ولی خان کا فکر انگیز تجزیہ آخری حصہ
جن حالات اور بے سروسامانی میں باچا خان قومی جہاد کے لیے کمر بستہ ہوئے اس کا اندازہ لگانا اب مشکل ہے
تاریخ کے حوالے سے ولی خان کا اتنا عمیق تجزیہ پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے آج کے اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاست دانوں اور سیاسی تجزیہ نگاروں میں وہ تخلیقی بصیرت کیوں نظر نہیں آتی جو ماضی کے سیاسی رہنماؤں میں بدرجۂ اتم پائی جاتی تھی۔
اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ماضی کے سیاسی اکابرین اور کارکنوں کی غالب اکثریت سیاست کو عوام کے حقوق کے حصول کی جدوجہد کا ذریعہ تصور کرتے تھے، ان کا مقصد ہر قیمت پر اقتدار میں آنا نہیں ہوتا تھا، اس طرح سیاست عبادت کا درجہ اختیار کر لیتی تھی، وہ عمر کا بہترین اور بڑا حصہ بدترین جیلوں میں مشقت کرتے ہوئے بسر کردیا کرتے تھے، جس سے ان کے اندر غیر معمولی سیاسی دانش پیدا ہوتی تھی۔ باچا خان نے زندگی کا بڑا حصہ بلکہ آخری سانس بھی قید و بند اور جلاوطنی کی حالت میں گزاری، بات نہ جانے کہاں نکل گئی۔ خان عبدالولی خان اپنے تجزیہ میں آگے لکھتے ہیں کہ '' فرنگی اسلام کی حقیقی قوت سے ڈر رہا تھا۔
دارالعلوم دیو بند سے جو علما حقیقی اسلامی روح کی تعلیم دے رہے تھے اور مسلمانوں میں اسلام کے احیا کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، اس تحریک کو کچلنے کے لیے فرنگی نے ایسے علمائے سو پیدا کیے جو فرنگی کی سلطنت کے لیے ان مجاہدین کے مقابلے میں کمر بستہ ہوجائیں اور قوم کے سامنے اسلام کی ایسی تاویلیںلائیں جسے فرنگی اپنی حکومت کے تحفظ اور مفاد کے لیے استعمال کرے۔ اب اگر ہم غور سے دیکھیں تو فرنگی کا کام آسان ہوگیا کہ وہ مسلمانوں کو اشتراکی نظریہ کے خلاف بھی استعمال کرے تاکہ وہ ہندوستان کا دفاع کرے اور انھیں ہندوستان کے اندر اپنے اغراض و مفادات کے لیے بھی استعمال کرے، مختصرا یہ کہ فرنگی کی اس پالیسی سے اس کی خارجہ پالیسی اور اندرونی پالیسی کا بنیادی فائدہ ہوا۔
خدائی خدمت گار تحریک اس ماحول اور گرد و پیش کی پیداوار ہے۔ اس تحریک نے خود پر یہ بات فرض کی تھی کہ فرنگی کی ان اسلام دشمن پالیسیوں کی مخالفت کرے۔ خدائی خدمت گار تحریک فرنگی کی اندرونی پالیسیوں کی بھی مخالفت کررہی تھی اور ان کو یہ یقین تھا کہ جب تک پورے ہندوستان کے لوگ مل کر کمر نہ باندھ لیں تو فرنگی کا بستر گول نہیں کیا جاسکتا۔ خدائی خدمت گار تحریک کا یہ بنیادی اصول تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت اور نفاق فرنگی کے اپنے فائدے پر تمام ہوتا ہے اور اس کی یہ سازش ہے کہ مذہب کے مقدس نام پر فساد کی بنیاد رکھے، اس کے لیے خدائی خدمت گار ی کی یہ تحریک تھی کہ ہم سب کو مشترکہ طور پر فرنگی کی غلامی سے نجات حاصل کرنا چاہیے۔
