امیرالمومنین حضرت عمر فاروق ؓ کی عظیم شہادت اور بے مثال حکم رانی
فاروق اعظمؓ کی زندگی کا حقیقی نصب العین رفاہ عام اور بہبودی بنی نوع انسان تھا
تاریخ اسلام کے عظیم انسان، عبقری شخصیت، بے مثال حکم راں اور قائد، پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کے جاں نثار صحابی، امیر المومنین، خلیفہ ثانی، عدل و انصاف، حق گوئی و بے باکی کے پیکر مجسم حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی حیات اسلام کے لیے ایک عظیم نعمت رہی اور آپؓ کے اسلام کے لیے خود نبی کریم ﷺ نے دعا مانگی۔ آپؓ کے قبول اسلام سے کم زور مسلمانوں کو حوصلہ ملا اور خود رسول پاک ﷺ کو ایک بے مثال رفیق وہم درد نصیب ہُوا، بلاشبہ! سیدنا عمر فاروقؓ کی ذاتِ گرامی سے اسلام اور مسلمانوں کو بہت فیض پہنچا اور آپؓ کی زندگی اسلام کے لیے وقف رہی، آپؓ نے حکومت کے مختلف شعبوں میں اصلاحات فرمائیں، اور ایک ایسا نظام دنیا کے سامنے پیش کیا کہ دنیا والے اس کی ناصرف داد دینے پر مجبور ہوئے بل کہ اس کو اختیار کر کے اپنے ملکوں اور ریاستوں کے نظام کو بھی درست کیا۔
آپؓ کو خلوص و للہیت، سادگی و بے نفسی، انکساری اور عاجزی بے شمار خوبیوں سے اﷲ تعالی نے نوازا تھا، نظام حکومت کو چلانے اور انسانوں کی بہتر انداز میں خدمت کرنے کا خاص ملکہ عطا فرمایا تھا جس سے اسلام دنیا کے دور دراز علاقوں میں پھیلایا، اور اطراف عالم تک پہنچا، جن کی عظمت اور شوکت کا رعب دنیا کی بڑی طاقتوں کو تھا اور بڑی سلطنتیں جن کے نام سے تھراتی تھیں، ایسے عظیم انسان کے دل میں اﷲ تعالی نے انسانیت کی خدمت، رعایا کی خبر گیری، مخلوق خدا کے احوال سے واقفیت کا عجیب جذبہ رکھا تھا۔ رات کی تنہائی میں لوگوں کی ضروریات کو پوری کرنے اور ان کے حال سے آگاہ ہونے کے لیے گشت کرنا، ہر ضرورت مند کے کام آنا اور ان کی خدمت انجام دینے کی کوشش میں لگے رہنا آپؓ کا امتیاز تھا، آپؓ کی مبارک زندگی کے ان گنت پہلو اور گوشے ہیں اور ہر پہلو انسانیت کے لیے سبق اور پیغام لیے ہوئے ہے۔ رسالت مآب ﷺ نے اس رفیقِ خاص کے بہت سے فضائل بیان کیے اور عظمتوں کو اجاگر کیا۔ اﷲ تعالی نے ایک بڑی سلطنت کا فرماں روا، اور منصب ِخلافت کا مسند نشیں بنایا تھا۔ بہ قول مولانا شاہ معین الدین ندوی: ''فاروق اعظمؓ کی زندگی کا حقیقی نصب العین رفاہ عام اور بہبودی بنی نوع انسان تھا۔''
عدل و انصاف:
سیدنا عمرفاروق ؓنے اپنے دور خلافت میں عدل و انصاف کی بہترین مثال قائم فرمائی اور عادل حکم ران بن کر تعلیمات ِعدل کو دنیا میں پھیلایا، مساوات و برابری اور حقوق کی ادائیگی کا حد درجہ اہتمام فرمایا۔ ایک مرتبہ قیصر نے اپنا ایک قاصد حضرت عمرؓ کے پاس بھیجا تاکہ احوال کا جائزہ لے اور نظام و انتظام کا مشاہدہ کرے۔ جب وہ مدینہ منورہ آیا تو اسے کوئی شاہی محل نظر نہیں آیا۔ اس نے لوگوں سے معلوم کیا کہ تمہارا بادشاہ کہاں ہے ؟ صحابہؓ نے کہا کہ ہمارا کوئی بادشاہ نہیں ہے، البتہ ہمارے امیر ہیں جو اس وقت مدینہ سے باہر گئے ہوئے ہیں، قاصد تلاش کرتے ہوئے اس مقام پر آگیا جہاں امیر المومنین سیدنا عمرؓ سخت دھوپ میں ریت پر اپنے درّے کو تکیہ بنائے آرام فرما رہے تھے، پسینہ آپؓ کی پیشانی سے ٹپک رہا تھا۔
