میں اک صدی سے پریشاں ہوں
سوچتا ہوں
لہو سے لکھتے
مرا قلم اُگل رہا ہے سفیدی
یہ کیا تماشا ہے
کہا تھا تم نے کہ نظمیں مری
لہو رنگ ہیں
صریرخامۂ بے رنگ تو سنی نہ کبھی
مگر یہ کیا کہ بصارت پہ اب یقیں ہی نہیں
سماعتیں بھی ہیں شرمندہ
زمیں دوز مکانوں میں
ڈری سہمی ہوئیں
وَرق پہ آج بھی نظمیں وہی تڑپتی ہیں
ورق سفید ہے
نظمیں نظر نہیں آتیں
صریر خامہ کو سننے کی تاب کیا رکھتے
سماعتوں پہ تو اترا نہیں مرے ہمدم
طلسم شب کا سکوت
مگر یہ سرخ لہو نے لباس کیوں بدلا
کفن پہن کے مرے لفظ کیا کہیں گے ابھی
یہ مر کے امن کی نظمیں کسے سنائیں گے
صدا عدم کی سنے گا
تو کون ہے ایسا؟
کہ ہم تو زیست کے نغمے بھی سن نہیں سکتے
میں اک صدی سے پریشاں ہوں
سوچتا ہوں
لہو سے لکھتے
مرے قلم میں سفیدی کہاں سے آئی ہے
میں سوچتا ہوں
مرے خوں کا خون کس نے کیا
٭٭٭٭
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