تجارتی خسارہ اور بجلی کے ناقابل برداشت بل

عوام مہنگائی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں، اور کروڑوں ڈالر خرچ کرکے افسران کو نوازا جا رہا ہے



پاکستان کی معیشت کئی جانب سے خسارہ، مندی، نقصان، عدم توازن، غیر یقینی صورت حال، خدشات وغیرہ وغیرہ میں گھری ہوئی ہونے کے باعث معیشت کو تجارت خارجہ کی جانب سے اس کی شکست و ریخت، برآمدات کی بدحالی اور بعض غیر ضروری، ضرورت سے زائد درآمدات کے باعث بڑھتے درآمدی بل کے نتائج کا انتظار تھا، وہ انتظارکی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ اس میدان میں حقیقی معنوں میں معیشت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ برآمدات میں کسی قسم کا خاطر خواہ اضافہ نہ ہوسکا۔


اس کی وجہ نہ حکومت، نہ تاجر، نہ برآمد کنندگان وغیرہ قطعاً نہیں ہیں۔ صرف وہ بجلی بم ہیں جو عوام پر گرتے ہیں اور وہ سنبھل نہیں پا رہے ہیں۔ فیکٹریز، ملوں، انڈسٹریوں پرگرتے ہیں تو ان کی مصنوعات کی لاگت بڑھ جاتی ہے جس سے آرڈرز پر عمل درآمد کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ کیونکہ گزشتہ برس جو لاگت آ رہی تھی اب اس سے کہیں زائد ہونے کے باعث غیر ملکی تاجروں کی کسی طور پر تشفی نہیں ہو رہی۔ آخرکارکارخانے تالہ بندی کا شکار، ملازمین بے روزگار ہورہے ہیں۔


سال 2022-23 جیسے تیسے گزرا، پھر یکم جولائی 2023 سے نئے مالی سال کا آغاز ہوا، توقعات پیدا ہوئیں، ہمت بندھی، عزائم کو تقویت ملی، معیشت نے کروٹ لینا شروع کی کہ معلوم ہوا کہ بجلی گیس مہنگی کرنے کی ضرورت پیش آگئی،کیونکہ آئی ایم ایف کمپنی بہادر کا مطالبہ یہی تھا۔ پھر تو بجلی مہنگی ہونا شروع ہوئی اور کئی کئی بار ہوتی رہی، عوام کا تو بھرکس نکل گیا۔


اشرافیہ کے ایک طبقے کے لیے بجلی کے سیکڑوں یونٹ فری، گاڑی کا پٹرول فری، ادھرکارخانہ داروں نے اشیا کی تیاری کی لاگت ٹیکسوں کی ادائیگی، مال کی نکاسی کے اخراجات، برآمدات کا حساب کتاب،آرڈرز، ان کے ریٹس، پھر کارخانوں میں بجلی کا خرچہ، ٹرانسپورٹ کے اخراجات، پانی کے ٹینکروں کا خرچہ اور بہت کچھ جمع در جمع کرنے کے بعد کتنے اس نتیجے پر پہنچتے رہے کہ فیکٹری کو تالہ لگاؤ۔ لہٰذا اس مشکل ترین صورت حال کا مقابلہ کرتے کرتے پھر بھی ہمارے صنعت کاروں نے جولائی 23 تا جون 24 ایک سال کے دوران 30 ارب 64 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کی برآمدات کر ڈالیں۔


جہاں اتنے سارے مسائل ہی مسائل۔ ایسے کسی اور ملک سے اس کا مقابلہ بیان کرنا عبث ہے بے کار ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ تجارتی اتاشی برسر پیکار ہوتے۔ جہاں جہاں تعینات ہیں وہاں کے سفیر اور تجارتی اتاشی وغیرہ مل کر ملکی برآمدات کو فروغ دینے کے لیے خوب محنت کر ڈالتے تو 30 ارب ڈالر توکیا 60 ارب ڈالر تک باآسانی پہنچ سکتے تھے۔ سنتے ہیں کہ کھیوڑا کے نمک پرکسی اور ملک کی اجارہ داری ہے۔ اس خبر کی تصدیق کرائی جائے اگر ایسا ہے تو پھر اس کا حل نکالا جائے تاکہ پاکستان کی آمدن میں اضافہ ہو۔


