'' دی لانسٹ '' جدید طبی سائنس کا سب سے پرانا برطانوی ہفت روزہ ہے۔یہ جریدہ دو سو ایک برس پہلے اٹھارہ سو تئیس میں تھامس واکلے نے شروع کیا اور آج تک بلا ناغہ شایع ہو رہا ہے۔ سنجیدہ ذمے دارانہ علم نوازی کے اعتبار سے دی لانسٹ کا شمار موقر عالمی جریدوں میں ہوتا ہے۔اس کی ایک تازہ رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ گزشتہ نو ماہ کے دوران غزہ میں جو اموات ہوئی ہیں۔ان کی ممکنہ تعداد اب تک فلسطینی محکمہ صحت کے جاری کردہ مصدقہ اعداد (اڑتیس ہزار سے زائد ) سے کہیں زیادہ ہے۔
فلسطینی محکمہ صحت کی جانب سے ہلاکتوں کے ریکارڈ میں وہ انسان شامل نہیں ہیں جو ملبے تلے دب کے مر گئے یا جو موجودہ المیے سے جنم لینے والی بیماریوں ، وباؤں یا علاج نہ ہونے کے سبب یا بھوک اور پیاس کے نتیجے میں جانبر نہ ہو سکے یا بالکل لاپتہ ہیں۔
کیونکہ سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیل نے غزہ پٹی کی اس درجہ جامع اور مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے کہ اناج کا ایک دانہ اور زخموں پر باندھی جانے والی ایک پٹی بھی بلا اجازت اندر نہیں آ سکتی۔اگر جنگ آج ختم ہو جائے تب بھی اس کے اثرات سے آنے والے کئی برس تک لوگ مرتے رہیں گے اور جو زندہ ہیں انھیں طرح طرح کی نفسیاتی پییچدگیوں کا لمبے عرصے تک سامنا ہو گا۔
دی لانسٹ کا تجربہ ہے کہ حالیہ برسوں میں ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکا کے انسانی بحرانوں میں ہر براہ راست متشدد موت کے نتیجے میں پندرہ اموات بلاواسطہ وجوہات کے سبب واقع ہوتی ہیں۔اگر غزہ میں مصدقہ طور پر مرنے والوں کی اب تک کی تعداد کو پندرہ کے بجائے اوسطاً چار بلاواسطہ اموات سے ہی ضرب دے دی جائے تو اگست کے شروع تک غزہ میں تمام غیر طبعی وجوہات کے سبب دراصل ایک لاکھ چھیاسی اموات ہو چکی ہوں گی۔
سات اکتوبر سے پہلے غزہ کی آبادی تئیس لاکھ تھی۔اگر دی لانسٹ کے اندازے درست ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ دس ماہ کے دوران غزہ کی آٹھ فیصد آبادی شہید ہونے کا تخمینہ ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ اسرائیلی الزامات درست نہیں کہ فلسطین کے محکمہ صحت نے اب تک کا جانی نقصان بڑھا چڑھا کے پیش کیا ہے۔بلکہ یہ اعداد و شمار اتنے معتبر ہیں کہ خود اسرائیلی انٹیلیجنس ادارے ، اقوام متحدہ اور عالمی ادارہِ صحت ان اعداد کا اپنی رپورٹوں میں متعدد بار حوالہ دے چکے ہیں۔
سات فروری تک غزہ میں ہلاکتوں کی مصدقہ تعداد اٹھائیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ تب دی لانسٹ کا اندازہ تھا کہ اگر چھ اگست تک جنگ بندی نہیں ہوتی اور کوئی وبا یا بیماری بھی نہیں پھوٹتی تب بھی صرف بمباری ، گولہ باری اور عمارتوں کے انہدام کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد اٹھاون ہزار تک پہنچ سکتی ہے اور اگر امراض پھوٹ پڑے تو یہ عدد چھیاسی ہزار تک بھی جا سکتا ہے۔مگر انسانی و مادی تباہی کا حجم دیکھتے ہوئے لانسٹ کا تازہ تخمینہ یہ ہے کہ اگست کے پہلے ہفتے تک اگر ایک لاکھ چھیاسی ہزار فلسطینی اس بحران کے سبب کسی بھی وجہ سے مرتے ہیں تو اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