جب اس نے دیکھا تو سیدنا عمرؓ کا جاہ و جلال اور رعب سے وہ گھبرا گیا۔ اس نے کہا: ''اے عمر! واقعی تو عادل حکم ران ہے، اسی لیے تو آرام سے بغیر کسی پہرے اور حفاظتی انتظامات کے تنہا بلاخوف و ڈر کے آرام کر رہا ہے، اور ہمارے بادشاہ ظلم کرتے ہیں اس لیے خوف ان پر چھایا رہتا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا دین حق ہے، میں اگر قاصد بن کر نہیں آتا تو مسلمان ہوجاتا، لیکن میں جاکر اسلام قبول کروں گا۔''(اخبار عمرؓ لعلی الطنطاوی)
زہد و تقوی:
اﷲ تعالی نے آپؓ کو جو بلند مقام و مرتبہ عطا فرمایا تھا اور آپؓ کی حکم رانی کے چرچے طول و عرض میں پھیل چکے تھے لیکن اس کے باوجود تواضع و سادگی اور زہد و تقوی میں غیر معمولی اضافہ ہی ہوتا گیا، آپؓ ہر وقت اسی فکر میں رہتے کہ نبی کریم ﷺ نے جس حال میں چھوڑا اسی پر پوری زندگی گزر جائے، عمدہ کھانوں سے ہمیشہ گریز ہی کیا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ اہل بصرہ کا ایک وفد حضرت عمرؓ کے پاس آیا، ان لوگوں کے لیے روزانہ تین روٹیوں کا انتظام ہوتا، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے کبھی بہ طور سالن کے روغن زیتون پایا، کبھی گھی، کبھی دودھ، کبھی خشک کیا ہُوا گوشت جو باریک کرکے ابال لیا جاتا تھا، کبھی تازہ گوشت اور یہ کم ہوتا تھا۔ انہوں نے ایک روز ہم سے کہا: ''اے قوم! میں اپنے کھانے کے متعلق تم لوگوں کی ناگواری و ناپسندیدگی محسوس کرتا ہوں، اگر میں چاہوں تو تم سب سے اچھا کھانے والا، تم سب سے اچھی زندگی بسر کرنے والا ہوجاؤں۔ میں بھی سینے اور کوہان کے سالن اور باریک روٹیوں کے مزے سے ناواقف نہیں ہوں لیکن میں نے اﷲ تعالی کا یہ فرمان سن رکھا ہے: ''تم نے اپنی نیکیاں دنیا کی زندگی میں ہی برباد کردیں۔'' ( طبقات ابن سعد)
ایک مرتبہ آپؓ خطبہ دے رہے تھے اور آپؓ کے جسم پر جو لباس تھا اس میں بارہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ نے حکم رانی کرنے اور نظام سلطنت کو چلانے کا بے مثال انداز دیا ہے، ایک حاکم کی کیا ذمے داری ہے اور رعایا کی خبر گیری کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے اس کو بہتر طور پر آپؓ نے پیش کیا اور بتایا کہ جس کے دل میں خوف ِخدا اور آخرت کا احساس ہوتا ہے تو پھر وہ تخت اور حکومت کے ملنے کے بعد اپنی عوام کی پریشانیوں سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ چناں چہ حضرت عمرؓ کا معمول تھا کہ آپ راتوں کو گلیوں میں گشت کرتے، جب لوگ آرام و راحت کے لیے گھروں میں چلے جاتے۔ آپ حالات سے آگہی حاصل کرنے اور پریشان حالوں کی پریشانیوں سے واقف ہونے کے لیے باضابطہ چکر لگاتے اور جو کوئی مصیبت زدہ ملتا، پریشان حال نظر آتا، مسافر یا اجنبی غم کا شکار دکھائی دیتا تو خلیفہ وقت خاموشی سے کام انجام دے جاتے اور احساس تک ہونے نہیں دیتے کہ یہ وہی عمر ہے جس کی عظمت کے ڈنکے عالم میں بج رہے ہیں۔
