درخت ہمارے محافظ
کراچی میں مختلف منصوبوں کے تحت درختوں کی بے دردی سے کٹائی کی گئی تھی
قیامت خیز گرمی میں جب آسمان سے سورج جیسے آگ برسا رہا ہو اور ہوا کہیں مقید ہو تو پرندے اپنی چونچیں کھولے پانی کی تلاش میں بدحواس اور انسان پریشان نظر آتے ہیں۔ قدرت کی جانب سے برستے بادل ہوں یا آگ اگلتا سورج، طوفان ہو یا سرد برف سی ہوائیں، موسموں کی ایک بہار ہے جو ایک قطار سے چلی آتی ہیں۔ ہم انسان اپنے ہاتھوں سے ترقی اور مادیت پسندی کے بخار میں مبتلا اس دنیا کو تباہی کے دہانے کی جانب دھکیلنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
دنیا بھر میں اس وقت موسموں کے تغیرات نے ہلچل سی مچا رکھی ہے۔ بات اگر پاکستان کی کرتے ہیں تو سخت گرمی اور حبس کے باعث انسان پر عجیب سی کوفت سوار ہے۔ کیا ہم جانتے ہیں کہ ہم ان قدرتی ذرائع کو پے درپے ختم کرتے جا رہے ہیں جو موسمی تغیرات میں ہمارے لیے ڈھال بن کر کھڑے رہتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال درخت ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے جتنے درخت کاٹے گئے ہیں اور جتنے اور جس قسم کے درخت لگائے گئے ہیں کیا وہ ہمارے موسم کے موافق ہیں؟
ہرے بھرے درخت ہمارے لیے تازہ آکسیجن کے خزانے ہیں، وہیں یہ فضائی آلودگی کے لیے بہترین نسخہ ہیں۔ ذرا تصور کریں ایک ایسے خطے کا جہاں درختوں کا نام و نشان نہ ہو تو ہمارے ذہن میں لق و دق ریگستان ہی ابھرتا ہے۔ جبکہ درخت اور ہریالی زندگی کی علامت کے طور پر دل کو فرحت بخشتی ہے۔
کراچی میں مختلف منصوبوں کے تحت درختوں کی بے دردی سے کٹائی کی گئی تھی، کیا ان منصوبوں کی تکمیل کے بعد ان درختوں کو لگانے کا کوئی منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا یا ہمیشہ کی طرح یہ منصوبے بھی دھرے ہی رہ گئے؟ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ کراچی کو ہرا بھرا بنانے کے منصوبوں پر عمل کرتے ہوئے کونوکارپس نامی درخت لگائے گئے تھے۔ یہ درخت یقینا تیزی سے بڑھتے ہیں لیکن ہمارے ملک کی آب و ہوا اور پانی کی قلت کے باعث یہ کچھ کارگر نہیں رہے، گو ان درختوں کی بھی خاص کٹائی تو کر لی گئی ہے لیکن اب بھی یہ سڑکوں کے اطراف خاصی تعداد میں موجود ہیں جن کو کاٹنا اشد ضروری ہے کیونکہ یہ زمین میں اپنی جڑیں پانی کی تلاش میں دور دور تک پھیلاتے ہیں اور زیر زمین پانی کی خاصی مقدار چوس لیتے ہیں۔
درختوں کی کٹائی پر جس بھی منصوبے کے لیے توجہ دکھائی دی تھی، اس کے بارے میں سننے میں تو یہ آیا تھا کہ ان درختوں کو جو پروجیکٹ کی زد میں آئیں گے یا توکہیں اور منتقل کر دیا جائے گا یا پھر کٹنے والے درخت کی جگہ پانچ درخت لگائے جائیں گے۔ ایسا تو کچھ ہوا نہیں، البتہ اتوار اور بدھ بازاروں میں سو سو روپے کے لکڑی کے دستوں والے وائپرز خوب نظر آئے۔ اب انھیں ٹھیکیداروں نے سڑکوں میں بھر کر بچھایا یا جلایا خدا جانے۔
ہمارے ہاں سرکاری منصوبے بڑے بجٹ کے ساتھ بڑے اعلانات کے ساتھ شروع تو ہوتے ہیں لیکن ان کے اختتام تک کی صورت حال بڑی ہیبت ناک ہو جاتی ہے۔
ایک بات تو واضح ہے کہ ہماری مٹی پر وہ درخت خوب پھلتے پھولتے ہیں جو برسوں سے اگتے آئے ہیں۔ ہمارے پرانے صحت بخش درخت جیسے نیم، برگد، پیپل، ناریل، کھجور، گل موہر وغیرہ وغیرہ۔
ویسے تو سفیدہ، مولسر، جنگل جلیبی، ملیٹیاپام، فین پام، جامن، بانس، املتاس اور ایسے ایسے نام کہ جن کے تصور سے ہی دل مچل جائے اور یہ سخت گرمی اور چلتی لُو کے سامنے تن کرکھڑے ہو جانے والے دوست درخت نجانے کہاں کھو گئے۔ کراچی میں فضائی آلودگی بھی اب ایک بڑا مسئلہ بنتی جا رہی ہے اس کے حل کے لیے بھی ضروری ہے کہ تمام تفصیلات کو بالائے طاق رکھ کر شجرکاری پر زور دیں۔
کیا ہم جانتے ہیں کہ ایک انسان اپنی عمر میں اوسطاً جتنی آکسیجن استعمال کرتا ہے وہ کم ازکم سات درختوں کے برابر ہے جبکہ اس وقت ایک شخص کے لیے پانچ درخت دستیاب ہیں۔ یہ رپورٹ 2022 کی ہے جبکہ بیچ کے یہ سال مزید درختوں کی کٹائی کے بعد صورت حال اور بھی سنگین ہے یعنی فضائی آلودگی اور انسان آمنے سامنے۔
کراچی کی آب و ہوا میں نیم کا درخت اپنے اندر ہر طرح کے موسم کی شدت کو برداشت کرنے کی خصوصیت کے ساتھ اول نمبر پر ہے۔ یہ سدا بہار درخت خود تو کڑوا ہوتا ہے لیکن اس کی یہ کڑواہٹ انسانی صحت کے لیے انتہائی مفید ہے جو مختلف بیماریوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے پتوں اور پھل کو اطبا کثرت سے اپنی دواؤں میں زمانہ قدیم سے ہی استعمال کرتے آئے ہیں۔ خاص کر ذیابیطس، بواسیر اور مختلف جلدی امراض کے لیے یہ بہترین ہے۔ نیم کے درخت کی کاشت کو فروغ دے کر ماحولیاتی آلودگی اور درجہ حرارت کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے بہترین ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی طرح پیپل، برگد اور دوسرے دیسی درختوں کی کاشت بھی ہماری زمین کے لحاظ سے بہترین رہی ہے اور مستقبل میں بھی کم پانی میں نمو پانے والے ہیں۔
آج ضرورت ہے کہ اسکولوں میں بچوں کو شروع سے ہی شجرکاری سے متعلق آگاہ کیا جائے۔ ان کو اس جانب راغب کیا جائے تاکہ آنے والے وقت میں یہ نئی نسل اپنے ماحول کے تحفظ کے لیے بڑھ چڑھ کر کام کرے، ماحول کو برباد نہ کرے۔ یہ درخت قدرت کا تحفہ ہیں اس سے مستفید ہوں کہ یہ ہمارے لیے صحت بخش ماحول مہیا کرتے ہیں۔