اس وجہ سے فرنگی خدائی خدمت گار تحریک کو اپنا حقیقی دشمن سمجھتا تھا جس طرح مذہب کی حقیقی روح کو زندہ رکھنے کے لیے یہ تحریک چل رہی تھی تو اسی طرح فرنگی کے اشتراکی نظریہ کے مقابلے کے لیے بھی خطرہ پیدا ہوا۔ اور جیسے ہی فرنگی نے یہ نعرہ بلند کیا کہ اسلام کو خطرہ ہے تو خدائی خدمت گار نے فرنگی سامراج کے گریبان پر ہاتھ ڈالا تھا اور ان کا یہ نعرہ تھا کہ اسلام نہیں بلکہ فرنگی سامراج کو خطرہ ہے۔
اس پس منظر میں فرنگی خدائی خدمت گار تحریک کو اپنا بنیادی دشمن سمجھ رہا تھا۔ سرحد میں پختون بستے تھے اور صوبے کی 93 فیصد آبادی مسلمان تھی جو فرنگی کی سامراجی اور نوآبادیاتی پالیسیوں کے مخالف تھے جس کا علاج فرنگی کو نظر نہیں آرہا تھا لیکن علاج اس بنا پر ضروری تھا کہ خدائی خدمت گار تحریک نہ تو فرنگی کی داخلی پالیسی میں فٹ ہوتی تھی اور نہ ہی خارجہ پالیسی میں، لہٰذا ان کا خاتمہ ضروری تھا۔ یہ ملک اور گرد و پیش کے حالات تھے کہ باچا خان اور اس کے ساتھی فرنگی کی عظیم قوت کے خلاف کمر بستہ ہوئے اور خدائی خدمت گار تحریک کی بنیاد رکھی۔
جن حالات اور بے سروسامانی میں باچا خان قومی جہاد کے لیے کمر بستہ ہوئے اس کا اندازہ لگانا اب مشکل ہے کیونکہ جو لوگ صاف ستھرے میدان میں آتے ہیں تو انھیں کچرے کا اندازہ نہیں ہوتا جو پہلے صاف کیا جاچکا ہوتا ہے۔ باچا خان کا جن جرات مند جوانوں اور خواتین نے ساتھ دیا جن ماؤں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اپنی مرضی سے قرآن شریف کے نیچے سے گزار کر قومی جنگ میں بھیجا تھا، کتنی دلہنوں نے اپنے سہاگ قوم پر قربان کیے تھے اور کتنی ہی بہنیں اس جنگ میں اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ شامل تھیں۔ کتنے جوان فرنگیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے، کتنی جوانیاں جیل کے سیاہ دروازوں کے پیچھے خاک ہو رہی تھیں، یہ بہت لمبی اور غمگین داستان ہے۔
باچا خان اور ان کے ساتھیوں کی خواہش تھی کہ ان نوجوانوں کے حالات جمع کیے جائیں کیونکہ یہ پختونوں کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ قوم کی آیندہ نسلیں اس غیرت مند قوم کی مردانگی اور بہادری سے باخبر ہوں اور یہ ان کے لیے اس اندھیرے میں روشن مشعل ہے۔
مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے کہ اس کے لیے کمیٹیاں بنیں جو صوبہ سرحد کے ہر چپے چپے اور دیہاتوں میں جا کر ان جوانوں اور خواتین کے واقعات جمع کریں لیکن پختونوں کی تمام کمزوریوں میں ایک یہ بھی ہے کہ لکھنے پڑھنے کی جانب توجہ نہیں دیتے لیکن بابا نے جب اپنی زندگی کے حالات جمع کرنا شروع کیے تو ہمارا یہ خیال تھا کہ یہ کمی کسی حد تک پوری ہوجائے گی لیکن وہ تو بابا نے صرف اپنی زندگی کے حالات جمع کیے ہیں۔ میں نے جو کتاب تحریر کی ہے وہ اگرچہ خدائی خدمت گار تحریک کی تاریخ ہے لیکن وہ اس منطقہ کے بین الاقوامی قوتوں کی پالیسیوں اور سازشوں سے بھری ہے۔
