ہمارے میڈیا کو ہمیشہ ایک جھاڑتے، پھنکارتے، کلبلاتے مذہبی افلاطون کی ضرورت رہی ہے۔ لال ٹوپی ہو یا پھندنے والی ٹوپی، ان رنگ برنگ مجاہدوں نے شوز میں ''حمیت'' کو زندہ رکھا ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ عامر لیاقت کے میڈیا مرکب عالم کا خلا پورا نہ ہو سکا تھا کہ آگیا وہ شاہکار جس کا تھا انتظار اور ساحل عدیم نے سوشل میڈیا ریٹنگ کے بھوکے میڈیا کو شکار کرلیا۔
اب تو چاروں طرف مناظرے کا جدی پشتی سماں بندھتا ہے کہ تھر تھلی مچ جاتی ہے، باسی کڑھی میں ابال آتا ہے اور ریٹنگ کا گھی چینل نچوڑ لیتا ہے۔
کرسی سنبھالے ساحل کے مختصر تعارف کے بعد اصل بات کی طرف آتے ہیں جس میں اُنہوں نے ایک اور شُرلی چھوڑتے ہوئے عزت مآب خواتین کی پچانوے فیصد آبادی کو جاہل قرار دیا ہے۔
اس منہ میں خاک لیکن تمام زمانی، امکانی اور شعلہ بیانی اختلافات کے بعد جوان یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اگر مردوں کی نسبت سے دیکھا جائے تو عدیم صاحب نے ایسا کچھ غلط نہیں کہا۔ بھلا جس معاشرے میں کم سے کم محتاط اندازے کے مطابق ننانوے فیصد مرد عقل اور منطق سے بے بہرہ ہوں، اس میں خواتین عالموں کی اتنی بڑی تعداد کافی حوصلہ افزا ہے۔
اگر عالم بنی چیلیں اور ان کے چیلے بھی شامل کرلیے جائیں تو مردوں کی یہ تعداد بمشکل ایک فیصد ہی پوری ہوگی کہ اس مردانہ معاشرے میں ہر طبقہ؛ مریض سے ڈاکٹر، جج سے سائل، مدعی سے وکیل، اور سیاست دان سے عوام، دمڑی والوں سے چھڑی والوں تک، ہر ایک کو جاہل گردانتا ہے۔ یہ تو سیدھی سادی اپنے آپ پر گواہی ہے کہ اعضا ہی جب خود گواہی دے رہے ہوں تو بھلا کون اس کو جھٹلا سکتا ہے اور اس ننانونے فیصدی تعداد کو غیر مستند قرار دے سکتا ہے؟
ہماری عورتوں کو تو ساحل کے ساتھ جھوم برابر کرنا چاہیے کہ کم سے کم اگر آبادی کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو اس خود ساختہ اسکالر کے مطابق ملک کی ایک کروڑ عورتیں مردوں کے مقابلے میں جاہل نہیں، جو کہ بہت بڑی بات ہے۔ دوسری بات کہ آٹھ پہروں مردانہ معاشرے میں علم اور مکان کی چابی صرف مرد کے ہاتھ میں ہے تو اس تالا بندی میں ایک کروڑ سے زائد عورتیں مردوں کو شہ مات دیے ہوئے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ یہ قفل کھولیں تو خواتین کے علم کی خوشبو سے انگ انگ مہک اٹھے اور بہت ممکن ہے کہ اس تعداد کا الٹ پھیر ہی ہوجائے۔
خیر پانچ ہوں یا پچانوے، چینل نے آڈینس میں سے ایک خاتون سے مڈ بھیڑ کروا کر لبرل اور مذہبی طبقے کو ایک بار پھر سینگوں میں پھنسا کر اپنی ریٹنگ کے بھی 100 نمبر پورے کرلیے ہیں۔ کیوں کہ اصل بات rating کی ہی تو ہوتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