شہر اقتدار کی دیواروں پر لکھی آرزو

محسن نقوی پنجاب میں اپنی یک سالہ نگران حکمرانی کے دور میں ایک بہتر منتظم کے طور پر سامنے آئے ہیں


اطہر قادر حسن July 10, 2024
[email protected]

بجٹ کے اعدادوشمار نے غربت زدہ عوام کو چکرا کر رکھ دیا ہے ۔ البتہ اشرافیہ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ اشیائے ضروریہ کے نرخ کیا ہیں اور بجلی کی قیمتیں کہاں پہنچ چکی ہیں ۔ یہ رونا دھونا عام پاکستانیوں کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔

ہماری سرکار غریب عوام کو مزید رلائے کی نوید سناتی رہتی ہے ۔ کھانے پینے کی اشیاء پر بھی بھاری ٹیکسوں کا نفاذ کر دیا گیا ۔ عوام کی جیب میں بقول ہمارے انقلابی وزیر اعظم اگر کوئی دھیلا بچ بھی گیا ہے تو اسے نکالنے کے اسباب کیے جارہے ہیں۔کسی بھی حکومت کے لیے آمدن بڑھانے کا سب سے آسان ذریعہ عوام پر ٹیکسوں کا نفاذ ہے، اس فارمولے پرہماری حکومت کامیابی سے عمل پیرا ہے۔

یہ وہ حقائق ہیں جو زبان زد عام ہیں اور معلومات کے رساؤ کے آج کے تیز ترین دور میں یہ تو ہو نہیں سکتا کہ حکمران ان سے بے خبر ہوں البتہ جان بوجھ کر اگر پہلوتہی کی جارہی ہے تو یہ عوام کے ساتھ ناانصافی اور ظلم ہے جس کا حساب حکمران کو دینا پڑے گا ۔ حضرت عمر ؓ فرماتے تھے کہ اگر''دریائے دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا پیاسا مر گیا تو اس کا حساب بھی حکمران کو دینا پڑے گا''۔جب کہ ہمارے ہاں صورتحال اس سے بھی بدتر ہو چکی ہے۔

ملک کا ہر طبقہ بجلی کی ہوشرباء قیمتوں کی وجہ سے بوکھلایا ہوا ہے اور یہ مہنگی بجلی مہنگائی اور گرانی کا اصل سبب بن گئی ہے ۔ بجلی کی پیداواری کمپنیوں کے ساتھ جو ہولناک معاہدے کیے گئے ہیں ان کا عذاب قوم بھگت رہی ہے، مجھے یاد پڑتا ہے کہ نوے کی دہائی کے اوائل میں جب شہید بینظیر بھٹو ان معاہدوں کی بنیاد رکھ رہی تھیں تو میں نے بطور طالبعلم ایک دن اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ یہ آئی پی پی کا کیا مطلب ہے تو وہ کہنے لگے قوم ان معاہدوں کا عذاب بھگتے گی اور ایک وقت یہ لطیفہ سچ ہو جائے کہ لوگ بلب اس لیے جلائیں گے تا کہ ماچس ڈھونڈ کر لالٹین روشن کر سکیں ۔

بجلی کی قیمتیں تو اپنی جگہ لیکن عوام کے ساتھ یونٹوں کی مد میں جو کھلواڑ کیا جارہا ہے اس پر ہمارے دوست محسن نقوی سیخ پا ہیں اور انھوں نے اپنے ماتحت ادارے ایف آئی اے کو اس کی تحقیقات کر کے ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا حکم دیا ہے۔

محسن نقوی پنجاب میں اپنی یک سالہ نگران حکمرانی کے دور میں ایک بہتر منتظم کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ انھوں نے قلیل مدت میں پنجاب میں ترقیاتی منصوبے مکمل کرائے ہیں اور اب وہ وفاق میں متحرک ترین وزراء میں شامل ہیںاگرچہ ن لیگی ان سے شاکی رہتے ہیں لیکن وہ اپنی دھن میں کام کیے جارہے ہیں ۔ ہم ان کی'' مزید'' کامیابیوں کے لیے دعا گو ہیں۔ ایک حکمران کی نیکی یہی ہے کہ وہ عوام کی زندگی میں آسانیاں فراہم کرے اور محسن نقوی اس میں کامیاب نظر آتے ہیں۔

ملک میں جاری سیاسی افراتفری اور عوام میں ہیجانی کیفیت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں ۔ عوام کا ہیجان تب ہی کسی کنارے لگ پائے گا جب ملک میں سیاسی استحکام آئے گا، فی الحال کوئی ایسی صورت نظر نہیں آرہی کیونکہ حکومتی اقدامات عوامی ہیجان کو ختم یا کم کرنے کے بجائے مزید بڑھوتری کا سبب بن رہے ہیں جب کہ سیاسی محاذ بھی گرم دکھائی دیتا ہے اس سیاسی گرما گرمی سے ملک کے مقتدر اور حکمران حلقے آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں اور ان کے لیے راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے لیکن ان بند آنکھوں والوں سے زیادہ کھلی آنکھوں والے سیاسی محاذ کی گرما گرمی اورگرج سن اور محسوس کر رہے ہیں اور اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی بات کر رہے ہیں لیکن نقار خانے میںدیگرنقارے اتنے زور سے بج رہے ہیں کہ وہ جو سیاسی آگ کو ماند کرنے کی آرزو میں ہیں۔

شاید پس منظر میں یہ آرزوپنپ رہی ہے کہ موجودہ ''منتخب '' حکمرانوں کو ان کے اپنے ہی بوجھ تلے دبنے دیا جائے اور پھر مرضی کے ''غیر منتخب'' لوگوں کو مسلط کر دیا جائے جن کا کوئی انتخابی حلقہ نہ ہو اور نہ ہی وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہوں، یوں ان غیر عوامی نمایندوں سے ملک کی معاشی سمت کو درست کرنے کا آغازکیا جائے ۔کیا ایسا ممکن ہو پائے گا، سر دست تو ایسا نظر نہیں آتا لیکن یہ وہ آرزو ہے جو شہر اقتدار کی دیواروں پر لکھی تو سب کو نظر آرہی ہے لیکن آرزو کی تکمیل تک شہر اقتدار کے مکین اپنے حال میں مست رہنا چاہتے ہیں اور اس امید پر ہیں کہ شاید غیب سے کوئی ایسے اسباب پیدا ہو جائیں جو ان کی حکمرانی کو طول دے سکیں۔اقتدار کے مکین یہ بات بھول چکے ہیں کہ ایک طرف غربت زدہ عوام کی آہیں ہیں جو ان کے برے طرز حکمرانی کی وجہ سے بلند تر ہوتی جارہی ہیں تو دوسری طرف ایسے بے وفااور بے مروت ہیں جنھوں نے کبھی کسی سے وفا نہیں کی اور نہ ہی مروت کا ان کے ہاںکوئی رواج ہے۔

بقول غالب:

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