اس وقت خود فلسطینی وزارتِ صحت کو جانی نقصان کے اعداد و شمار جمع کرنے اور اس سلسلے میں اپنا اعتبار برقرار رکھنے میں بے شمار مشکلات کا سامنا ہے۔ جب تک غزہ کے بڑے اسپتال سلامت تھے تو روزانہ ان اسپتالوں میں آنے والی لاشوں اور زخمیوں کی گنتی نسبتاً آسان تھی۔اس کے علاوہ جانی نقصان کی بابت ذمے دار میڈیا کی فراہم کردہ اطلاعات کو بھی مصدقہ فہرست میں شامل کیا جاتا تھا۔
مگر اسرائیل نے بے پناہ جانی نقصان کی بدنامی سے بچنے کے لیے غزہ کے تمام اسپتالوں کو تاک تاک کے کھنڈر بنا دیا اور سو سے زائد صحافیوں اور میڈیا پرسنز کو نہ صرف چن چن کے مارا بلکہ بہت سوں کے خاندان بھی ختم کر دیے۔بہت سے ولاگرز اور صحافیوں کو بالاخر غزہ چھوڑنا پڑا۔جب کہ ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کو نہ صرف جان بوجھ کر ہلاک کیا گیا بلکہ زندہ بچ جانے والے میڈیکس کو جنوبی اسرائیل میں قائم عقوبت خانوں میں ڈال کے انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان مثالی بگڑے ہوئے حالات میں فلسطینی وزارتِ صحت کے اہل کاروں اور کارکنوں کے لیے جانی و مادی نقصان کا حساب رکھنا تقریباً ناممکن ہو گیا۔مگر انھوں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ وزارتِ صحت اب ان ہلاک شدگان اور زخمیوں کا ریکارڈ الگ سے رکھنے کی کوشش کر رہی ہے جن کی ان کے کسی رشتے دار یا جاننے والے نے شناخت کر لی۔جب کہ شناخت نہ ہونے والی لاشوں کے گنتی رجسٹر میں الگ سے اندراج کیا جا رہا ہے۔تاکہ جنگ کے خاتمے کے بعد ان میں سے زیادہ سے زیادہ کی براہ راست یا ڈی این اے سیمپل کے ذریعے شناخت میں سہولت ہو سکے۔ جتنے شہری اب تک شہید ہوئے ہیں ان میں سے تقریباً تیس فیصد کی شناخت ابھی ہونا باقی ہے۔
ایک ایسے مرحلے میں جب کہ تباہی کا عمل مسلسل جاری ہے اور لاتعداد لوگ ملبے سے نہیں نکالے گئے۔درست تخمینہ لگانا انتہائی مشکل ہے۔ مگر یہ اندازہ درست ہے کہ جتنی ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے ( اڑتیس ہزار )۔ کم ازکم اتنی ہی تعداد میں وہ فلسطینی بھی ہیں جن کا اب تک کچھ اتا پتا نہیں۔
جلد یا بدیر تمام ہلاکتوں کا ریکارڈ مرتب کرنا تباہی کا حجم طے کرنے کے لیے ضروری ہے اور بین الاقوامی قانون کے تحت بھی یہ ریکارڈ رکھنا لازمی ہے تاکہ اس کی بنیاد پر انسانیت سوز جرائم یا مستقبلِ قریب میں ہرجانے کے مقدمات تیار کرنے اور انصاف کے حصول میں مدد مل سکے۔انھی اعداد و شمار کی بنیاد پر تعمیرِ نو کی منصوبہ بندی بھی ممکن ہو سکے گی۔
عالمی عدالتِ انصاف جنوری میں اپنے ایک فیصلے کے ذریعے اسرائیل کو قانوناً پابند کر چکی ہے کہ نسل کشی کے عالمی کنونشن مجریہ انیس سو انچاس کے دستخطی کے طور پر اب یہ اس کی ذمے داری ہے کہ جانی و مادی نقصان کا ریکارڈ مرتب کرنے میں نہ صرف مدد دے بلکہ ثبوتوں کو مٹانے یا آلودہ کرنے سے بھی باز رہے۔حالانکہ بین الاقوامی عدالت کو بھی اچھے سے معلوم ہے کہ اسرائیل کو اس کی کوئی بھی قانونی ذمے داری یاد دلانا دراصل بلی کو دودھ کی رکھوالی پر مامور کرنے کے برابر ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)