ایک رات آپ گشت کر رہے تھے کہ مدینہ کے تین میل فاصلہ پر مقام حرا پہنچے، دیکھا کہ ایک عورت پکار رہی ہے اور بچے رو رہے ہیں، پاس جاکر حقیقت حال دریافت کی، اس نے کہا بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں ان کو بہلانے کو خالی ہانڈی چڑھا دی ہے۔ حضرت عمرؓ اسی وقت مدینہ آئے سامان خور و نوش لے کر نکلے، ساتھ آپ کا غلام اسلم بھی تھا اس نے کہا کہ میں لیے چلتا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا کہ قیامت کے دن میرا بوجھ تم نہیں اٹھاؤ گے۔ پھر آپ خود ہی سامان لے کر اس عورت کے پاس آئے، اس نے کھانا پکانے کا انتظام کیا، حضرت عمرؓ خود آگ کو پھونکتے تھے، کھانا تیار ہُوا تو بچے خوشی خوشی اچھلنے لگے، حضرت عمر ؓدیکھتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔
ضرورت مندوں کی خدمت:
مرادِ رسول حضرت عمر فاروقؓ کے خدمت خلق کا انداز بھی بڑا نرالا تھا۔ نظام خلافت ایسا بنایا تھا کہ کوئی ضرورت مند محروم نہ رہنے پائے، حکام اور عمال بھی ایسے متعین فرمائے تھے جو ہر وقت راحت رسانی کی فکر میں کوشاں رہتے، خود امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓبھی ضرورت مندوں کی حاجت پوری کرنے میں لگے رہتے۔
حضرت طلحہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک تاریک رات میں میں نے حضرت عمرؓ کو دیکھا کہ ایک گھر میں داخل ہوگئے، اس کے بعد دوسرے گھر میں داخل ہوئے۔ صبح میں نے اس مکان میں داخل ہو کر دیکھا کہ ایک نابینا بوڑھی بیٹھی ہے، میں نے اس بوڑھی سے پوچھا کہ وہ کون تھے تجھے معلوم ہے ؟ اس نے کہا کہ وہ اسی طرح میرے پاس آکر میری ضروریات کو پوری کرکے چلے جاتے ہیں اور صفائی ستھرائی کر کے واپس ہوجاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ وہ تو عمر ؓہیں۔ (مناقب عمر بن الخطاب)
ایک رات آپؓ مدینہ کے ایک راستے سے گزر رہے تھے کہ ایک خیمہ نظر آیا، اس کے باہر ایک بدو بیٹھا ہُوا ہے اور اندر سے رونے کی آواز آرہی ہے۔ حضرت عمرؓ اس کے قریب گئے، حال دریافت کیا، رونے کا سبب معلوم کیا، اس نے کہا کہ میری بیوی دردزہ میں مبتلا ہے اور کوئی خاتون نہیں جو اس مشکل وقت میں میر ی مدد کرسکے۔ حضرت عمرؓ گھر تشریف لائے اہلیہ محترمہ سے فرمایا کہ اﷲ تعالی نے آج تمہیں نیکی کمانے کا ایک موقع دیا ہے، کیا تم اس سے فائدہ اٹھاؤگی؟ بیوی نے کہا کہ ضرور بتائیے۔
