سلطان کا قتل: آخر کار کنارا آ پہنچا۔ بہ ظاہر علاؤ الدین خلجی اپنے چچا کا استقبال کر کے بہت مسرور ہوا۔ جیسے ہی کشتی کنارے سے لگی۔ علاؤ الدین آگے بڑھا اور سلطان کے قدموں میں گر پڑا۔ جلال الدین خلجی نے اس کو اٹھایا اور نہایت شفقت آمیز لہجہ میں اس سے مخاطب ہوا۔ سلطان نے علاؤ الدین کو یاد دہانی کرائی کہ ''میں نے تم کو بچپن سے پالا اوراب تم بڑے ہو گئے ہو۔
کیا میں نے تم کو اس لیے پروان چڑھایا ہے اور ایک منصب کے بعد دوسرے منصب پر اس لیے ترقی دی ہے کہ تم کو قتل کر دوں؟ تم مجھے ہمیشہ اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ عزیز رہے ہواور اب بھی اتنے ہی عزیز ہو۔ دنیا بدل سکتی ہے مگر تم سے میرا رشتہ نہیں بدل سکتا اورتمہارے لیے میری محبت کم نہیں ہو سکتی۔'' اپنے بھتیجے سے یوں خطاب کر کے سلطان جلال الدین نے علاؤ الدین کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اس کو اپنی کشتیوں کی طرف لے چلا۔ عین اس وقت نصرت خاں نے پہلے سے طے شدہ اشارہ کیا۔
اور سامانہ کا محمود سالم اپنی تلوار لے کر سلطان پر حملہ آور ہوا لیکن وار اوچھا پڑا اور اس کا اپنا ہاتھ کٹ گیا۔ درد سے تلملاتے ہوئے اس نے دوسرا وار کیا اور بوڑھے سلطان کو زخمی کر دیا۔ ناگہانی حملہ پر ششدر اور کرب سے تلملاتا ہوا سلطان اپنی کشتی کی طرف دوڑا اور کہتا جاتا تھا کہ ''اوہ' علاؤ الدین یہ تو نے کیا کیا!'' دوسرا کرائے کا قاتل اختیار الدین ہود سلطان کی جانب لپکا' اس کو زمین پر دے پٹخا اور اس کا سرتن سے جدا کر دیا اور اسے اس کے غدار اور احسان ناشناس بھتیجے کے سامنے پیش کیا۔
یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی کہ سوائے ملک فخر الدین کے اور تمام لوگ جو سلطان کے ساتھ تھے یا تو غرق کر دیے گئے یا تلوار کے گھاٹ اتر گئے۔(اس وحشیانہ جرم کا ارتکاب 20جولائی 1296 (17رمضان 695ھ ) بروز جمعہ ہوا۔ برنی لکھتا ہے کہ ''مقتول سلطان کے کٹے ہوئے سر سے ابھی خون ٹپک رہا تھا کہ علاؤ الدین کے سر پر چتر شاہی سایہ فگن ہوا۔ اس کے سلطان ہونے کا اعلان ہوا۔'' جس وقت فیل نشین افسر اس کی تخت نشینی کا اعلان کر رہے تھے ۔ جلال الدین کا سر معمولی مجرم کی طرح نیزے پر بلند کر کے کٹرہ اور مانکپور کی گلیوں میں گشت کرایا جا رہا تھا۔ اس کے بعد اسے اودھ (ایودھیا) بھیجا گیا تاکہ عوام کے مشاہدے کے لیے پیش کیا جائے۔(خلجی سلطنت کا عروج و زوال' مصنف کے ایس لال)
آپ کی توجہ اس خطے کی اصل جوہری بدقسمتی کی طرف مبذول کرواتا ہوں ۔ برصغیر میں اقتدار کی منتقلی کا کسی قسم کا مستند اور شفاف نظام پنپ نہیں پایا۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اقتدار کو جائز طریقے سے منتقل کرنے کا رجحان کسی بھی بادشاہ یا حکومت کے ذہن میں موجود ہی نہیں رہا۔ 1947تک حکومت ہمیشہ تلوار اور برہنہ طاقت کے زور پر قائم کی جاتی تھی یا چھینی جاتی تھی ۔
