کتنے ظالم ہیں آپ لوگ
آئی ایم ایف کی ایماء پر اشیاء خورونوش اس قدر مہنگی ہوچکی ہیں کہ اب یہ عوام کی دسترس سے بہت دور ہے
یہ ملک پاکستانی عوام کے ٹیکسوں کی بدولت قائم ہے، لیکن شروع ہی سے ٹیکس کی رقم سے حکمران طبقہ موجیں اڑاتا چلا آ رہا ہے، اپنے عزیزو اقارب کو عہدے بانٹنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں، تنخواہ کی مد میں بھی یہ فراغ دلی سے کام لیتے ہیں، اپنوں کو نوازشات کی بھرمار میں کسر نہیں چھوڑتے ہیں، قیمتی گاڑیاں، رہنے کے لیے خوبصورت آرائش و تزین سے مرصع محل جدید تعمیرکا نمونہ، ہر چیز قیمتی اور نادر، اپنی زندگیاں آسائشات پر بنا لی ہیں، انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
حقائق سے سب بخوبی واقف ہیں، لیکن ہٹ دھرمی ایسی، جس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں، دنیا کے فائدے پر اپنی عاقبت کو قربان کرنے والوں کو اس بات کا ذرہ برابر احساس نہیں کہ موت چند قدم پر ہے، پھرکیا جواب دیں گے؟ سلطنت کے امورکو اس انداز میں چلائیں کہ عوام بھی آپ کی حکومت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائیں، اپنے اخراجات کوکم کریں، محلوں میں رہنے کی بجائے مکانات میں آجائیں اور تعیشات کی مد میں خرچ ہونے والی رقم کو روتی پیٹتی آنسو بہاتی قوم کے لیے مختص کردیں۔
آئی ایم ایف کی ایماء پر اشیاء خورونوش اس قدر مہنگی ہوچکی ہیں کہ اب یہ عوام کی دسترس سے بہت دور ہے، چند ہی خاندان ایسے ہیں جو بہتر زندگی گزار رہے ہیں، اس کی وجہ سے تنخواہوں کے علاوہ بھی کچھ رقم ماہانہ میسر آجاتی ہے، وہ بھی ان کی محنت اور تدبرکے نتیجے میں،کسی کی زمین، جائیداد،کارخانے یا فیکٹری چل رہی ہیں، وہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں بھی ان کی محنت ومشقت کے اعتبار سے کم دے رہے ہیں، تب کہیں ان کا کاروبار زندگی رواں دواں ہے، لیکن اس گرانی کے دور میں مزدور طبقہ چکی میں اناج کی طرح پس رہا ہے۔
موجودہ حکومت نے ٹیکسوں کی بھرمارکر دی ہے، خصوصاً بجلی کے بلز جس میں غیر ضروری ٹیکس لگا کر صارفین کی خدمت میں دیدہ دلیری سے پیش کیے ہیں، بل کیا آتا ہے، یوں کہیے کہ موت کا پروانہ گھر میں داخل ہو جاتا ہے،گھرکے سربراہ اس بل کو دیکھ کر اپنا کلیجہ تھام لیتا ہے اور وہ ہارٹ اٹیک کے مرحلے سے گزرتا ہے، اب علاج کے لیے پیسے نہیں، مرجائے تو قبر نہیں، پیسے ہوں گے تو قبر ملے گی نہ جینا مشکل اور نہ مرنا آسان۔
حکومت نے آنکھیں بند کر کے ہر شے پر ٹیکس لگا دیے ہیں اور سندھ حکومت تو مزید ٹیکس لگانے اور غریب انسانوں کو گھر سے بے دخل کرنے کے پروگرام بنا رہی ہے، ایک دن جب فرصت ملے تو اپنے عوام کی تنخواہوں اور یومیہ اجرت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات پر ضرور غوروخوض کریں کہ ہر روز ٹیکسوں کی بھرمار سے عوام کا کس طرح بھلا ہوسکتا ہے ؟ اور یہ بے چارا غریب طبقہ کس طرح اورکیسے ٹیکس ادا کرسکے گا، اپنا خون اورگردے بیچ کر یا اپنی اولاد کی بولی لگائے گا،گھر پہلے ہی کرائے پر ہے، بچوں کی تعلیم علاج ومعالجے کے لیے رقم نہیں اور یہ تو دورکی بات ہے بھوکے کے لیے ایک ایک روٹی کا فقدان ہے۔
ذرا حکمران طبقہ پسماندہ علاقوں کا دورہ کرکے اپنی آنکھوں سے دیکھے تنگ گلیوں میں ننگ، دھڑنگ بچوں کی ٹولیاں، بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس، بوڑھے والدین جو سسک کر زندگی کے دن پورے کررہے ہیں،آپ نے تو انہیں صاف پانی سے بھی محروم کردیا ہے،گیس کی جگہ لکڑی جلانے پر مجبور ہیں، وہ بھی آسانی سے نہیں ملتی ہے، اس کے لیے رقم درکار ہے تب وہ ایندھن خرید سکتے ہیں اور رقم ہے نہیں، ان حالات میں سفید پوش مزید پریشان ہیں، ان کے گھرکے اخراجات پورے کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، تنخواہ تو چند دن میں ہی ختم ہوجاتی ہے، مکان کا کرایہ ، مہینے کا بل،کچھ اناج، دال دلیا گھرکے لیے، باقی رہی تعلیم، علاج بلوں کی ادائیگی، اس کے لیے پیسے نہیں ہیں،آج جو جہالت کا گھٹا ٹوپ اندھیرا دور دور تک پھیل گیا ہے۔ اس کی وجہ غربت اور حکومتوں کی تعلیم کی طرف سے بیگانگی ہے، ہمارے حکمرانوں نے یہ کبھی نہیں چاہا کہ ان کا ملک خوشحال ہو اور رعایا کے لیے بنیادی حقوق اور ان کی جائز ضرورتوں کے لیے لائحہ عمل بنایا جائے اور انہیں ان کی مسکراہٹ واپس کرے۔
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگ زیب نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تنخواہ دار طبقے کو گنجائش ملتے ہی ریلیف دیں گے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کوگنجائش کب ملے گی؟ کب غرباء کو زندگی کی آسائشیں نہ سہی، اس کا اسے جائز حق ملے گا اور اسے ٹیکس سے مبرا قرار دیا جائے گا کہ تو وہ نان نفقہ سے بھی محروم کردیا گیا ہے اسے مزید کتنا انتظارکرنا ہوگا؟ اس کی توکئی نسلیں بھو ک و افلاس کی نذر ہوچکی ہیں زندگی کی خوبصورت بہاریں گنوا چکی ہیں کب نوید سحر اپنا چہرہ دکھائے گی، غالب نے کیا خوب کہا ہے۔
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
دام ہر موج میں ہے حلقہ صدگام نہنگ
دیکھیں کیا گذرے ہے قطرے کوگہر ہونے تک