اب درآمدات کی بات کر لیتے ہیں یعنی 54 ارب 73 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز کی درآمدات مالی سال 2023-24 کے دوران نوٹ کی گئیں اور اس سے گزشتہ مالی سال درآمدات 55 ارب 19 کروڑ80 لاکھ ڈالر کے ساتھ۔ لوجی ہم نے تیر مار لیا اور درآمدات کی مد میں 0.84 فی صد کمی کر ڈالی۔ میری نظر میں کئی شعبے ایسے ہیں جن میں درآمدات کو کنٹرول کر سکتے تھے اور درآمدات میں تقریباً 4 ارب ڈالر کی کمی لائی جا سکتی تھی۔ ملک میں گندم کی پیداوارکا خیال رکھا جاتا گندم آٹا اسمگل ہونے سے مکمل طور پر روکا جاتا، ہزاروں لاکھوں من گندم جو سڑ گئی، برباد ہوگئی، سیلابی پانی لے گیا ادھر سے ادھر غائب ہوگئی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور بہت کچھ کر گزرتے تو نصف ارب ڈالر کی گندم درآمد میں بچت ہو جاتی۔ اسی طرح ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد موبائل فون وغیرہ درآمد کر لیے جب کہ مالی سال 2022-23 میں نصف ارب سے کم کی درآمدات تھیں۔


اس شعبے میں بھی تقریباً ایک ارب ڈالر بچا سکتے تھے۔ اسی طرح قیمتی کاریں منگوا کر کروڑوں ڈالر صرف کر دیے جاتے ہیں۔ حکومت ان پر ٹیکس بڑھ چڑھ کر وصول کرتی ہے لیکن راقم کے خیال میں ان قیمتی لگژری گاڑیوں کی ضرورت صرف اور صرف امیروں کو اس لیے ہوتی ہے کہ وہ اپنی شان و شوکت ظاہر کرسکیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ کتنا ہی ٹیکس وصول کرلیں آخر کروڑوں ڈالر خرچ تو ہوئے۔ ہمارے لیے قیمتی سرمایہ ایک ایک ڈالر ہے۔ ملک انھی ڈالروں کی خاطر آئی ایم ایف کا ظلم و ستم برداشت کر رہا ہے۔ عوام مہنگائی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں، اور ہم کروڑوں ڈالر خرچ کرکے ان کو قیمتی لگژری گاڑیاں، اشیائے تعیشات، بسکٹ، ٹافیاں، قیمتی فرنیچر اور قیمتی موبائل فون اور پاکستان میں ان کا متبادل ہونے کے باوجود اشرافیہ کی پسند کی خاطر غیر ملکی مال درآمد کر رہے ہیں اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔


اسی طرح اشیائے خوراک پر بھی سالانہ اربوں ڈالر خرچ ہوتا ہے۔ وہاں سے بھی کروڑوں حتیٰ کہ اربوں ڈالر کی بجٹ کر سکتے ہیں۔ اب آپ بھلا بتائیے مالی سال 2022-23 کے دوران 55 ارب ڈالر کی درآمدات اور گزشتہ مالی سال تقریباً پونے پچپن ارب ڈالر کی درآمدات، حالانکہ باآسانی 50 ارب ڈالر تک لا سکتے تھے، لیکن ایسا کیا نہیں گیا؟ اس طرح میرا اندازہ ہے کہ ہمارا تجارتی خسارہ 15/10 ارب ڈالر تک پہنچنے پر ہم خوشی کے شادیانے بجا سکتے تھے لیکن مالی سال 2023-24 کے دوران تجارتی خسارہ کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ 24 ارب 8 کروڑ90 لاکھ کا ہوا ہے۔ یہ 24 ارب ڈالر اس وقت ہمارے لیے ناقابل برداشت اس لیے ہے کہ ہماری معیشت اب قرضوں پر آچکی ہے۔ قرض کی ادائیگی کے لیے قرض لینا اب فرض بن چکا ہے۔


عالمی سیاسی معاشی حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ دوسری طرف غزہ میں اسرائیلی بربریت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اسی دوران حوثیوں کی طرف سے جہازوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ اس طرح مشرق وسطیٰ میں وسیع تر خطرات کے نتیجے میں عالمی معیشت کو سہم کر رہنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ کسی قسم کی عالمی کساد بازاری سے پاکستان کی معیشت جوکہ جمود کا شکار ہے جلد ہی اپنی منفی شرح ترقی کی جانب گامزن ہو سکتی ہے۔ حکومت کئی ممالک جن کے ساتھ پاکستانی کارکنوں کے لیے ویزے کے مسائل ہیں، حال ہی میں اس فہرست میں سعودی عرب کا اضافہ ہوا ہے۔


اسی طرح کویت کے لیے پاکستانیوں کے مسائل کا حل حکومتی سطح پر طے کرکے کویتی ویزوں کے اجرا میں آسانی پیدا کرے۔ ملکی زراعت کو ترقی دے، غیر ضروری لگژری اشیائے تعیشات کی درآمد کو کم ازکم 6 ماہ کے لیے معطل کردے۔ بہرحال کچھ ایسے اقدامات کرگزرے تاکہ روزگار کے مواقعے بڑھیں، بیرون ملک سے افرادی قوت کی برآمد میں اضافہ ہو تاکہ فوری ترسیلات زر میں اضافہ ہو اور بجلی نرخوں میں کمی کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں