سرکاری جامعات میں نئے شعبے اور کیمپسز کا قیام سندھ ایچ ای سی کی این اوسی سے مشروط
سندھ کی سرکاری جامعات کے نئے کیمپسز کا قیام اب وزیراعلیٰ سندھ کی منظوری سے ہی ہوسکے گا، نوٹیفکیشن جاری
حکومت سندھ نے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا—فوٹو: فائل
حکومت سندھ نے صوبے کی تمام سرکاری جامعات اور اسناد تفویض کرنے والے اداروں (ڈگری ایوارڈنگ انسٹی ٹیوٹس) کو بغیر این اوسی نئے شعبہ جات، پروگرامز اور کیمپسز کھولنے سے روک دیا اور نئے پروگرام اور شعبہ جات کا قیام ہائرایجوکیشن (ایچ ای سی) سندھ کی این اوسی سے مشروط کر دیا ہے۔
سندھ کی سرکاری جامعات کے نئے کیمپسز کا قیام اب وزیراعلیٰ سندھ کی منظوری سے ہی ہوسکے گا اور اس حوالے سے باقاعدہ حکم نامہ وزیراعلیٰ سندھ کی منظوری سے جاری کردیا گیا ہے اور محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نے اس سلسلے میں ایک نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ صوبے کی سرکاری جامعات کی کنٹرولنگ اتھارٹی وزیراعلیٰ سندھ نے صوبائی ایچ ای سی کی جانب سے بھجوائی گئی سفارش کی منظوری دے دی ہے جس کے مطابق اب تمام جامعات اور اسناد تفویض کرنے والے ادارے سندھ ایچ ای سی سے نئے پروگرام، شعبہ جات شروع کرنے کے سلسلے میں این اوسی لینے کے پابند ہوں گے۔
اس سلسلے میں ان اداروں کومتعلقہ شعبے یا پروگرام کی ضرورت، ملازمت کے مواقع، موجودہ حالات میں مضمون کی اہمیت کے علاوہ اس کے بزنس ماڈل کاجواز بھی پیش کرناہوگا۔
نوٹیفیکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ اسی طرح نئے کیمپس کی منظوری اور اس سے متعلقہ تمام معاملات کی منظوری مجاز اتھارٹی وزیراعلیٰ سندھ خود دیں گے۔
"ایکسپریس"کوذرائع نے بتایا کہ چند ماہ قبل سندھ ایچ ای سی کی جانب سے اس سلسلے میں ایک سمری وزیراعلیٰ سندھ کو بھجوائی گئی تھی جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ جامعات کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ محض اپنے کیے گئے فیصلوں کی بنیاد پر کسی نئے شعبے یا پروگرام کا آغاز نہ کریں۔
چیئرمین ایچ ای سی سندھ ڈاکٹرطارق رفیع نے"ایکسپریس"کو اس سلسلے میں بتایا کہ اب ہر یونیورسٹی کو کسی بھی شعبے کے قیام یا نئے پروگرام شروع کرنے سے قبل اس کے قیام کا باقاعدہ جواز پیش کرنا ہوگا، محض سینڈیکیٹ اور اکیڈمک کونسل کی اس سلسلے میں منظوری ناکافی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ جامعات کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ اگر وہ نیا شعبہ یا پروگرام شروع کر رہے ہیں تواس کے فنڈز کا انتظام کہاں سے ہوگا، ٹیچرز اور ملازمین کی تقرری کا مالی طور پر اثر کیا ہوگا اور ہمارے معاشرے میں اس شعبے یا پروگرام کو شروع کرنے کی کتنی ضرورت ہے۔
اسی طرح یہ بھی بتانا ہوگا کہ مذکورہ پروگرام کے گریجویٹ سماجی تبدیلی کے لیے کیا کچھ کر سکتے ہیں، پروگرام کے بعد روزگار کے کس قدر مواقع موجود ہیں۔
ڈاکٹرطارق رفیع کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ جامعات کی کنٹرولنگ اتھارٹی بھی ہیں اور ان کی ہدایت پر چند روز قبل اس سلسلے میں سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز کا ایک اجلاس بھی طلب کیا گیا تھا اور وائس چانسلرز پر بھی یہ بات واضح کی گئی کہ وہ ان ہدایات پر عمل کریں کیونکہ وزیراعلیٰ سندھ پہلے ہی جامعات کی کارکردگی سے بہت زیادہ مطمئن نہیں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ روزیراعلیٰ سندھ کا یہ کہنا ہے کہ جس تناسب سے حکومت سندھ جامعات کو گرانٹ دے رہی ہے اور اس میں اضافہ بھی کیا جا رہاہے جامعات اسی تناسب سے اپنے معیارات میں اضافہ نہیں کر رہی ہیں۔
اس سلسلے میں "ایکسپریس"کومعلوم ہواہے کہ حکومت سندھ کی علم میں یہ بات آئی تھی کہ صوبے کی چند جامعات میں بعض ایسے پروگرام اور شعبہ جات شروع کیے گئے ہیں جہاں نہ متعین کردہ شمارکے مطابق داخلے ہوپاتے ہیں اور نہ ہی پروگرام کے حوالے سے جامعات کے پاس کوئی فنڈز مختص یا موجود ہیں تاہم یہ پروگرام محض سیاسی یا سفارشی بھرتیوں کے لیے شروع کیے گئے حالانکہ سندھ کی جامعات پہلے ہی بدترین خسارے کے دور سے گزر رہی ہیں، ایسے میں بعض جامعات نے گزشتہ ماہ ختم ہونے والے مالی سال 2023/24کی آخری سہ ماہی میں حکومت سندھ سے ایڈیشنل گرانٹ بھی مانگی ہے۔