آپؓ نے فرمایا کہ ایک اجنبی عورت دردزہ میں مبتلا ہے اس کے پاس کوئی عورت نہیں لہذا تم جلدی سے ضرورت کا سامان لے کر میرے ساتھ چلو۔ آپ اپنی اہلیہ کے ساتھ وہاں پہنچے، باہر آپؓ نے آگ جلا کر ہانڈی چڑھا دی، کچھ دیر بعد اندر سے آواز آئی کہ امیر المومنین! اپنے دوست کو بیٹے کی خوش خبری سنا دیجیے۔ جیسے اس دیہاتی نے امیرالمومنین کا لفظ سنا تو گھبرا گیا، آپؓ نے فرمایا کہ گھبراؤ نہیں، اطمینان رکھو، پھر جو کھانا تیار کیا تھا اندر دے دیا کہ اس خاتون کو کھلایا جائے، اس کے بعد آپ نے اس بدوی سے کہا کہ تم بھی کھالو بہت دیر سے بھوکے ہو اور یہ کہہ کر رخصت ہوگئے کہ صبح آجاؤ، بچے کا روزینہ مقرر ہوجائے گا۔ آپؓ کی مبارک زندگی میں اس طرح کے کئی واقعات ہیں کہ آپ نے خاموشی سے لوگوں کی مدد کی، پریشان حالوں کی خدمت کی اور محتاجوں کی ضروریات کی تکمیل فرمائی۔
غلاموں کے ساتھ حسن سلوک:
سیدنا عمرؓ جس طرح اپنی رعایا اور دوسرے افراد کی راحت رسانی کی فکر میں رہتے اور ان کی خدمت کرنے میں پیش پیش رہتے اسی طرح آپ خادموں اور غلاموں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے کہ غلام و آقا، مالک و مملوک کا فرق نہیں ہوتا اور ان کو آرام پہنچانے میں آگے رہتے۔ حضرت عمرؓ جن کی عظمت سے باطل کے دل لزرتے اور بدن کانپتے تھے وہ اتنے رحم دل اور خیر خواہ تھے کہ ان کی رحم دلی اور خیر خواہی سے غلام بھی سکون و اطمینان محسوس کرتے تھے۔
حضرت عمر ؓ جب حج کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لائے تو صفوان بن امیہ نے دعوت دی اور کھانا ایسے بڑے برتن میں لایا گیا جس کو چا ر آدمی اٹھا سکتے تھے، خادموں نے کھانا لاکر رکھ دیا اور واپس ہونے لگے، حضرت عمر ؓنے فرمایا کہ تم لوگ ہمارے ساتھ نہیں کھاؤ گے تو ان خادموں نے کہا کہ نہیں ہم بعد میں کھا لیں گے۔ یہ بات سن آپ سخت ناراض ہوئے اور ارشاد فرمایا: اﷲ تعالی لوگوں پر رحم کرے یہ ابھی تک طبقات میں بٹے ہوئے ہیں؟ پھر خدام کو حکم دیا کہ بیٹھ جاؤ چناں چہ سب نے کھانا کھا یا۔
جانوروں پر رحم:
امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ دین کے معاملہ میں جتنے سخت اور مضبوط تھے، رہن سہن کے لحاظ اور حقوق کی ادائیگی کے اعتبار سے اتنے ہی نرم اور رحم دل تھے۔ آپ کی رحم دلی اور خیر خواہی انسانوں کے علاوہ جانوروں پر بھی تھی، جانوروں پر زیادہ بوجھ ڈالنا، ان کا غیر ضروری استعمال، ان کے چارہ کا صحیح انتظام نہ کرنا آپ کو بہت ہی ناگوار گزرتا اور کسی ایک جانور کا بھی مالک کی بے جا زیادتیوں کا شکار رہنا بھی آپ کو رنج و غم میں مبتلا کردیتا تھا، خو ف و خشیت اور احساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ فرمایا: ''اگر بکری کا کوئی بچہ فرات کے کنارے مرگیا تو اﷲ تعالی قیامت کے دن عمر سے سوال کرے گا۔'' (مناقب عمر)
احنف بن قیس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم عمرؓ کو ایک بڑی فتح کی خوش خبری دینے حاضر ہوئے، آپ نے پوچھا کہ تمہارا قیام کہاں ہے؟ ہم نے جگہ بتائی آپ ہمارے ساتھ اس مقام پر آئے اور ہماری سواریوں کے قریب آکر ان کو دیکھنے لگے، پھر فرمایا کہ کیا تم اپنی سواریوں کے بارے میں اﷲ سے نہیں ڈرتے؟ تم جانتے ہو کہ ان کا بھی تمہارے اوپر حق ہے؟ ان کو کھلا کیوں نہیں چھوڑ دیا تاکہ یہ زمین پر چل پھر سکیں۔
