بائیڈن یا ٹرمپ
اسرائیل نے فلسطینیوں کی بستیوں کی بستیاں اجاڑ دی ہیں جس کی تصدیق خود اقوام متحدہ نے بھی کی ہے
فلسطینیوں کی جس طرح نسل کشی کی جا رہی ہے، اس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ ہٹلر نے یہودیوں پر جو ظلم و ستم ڈھائے تھے وہ بھی نیتن یاہو کی سفاکیت کے آگے ہیچ ہوگئے ہیں۔ سات اکتوبر 2023سے شروع کیا گیا قتل عام اب دسویں مہینے میں داخل ہو چکاہے مگر اس کے ختم ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔ دنیا کے تمام ہی ممالک کے عوام نیتن یاہو کے ظلم کے خلاف یک آواز ہوگئے ہیں۔ امریکا اور یورپی ممالک جو ہمیشہ اسرائیل کی پشت پناہی کرتے رہتے ہیں وہاں کے عوام بھی نیتن یاہو سے جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھ رہا ہے۔
گوکہ سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے لیے کئی قراردادیں پیش ہو چکی ہیں مگر نیتن یاہو ہرگز اپنے کسائی پن سے باز نہیں آ رہا ہے۔ اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ نیتن یاہو کے تکبر اور ہٹ دھرمی کی اصل وجہ امریکی صدر بائیڈن کی وہ تھپکیاں ہیں جو وہ اسے سلامتی کونسل میں پیش کی گئیں قراردادوں کو ویٹو کر کے دے رہے ہیں، اگر صدر بائیڈن واقعی فلسطینیوں کا قتل عام رکوانے میں سنجیدہ ہوتے تو جنگ بندی کے لیے سلامتی کونسل میں متحدہ عرب امارات اور الجزائر کی پیش کردہ قراردادوں کو ہرگز ویٹو نہ کرتے۔
ایک دفعہ البتہ سلامتی کونسل میں امریکی نمایندے کی غیر حاضری کی وجہ سے جنگ بندی سے متعلق قرارداد امریکی ویٹو سے محفوظ تو رہی تھی مگر اسے امریکی حکومت نے غیر موثر قرار دے کر اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا تھا۔ آخر ایسا کیوں ہوا جب سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکا کے سوا تمام ہی ممبران کے نمایندے موجود تھے تو ان کی پاس کی گئی قرارداد پر کیوں عمل درآمد نہیں ہوا۔ بات واضح ہے کہ جب امریکا اس قرارداد کے خلاف تھا تو بھلا اس پر کیونکر عمل درآمد ہو سکتا تھا۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ امریکا کے آگے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی کیا اوقات ہے وہ سراسر امریکی کنٹرول میں ہیں۔
وہاں وہی ہوگا جو وہ پسند کرے گا۔ امریکی صدر خواہ کوئی بھی ہو وہ اسرائیل کی سلامتی کو اولیت دیتا ہے۔ اس کی معاشی ضروریات کو پورا کرنا اور ساتھ ہی اس کی خواہش کے مطابق جنگی ساز و سامان اسے فراہم کرنا ہر صدر کے فرض منصبی میں شامل ہے۔ غزہ جنگ کے دوران امریکی حکومت نے خطرناک قسم کے بم بھی اسرائیل کو فراہم کیے ہیں اور کچھ دیگر جنگی ساز و سامان بھارت نے بھی اسرائیل کو فراہم کیا ہے۔ یہ اعتراف خود ایک اعلیٰ اسرائیلی عہدیدار نے کیا ہے۔ اس سلسلے میں راقم پہلے ہی اپنے ایک پچھلے کالم میں لکھ چکا ہے کہ بھارت اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف مہلک ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔
