یورپ میں تارکین وطن کے خلاف بڑھتا ہوا تعصب
فرانس نیشنل اسمبلی انتخابات کے موقع پر تارکین وطن مخالف پارٹی سب سے آگے ہے
www.facebook.com/shah Naqvi
موجودہ سال انتخابات کا سال ہے ۔ پہلے پاکستان میں انتخابات ہوئے۔ پھر چند مہینے کے وقفے سے بھارت میں عام انتخابات ہوئے اس کا نتیجہ انتہائی دل شکن تھا۔ مودی جیتنے کے باوجود ہار گئے ۔دو تہائی اکثریت کا خواب، خواب پریشان بن کر رہ گیا ۔باوجود جیتنے کے اب وہ اتحادیوں کی بیساکھیوں کی مدد سے حکومت بنانے پر مجبور ہوئے۔ اس سال نومبر میں امریکا میں الیکشن ہونے ہیں۔ آثار وقرائن کہتے ہیں کہ ٹرمپ کا پلہ بھاری رہے گا۔ بہرحال 30جون کو فرانس میں الیکشن ہوئے ، کہا جاتا ہے کہ فرانس کے اس پارلیمانی انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت کا دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی بار اکثریت حاصل کرنے کا امکان ہے۔ اس جماعت کی سربراہ مارین لی پین خاتون ہیں ۔
یہ خود اور ان کی پارٹی تارکین وطن خاص طور پر مسلمان تارکین وطن کے سخت خلاف ہیں۔ سب سے بڑی الارمنگ بات یہ ہے کہ فرانسیسیوں کی بڑی تعداد اس معاملے پر ان کی حمایت کر رہی ہے یہ پارٹی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے باقی یورپ میں بھی یہی حال ہے ۔
تارکین وطن خاص طور پر مسلمان تارکین وطن کے خلاف نفرت کا یہ عالم ہے کہ ہر وہ پارٹی جس کا منشور تارکین وطن مخالف ہو فوری مقبول ہو جاتی ہے کیونکہ ان انتخابات میں غیر ملکی تارکین وطن کا معاملہ تھا اس لیے تاریخی ٹرن آؤٹ 70فیصد کے قریب رہا۔ میڈیا کے مطابق فرانسیسی ووٹرز نے قبل از وقت ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے میں بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے۔ جوش وخروش ایسا تھا جو اس سے پہلے کئی دہائیوں میں نہیں دیکھا گیا ۔ 577کے ایوان میں کون اکثریت حاصل کرے گا اس کا فیصلہ دوسرے راؤنڈ 7جولائی کو ہو گا ۔ فرانسیسی میڈیا کے مطابق فرانس نیشنل اسمبلی انتخابات کے موقع پر تارکین وطن مخالف پارٹی سب سے آگے ہے جب کہ بائیں بازو کا بلاک دوسرے اور صدر میکرون کی اعتدال پسند جماعت تیسرے نمبر پر ہے ۔
یورپی یونین میں تارکین وطن کا راستہ روکنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے جا رہے ہیں' وہاں سیاسی پناہ کے قوانین میں تیزی سے تبدیلیاں کر کے انھیں مزید سخت بنایا جارہا ہے' یہی وجہ ہے کہ غیر ملکیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور معاندانہ سلوک کے باعث تارکین وطن اب یورپ جاتے ہوئے آنے والے خطرات کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔
تارکین وطن کا معاملہ یورپ میں انتہائی سنگین ہو گیا ہے خاص طور پر فرانس، جرمنی اور برطانیہ میں ۔ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد فرانس میں مقیم ہے ۔ ان کا تعلق الجزائر سے ہے ۔ الجزائر فرانس کی کالونی رہا ہے ۔ اس نسبت سے کئی ملین الجزائری فرانس میں آباد ہیں ۔
دوسری بڑی مسلمان آبادی جرمنی میں ہے۔ یہ بھی تیس لاکھ کے قریب ہیںان میں سے زیادہ تر کا تعلق ترکی سے ہے ۔ برطانیہ میں بھی کئی ملین کی تعداد میں مسلمان مقیم ہیں ۔گزشتہ صدی یعنی پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں یہ ملک صنعتی ایمپائر بننے جارہے تھے اس کے لیے انھیں سستی افرادی قوت چاہیے تھی ۔ جب تک یہ مقصد حاصل نہیں ہو گیا انھیں برداشت کیا گیا۔ لیکن اب یہ ممالک خود معاشی مسائل سے دوچار ہو گئے ہیں ۔ سیکولرازم، لبرل ازم کے تحت جو اسباق انھیں انسانیت کے سکھائے جاتے تھے اب یہ بھولتے جا رہے ہیں ۔
پناہ گزینوں اور تارکین وطن کی وجہ سے صورت حال اس وقت بدترین ہو گئی جب شام کی خانہ جنگی سے بے گھر ہونے والوں نے یورپی ممالک کے دروازوں پر دستک دینا شروع کر دی۔ مشرق وسطی زمانہ قدیم سے ایسا خطہ رہا ہے جو بادشاہتوں اور آمریتوں کے چنگل میں جکڑا رہا۔ آج بھی وہاں جمہوریت نہیں تو اس کے ذمے دار برطانیہ اور امریکا ہیں۔ جنھوں نے اپنے سامراجی مفادات کے لیے ان لوگوں کو کچھ خاندانوں اور گروہوں کا غلام بنایا ۔ اس خطے کو آزادی دینے کے معاملے میں امریکی سامراج آج بھی بہت حساس ہے ۔ جس کے لوگوں نے عیسائی حکومتوں کو شکست دے کر تقریباً ایک ہزار سال دنیا پر حکومت کی ۔ عراق اور شام میں امریکی سامراج نے داعش جیسے دہشت گرد گروہ مسلط کیے اور ان کی سرپرستی کی۔
اصل مسئلہ اسرائیل ہے دہشت گرد اسرائیل کے پیچھے امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں کی قاہرانہ قوت مغربی اقوام کے شدید احتجاج کے باوجود پوری قوت کے ساتھ کھڑی ہے ۔ انھوں نے اپنے خونخوار خون آشام چہروں کو جمہوریت انسانیت ، انسانی حقوق کے نقاب میں چھپایا ہوا ہے ۔ شام اور ایران دونوں فلسطینیوں کی حمایت میں متحد ہیں ۔ یہ تو ان کا ناقابل معافی جرم ہے ۔ یہ بات مسلم دنیا کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آج مسلمانوں پر جتنی آفات ٹوٹ رہی ہیں خاص طور پر پچھلے پچاس برسوں میں یہ سب امریکی سامراج کی مہربانیاں ہیں ۔
خان کے حوالے سے اگست اور خاص طور پر نومبر ، دسمبر فیصلہ کن ہیں ۔