یہ حالت ہے اس عظیم المرتبت انسان کی اور اس بے مثال شخصیت کی کہ جو دین کے معاملے میں شمشیر بے نیام لیکن مخلوق کے لیے بے حد رحم دل تھے۔
استحکامِ بیت المال:
حضرت ابوبکرؓ نے اپنی خلافت میں جو بیت المال قائم فرمایا تھا، حضرت عمر ؓنے اس کے نظام کو مضبوط و مستحکم فرمایا اور اصول و ضابطوں کے ساتھ اس کو جاری کیا اور خود سادگی کی زندگی گزاری۔
مولانا شاہ معین الدین ندوی رقم طراز ہیں: ''ابن سعد کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے ایک مکان بیت المال کے لیے خاص کرلیا تھا لیکن وہ ہمیشہ بند پڑا رہتا تھا اور اس میں کچھ داخل کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی۔ چناں چہ وفات کے وقت بیت المال کا جائزہ لیا گیا تو صرف ایک درہم نکلا۔ حضرت عمرؓ نے تقریباً 15ھ میں ایک مستقل خزانہ کی ضرورت محسوس کی اور مجلس شوری کی منظوری کے بعد مدینہ منورہ میں بہت بڑا خرانہ قائم کیا، دارالخلافہ کے علاوہ تمام اضلاع اور صوبہ جات میں بھی اس کی شاخیں قائم کی گئیں اور ہر جگہ اس محکمہ کے افسر جداگانہ مقرر ہوئے۔ صوبہ جات اور اضلاع کے بیت المال جس قدر رقم جمع ہوجاتی تھی وہ وہاں کے سالانہ مصارف کے بعد اختتامِ سال صدر خزانہ یعنی مدینہ منور ہ کے بیت الما ل میں منتقل کردی جاتی تھی، بیت المال کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ دارالخلافہ کے باشندوں کی جو تن خواہیں اور وظائف مقرر تھے صرف اس کی تعداد سالانہ تین کروڑ درہم تھی۔''
عظیم شہادت:
حضرت عمر فاروقؓ نے دعا مانگی تھی کہ اے اﷲ ! مجھے تیرے راستے میں موت آئے اور تیرے نبی ﷺ کا شہر نصیب ہو۔ اﷲ تعالی نے آپؓ کی دعا کو قبول فرمایا اور اس کا عجیب انتظام فرمایا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓکا ایک مجوسی غلام فیروز نامی تھا، اس نے ایک مرتبہ اپنے مالک حضرت مغیرہ کی شکایت کی کہ وہ مجھ سے زیادہ محصول طلب کرتے ہیں، حضرت عمرؓ نے اس بے جا شکایت پر کوئی توجہ نہیں دی، اس نے غیض و غضب میں ایک تیز خنجر تیار کیا اور نمازِ فجر میں چھپ کر آکر بیٹھ گیا، جب حضرت عمر ؓ نے تکبیر کہی۔
اس نے اس زور سے تین وار کیے جس سے امیرالمومنین سیدنا عمر فاروقؓ گر پڑے، موت و حیات کی اس کش مکش میں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھایا، نماز مکمل ہوئی تو آپؓ نے صحابہؓ کو کہا کہ قاتل کا پتا لگاؤ، ابو لولو نے تقریباً تیرہ صحابہ کو زخمی کردیا اور جب وہ بالکل گرفت میں آچکا تو از خود خنجر مار کر ہلاک ہوگیا، حضرت عمر کو26 /ذی الحجہ 23ھ کو خنجر مارا گیا اور یکم محرم الحرام 24ھ کو شہادت عظمی کا سانحہ پیش آیا اور تدفین عمل میں آئی، آپؓ کی خلافت دس سال پانچ مہینے اکیس دن رہی۔ (طبقات ابن سعد)
آپؓ کی خواہش تھی کہ آپ کو اپنے دو رفیقوں کے پہلو میں جگہ ملے، حضرت عائشہ ؓنے امیر المومنین کی اس تمنا کو پورا کیا اور حجرہ میں تدفین کی اجازت دی، آپؓ کی نماز جنازہ حضرت صُہیبؓ نے پڑھائی۔