برصغیر کے اندر دو ممالک وقوع پذیر ہوئے ۔ جن میں سے ایک ' یعنی ہندوستان اپنی جغرافیائی سلامتی کو محفوظ رکھ سکا ۔ اور دوسرا ملک ' قائم ہونے کے تھوڑے ہی عرصے بعد دو مختلف ممالک میں تقسیم ہو گیا۔ عجیب واقعہ ہے کہ پاکستان کے ٹوٹنے میں ' اکثریت نے اقلیت کو خون کے دھبوں سے وضو کروا کر رخصت کیا ۔ اور اس طرح بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ جواہر لال نہرو ' اپنے وقت کا ذہین ترین سیاستدان تھا۔ اسے معلوم تھا کہ ملک کو ترقی کی شاہراہ پر کیسے گامزن کرنا ہے ۔
چنانچہ اس نے ابتداء ہی سے آئینی ادارے ' ریاستی اداروں کو اپنی حدود تک محدود رکھنا اور عدالتوں کے تحفظ کو ہر درجے اہمیت دی۔ اس کے بالکل متضاد 1947 سے لے کر آج تک پاکستان میں کوئی آئینی ادارہ جڑ نہیں پکڑ سکا ۔ طاقتور نہیں ہو پایا ۔ الیکشن کمیشن جیسا ادارہ ہویا عدالتیں ' یہ لوگوں کے سب سے بڑے حق ' یعنی ووٹ کو تحفظ فراہم نہیں کر سکے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ کمزور آئینی ادارے ' برہنہ شمشیر کے سامنے غیر محفوظ ہو گئے۔ وہ ریاستی ادارے جن کا حلف انھیں اجازت نہیں دیتا کہ وہ سیاسی مداخلت کریں ۔ انھوں نے براہ راست سیاست کرنی شروع کردی۔
ایوب خان سے لے کر آج تک' وہ قوت سیاستدانوں کو تقسیم در تقسیم کرتی گئی ۔ حکومت سازی میں میرٹ یا ووٹ کی قوت بالکل ختم ہو گئی۔ یہ وہ نوحہ ہے جس پر بات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ غضب یہ بھی ہے کہ ریاستی اداروں کو کبھی محمد خان جونیجو مل جاتا ہے اور کبھی شوکت عزیز سے نمائشی عہدہ سرفراز کر دیا جاتا ہے ۔ کبھی عمران خان کٹھ پتلی بن جاتا ہے تو کبھی شہباز شریف وزیراعظم سامنے آتا ہے۔ عوام کی رائے کبھی بھی مستند نہیں گردانی گئی ۔
انتقال اقتدار کا مسئلہ صرف ہمارے ملک تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ کسی بھی مسلمان ملک میں حکومت کی تبدیلی کا کوئی شفاف نظام کارنظر نہیں آتا۔ مثال آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔مصر کو سامنے رکھیے۔عبدالفتح السیسی جس طرح مصر کے اقتدار پر قابض ہوا اور ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مصر کے مقامی لوگوں کی رائے کو کسی قسم کی کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔بلکہ سیسی نے تو اپنے سے پہلے منتخب وزیراعظم کو پابند سلاسل کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا تاکہ کوئی بندہ جمہوریت کا نام تک نہ لے سکے ۔ دراصل تمام مسلمان ممالک ایک شدید المیہ کا شکار ہیںجو ہزاروں سال کی یکسانیت سے لوگوں کی رائے کو کچل رہا ہے۔
مسلمان حکمرانوں کے اندر خوف کی وہ لہرموجود ہے جو انھیں کسی صورت میں شفاف الیکشن اور بے عیب حکومت کی تبدیلی کی طرف مائل نہیں ہونے دیتی۔ مشرق وسطیٰ میں تو صورت حال حد درجہ تباہ کن ہے ۔ وہاں مختلف سلطنتیں جو انگریزوں نے خود ترتیب دی تھیں' مختلف خاندانوں کو بادشاہت کے روپ میں سونپ دی گئیں۔
