ اتحاد و اتفاق کی تعلیم دینے ہی کے لیے حضور اکرم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کو یہ حُکم دیا گیا کہ مکہ کے کافروں نے تمہیں ستایا اور تمہیں پریشان کیا۔ یہاں تک کہ تمہیں کعبہ میں عبادت بھی نہ کرنے دی۔ لیکن تم ان کی اس دشمنی کی وجہ سے ان پر کوئی زیادتی اور ظلم مت کرنا۔ غیر قوموں کے ساتھ اس اتحاد ہی کو باقی رکھنے کے لیے بتوں کی پوجا کرنے والوں (کافروں) سے بھی یہ ہی کہا گیا یا تو تم ہمارے دین کو قبول کرلو اور اگر نہیں کرنا چاہتے تو ''تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین'' یعنی تمہاری مرضی ہے، ہم لڑ جھگڑ کر کسی کو اپنا دین قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتے، دین کے معاملے میں کوئی دباؤ اور مجبوری ہو ہی نہیں سکتی۔
جس طرح رات ہوجانے کے بعد کسی عقل مند کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ رات سونے کے لیے ہوتی ہے اور دن نکل آنے کے بعد کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ دن کاروبار کے لیے ہوتا ہے۔ اسی طرح ہدایت اور گم راہی، اچھائی اور بُرائی قرآن کریم اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ذریعے ظاہر کردیے گئے۔ اب اسلام یہ اجازت نہیں دیتا کہ کوئی کسی پر دباؤ ڈالے اور آپس میں فساد اور جھگڑا پیدا کرے بل کہ ہر ایک کو اپنے دین کی صداقت کے لیے دینی باتیں بیان کرنا چاہییں اور ہر انسان کو اپنی عقل سے کام لے کر اچھے دین اور سیدھے راستے کو قبول کرلینا چاہیے۔
تاریخ اسلام سے بھی یہ بات بالکل روشن ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ غیر قوموں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور اُن کا پورا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ نبی کریم حضرت محمد ﷺ نے خود غیر قوموں سے اتحاد کیا اور اتحاد کے لیے جو جملے استعمال کیے گئے ان میں سے چند یہ ہیں، مفہوم: ''یہ سب لوگ ایک ہی قوم سمجھے جائیں گے۔ بنی عوف کے یہود ی مسلمانوں کے ساتھ ایک قوم ہیں۔ مظلوم کی مدد کی جائے گی۔'' (چاہے وہ کسی مذہب کا ہو) ۔
نبی کریم حضرت محمد ﷺ جب دوبارہ مکہ میں داخل ہوئے اور مکہ کی حکومت آپ کو دے دی گئی تو آپؐ نے مکہ کے اُن کافر دشمنوں کو معاف کردیا جنہوں نے آپؐ کو اور دوسرے مسلمانوں کو مکہ سے نکال دیا تھا۔
اس موقع پر کسی مسلمان کواپنے دشمن سے بدلہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ صرف اسی لیے کہ اسلام تو سب کے ساتھ اتحاد، امن اور سکون سے رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ مسلمانوں نے صرف انہی صورتوں میں جنگ کی اور غیر قوموں کا مقابلہ کیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنی اور اپنے دین کی حفاظت کے لیے جہاد کا حکم دیا ہے۔ لیکن کسی قوم کو ستانے، پریشان کرنے، کسی کے ملک پر قبضہ کرنے یا کاروباری معاملات میں غیر مسلموں سے علاحدگی، غیر مذہب کے لوگوں کو ذلیل سمجھنے کی ہرگز اجازت نہیں دی گئی۔ مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کی اس اسلامی تعلیم پر عمل کرتے ہو ئے آپس میں زیادہ محبت پید ا کرنے اور غیر مسلموں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