اب تو یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی بستیوں کی بستیاں اجاڑ دی ہیں جس کی تصدیق خود اقوام متحدہ نے بھی کی ہے۔ اقوام متحدہ کی پناہ گاہیں تک محفوظ نہیں رہی ہیں۔ جہاں تک غزہ کی تعمیر کا تعلق ہے وہ کام کئی برسوں میں جا کر مکمل ہو سکے گا۔ جنگ روکنے کا مطالبہ تو پوری دنیا میں ہی کیا جا رہا ہے مگر جنوبی افریقہ اور برازیل نے ایک قدم آگے بڑھ کر نیتن یاہو کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں جنگی مجرم قرار دینے کے لیے مقدمہ دائر کردیا تھا۔
عالمی عدالت نے انصاف سے کام لیتے ہوئے اور امریکی دباؤ کو قبول کرنے سے انکار کرکے اچھی روایت قائم کی ہے مگر افسوس کہ اس فیصلے پر عمل درآمد میں امریکی مداخلت آڑے آ رہی ہے۔ غزہ میں جنگ روکنے کے سلسلے میں صد افسوس کہ عرب کیا تمام مسلم ممالک نے ایک تماشائی سے زیادہ کردار ادا نہیں کیا ہے وہ شاید امریکا بہادر سے خائف ہیں کہ اگر انھوں نے کوئی قدم اٹھایا تو امریکا ان پر پابندیاں نہ عائد کر دے جو ان کے لیے وبال جان بن جائیں۔
اس سلسلے میں ایران کا کردار ضرور سراہا جانا چاہیے کہ اس نے اسرائیل پر سیکڑوں میزائل برسا کر اسے اس کی اوقات یاد دلا دی ہے۔ اس وقت فلسطینی بے یار و مددگار نیتن یاہو کی سفاکیت کو جھیل رہے ہیں۔ اب انھیں اندازہ ہو چکا ہے کہ اسرائیلی ظلم و ستم کو برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اس لیے کہ کوئی عرب ملک نیتن یاہو کا ہاتھ نہیں روک سکتا۔ تاہم عرب ممالک فلسطینیوں پر اتنا کرم ضرور کر رہے ہیں کہ ان کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرانے کے لیے امریکی کارندوں سے مذاکرات کر رہے ہیں۔
افسوس اس بات پر ہے کہ اب نو مہینے گزر چکے ہیں مگر کوئی حل نہیں نکل سکا ہے اور شاید ابھی امریکی الیکشن تک کوئی حل نہ نکل سکے اس لیے کہ بائیڈن کسی طرح بھی اس نازک وقت میں یہودیوں کو ناراض کرنے کی ہمت نہ کر سکیں گے مگر اب وہ آیندہ صدارتی الیکشن میں کامیاب ہوتے بھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔ کیونکہ ان کی ٹرمپ کے ساتھ پہلی صدارتی بحث ہی مایوس کن رہی ہے وہ ٹرمپ کا مقابلہ نہیں کرسکے ہیں۔ وہ ٹرمپ کے مقابلے میں کافی کمزور نظر آتے ہیں جس پر امریکی میڈیا نے تو واضح طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کو بائیڈن کی جگہ اپنا کوئی دوسرا امیدوار کھڑا کرنے کا مشورہ دیا ہے پھر امریکی عوام کی بڑی تعداد کو بھی بائیڈن کی بزرگی اور ذہنی انتشار نے انھیں ان کے مقابلے میں ٹرمپ کو ترجیح دینے پر آمادہ کردیا ہے تاہم نینسی پلوشی اور اوباما جیسے ہواری ضرور بائیڈن کی ہمت بندھا رہے ہیں مگر لگتا ہے وہ اگر الیکشن لڑتے بھی ہیں تو بھی ان کا کامیاب ہونا مشکل ہی نظر آتا ہے کیونکہ فلسطینیوں کی بددعائیں ان کا مسلسل پیچھا کر رہی ہیں اور لگتا ہے وہ اپنا اثر ضرور دکھا کر رہیں گی۔