ملک کے تمام وسائل شاہی شخصیتوں کے ہاتھ میں دے دیے گئے اور جمہوریت کو زہر قاتل قرار دیا گیا۔ سعودی عرب کے حالات تو یہ ہیں کہ محمد الغامدی جو کہ ایک ریٹائرڈ سعودی استاد ہے ۔ اس نے ایک ٹویٹ کی اور نظام انصاف پر تنقید کی ۔ کیا آپ جاننا چاہیں گے۔ سعودی حکومت نے محمد الغامدی سے کیا سلوک کیا ۔ اس کو بیس سال کی قید بامشقت سنائی گئی اور اسے دہشت گرد قرار دے دیا۔ اس کی ٹویٹ آج بھی ' سوشل میڈیا پے موجود ہے۔ یہاں تک سنا گیا ہے کہ اب اسے سزائے موت کا حکم سنایا گیا ہے۔
ویسے خدا کا شکر ہے کہ پاکستان میں سعودی عرب یا قطر جیسے حالات نہیں ہیں۔ مگر یہاں بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ۔ شورش کاشمیری مرحوم نے اپنی تصنیف '' موت سے واپسی '' میںساٹھ کی دہائی کے حالات کو قلم بند کیا ہے۔ صدر ایوب کا دور جو آج سنہرا دور گردانا جاتا ہے ' آزادی اظہار کے لیے زہر قاتل تھا۔ گورنر امیر محمد خان ' گورنر موسیٰ خان اور صدر ایوب کسی صورت میں اختلاف رائے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ شورش نے دلیل اور ثبوتوں کی بنیاد پر لکھا ہے کہ ہر سوچنے والے ذہن کو ریاست مفلوج کرنے کی بھرپور کوشش کرتی تھی۔بدقسمتی سے 2024میں بھی یہی صورتحال ہے۔
شورش کاشمیری کو ان کے خیالات کی بدولت ناصرف پابند سلاسل کیا گیابلکہ ان پر ہر ظلم روا رکھا گیا ۔ بھوک ہڑتال کے دوران جب شورش کی صحت مکمل طور پر جواب دے گئی اور وہ قریب المرگ ہو گیا۔ تو گورنر موسیٰ نے ہوم ڈیپارٹمنٹ کی سمری پر یہ لکھا ' اس بدمعاش کو مر جانا چاہیے ۔ شورش کاشمیری کے حالات پڑھیں اور ریاستی جبر کو دیکھیں تو آج بھی کسی قسم کی کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے کیس کو چار دہائیوں بعد غیر موثر کرنا بذات خود عدل اور ووٹ کی توہین ہے۔
کیا یہ حکم نہیں دیا جا سکتا تھا کہ جن لوگوں نے منتخب وزیراعظم کو طاقت اور سازش کے زور پر قتل کروایا ہے۔ قبریں کھود کر ان کے ڈھانچوں کو سولی پر لٹکا دیا جائے تاکہ آیندہ آنے والے وقت میں کوئی ایسی ناپاک حرکت نہ کر پائے۔مگر ایسا کچھ نہیں ہوا اور ہو بھی نہیں سکتا ۔ نوے فیصد سے زیادہ دانش اور لکھاری کسی نا کسی ذاتی ایجنڈے کے تحت گفتگو فرماتے ہیں۔ آزادی سے سوچنا اور لکھنا آج بھی ناممکن ہے ۔
پر سوال یہ ہے کہ لوگ کیا کریں۔ ملک میں ہر حکمران جب تک جلال الدین خلجی نہیں بنتا اس کو تبدیل کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہاں ہر حاکم کا سر جب تک نیزے پر بلند نہیں ہوتا ' اس کا اقبال بلند رہتا ہے ۔ مقتدر حلقے کسی صورت میں لوگوں کی رائے کو نہ پہلے اہمیت دیتے تھے اور نہ آج ان کی نظر میں ان کی کوئی اہمیت ہے۔دراصل انتقال اقتدار کا کوئی شفاف طریقہ عملی طور پر موجود نہیں ہے۔