ہم نے یہ محسوس کیا کہ گمنام جواں مرد گمنام ہی رہ جائیں گے اور جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا' بزرگ اور ساتھی ایک ایک کرکے گور میں جائیں گے ۔ تقریباً پانچ سال پہلے میں نے احمد کو بلایا اور اسے کہا کہ باقی کوئی نہیں بچا ہے اور یہ کام آپ کریں گے، یہ آپ کی ذمے داری ہے۔ احمد میرے ساتھ گاؤں میں ٹھہرا ہوا تھا اور واقعی اس نے کام کیا۔ وہ واقعات جمع کرنے میں مختلف جگہوں پر جاتا اور واقعات جمع کرتا۔ تقریباً چار سال میں کتاب کی تحریر مکمل ہوئی۔ میں احمد کو اپنے ساتھ کتاب کے مسودے سمیت کا بل لے کرگیا، افغانستان کی حکومت نے بابا کی کتاب بھی شایع کی اور میری کتاب حقائق حقائق ہیں کا کچھ حصہ بھی وہاں شایع ہوا۔
افغانستان مصیبت میں گھرا ہوا تھا، احمد کئی مرتبہ میرے ساتھ اور کئی مرتبہ کتاب کی چھپائی کے لیے افغانستان گیا لیکن احمد اچانک اس دنیا سے رخصت ہوگیا، احمد اس کتاب کے لکھنے تک ٹھہرا تھا۔ جب کتاب پوری کی تو اپنے حصے کی زندگی بھی پوری کر لی۔ اس نے آزاد اسلامیہ ہائی اسکول سے ہمارے ساتھ یہ سفر شروع کیا تھا، وہ اپنی کتاب کو نہیں دیکھ سکا۔ اس نے انقلابی دور میں ایک انقلابی کا کردار ادا کیا تھا اور ہزاروں جواں مردوں کی طرح اس پر فخر کرسکتا ہے کہ سامراجی اور نو آبادیاتی قوتوں کے خلاف اپنی غریبی میں قربانیاں دی ہیں، اپنے بچوں کو خوار کیا ہے تاکہ پختونوں کے بچوں کے لیے عزت اور آزادی کی زندگی حاصل کرسکے۔
آج احمد نہیں ہے، احمد کی طرح ہزاروں غیرت مند اس مٹی کی خوراک بن گئے کہ فرنگی سے ملک کی آزادی کی نعمتیں پختونوں کے بچوں اور آنے والی نسلوں کے کام آئیں گی لیکن فرنگیوں کے جانے کے بعد وہ پالیسیاں امریکا کے حوالے ہوئیں۔
چونکہ خدائی خدمت گار ان سامراجی قوتوں کی اندرونی اور خارجہ پالیسیوں میں فٹ نہیں ہوتے تھے، لہٰذا ابھی تک وہ اس انقلابی دور سے گزر رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ کب تک پختونوں کی یہ لمبی اور زبوں حال رات سحر میں تبدیل ہوتی ہے اور ہمارے ان سر فروشوں، جوانوں، بزرگوں، خواتین نے آزادی کے لیے اور آزادی کی نعمتوں کے لیے جو بے تحاشہ قربانیاں دی ہیں وہ پختونوں کے بچوں کی جھولی میں کب گریں گی۔
آخر میں اتنا عرض کروں گا کہ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان ایک شاعر کا خواب تھا اور دوسرے سربراہ نے اس کی تعبیر نکالی ہے۔ ہماری سرزمین کے میدانوں، پہاڑوں اور دروں نے جو کچھ دیکھا ہے وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ پورے کوئی درہ اور پہاڑ کی کوئی چوٹی ایسی نہیں ہوگی جہاں فرنگیوں اور پختونوں کا خون نہ بہا ہو۔ اگر دل تھام کر اس کتاب کے آخر تک پہنچیں تو خود سمجھ جائیں گے کہ ملک کی آزادی اور اپنی مٹی پر اپنے اختیار کے لیے پختونوں نے کیا کیا قربانیاں دی ہیں اور وہ قوم جو فرنگی کی غلام تھی، اس نے خالی ہاتھوں اور مضبوط ایمان سے فرنگی جیسی عظیم قوت کو کس طرح سے شکست دی ہے۔
خان ولی خان کا تجزیہ پڑھ کر دل میں یہ خواہش بیدار ہوتی ہے کہ کاش سیاست دانوں کی نوجوان نسل سیاست کو عبادت کا درجہ دے، عوام سے وابستہ رہے، اپنے نہیں بلکہ انسانوں کے حقوق کے لیے لڑے تاکہ ان میں ماضی کے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں جیسی دانش اور سیاسی بصیرت پیدا ہوسکے جو ہمارے سیاسی منظر نامے سے تقریباً ناپید ہوچکی ہے۔