آزادی انمول ہے
میرا لاہور خوبصورت تاریخی ورثوں کا امین، یادوں، باتوں اور پراسرار واقعات کا گواہ
دل سے نکلے گی نہ مر کے بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وطن آئے گی
یہ سچ ہے یا جھوٹ لیکن کہا یہی گیا ہے کہ یہ وہ گیت تھا جب ملک کی محبت میں چُور بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کے ساتھ چلتے ہوئے گا رہے تھے اور ان کے ساتھ آواز سے آواز ملا کر دونوں ساتھی بھی گانے کی کوشش میں مصروف تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسا ہو چکا ہے جب برصغیر کی آزادی کے لیے سب ایک ہی صف میں کھڑے تھے جذبہ ایک ہی تھا کہ اس دھرتی کو جو اب بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بٹ چکی ہے آزاد کرا کر دم لینا ہے ورنہ دم دے دینا ہے اور دم دے دیا گیا۔
ایک پرانی تصویر بلیک اینڈ وائٹ جس میں ایک چارپائی پر ایک دبلا پتلا جوان بیٹھا ہے، جسم پر ناکافی لباس، حالت کچھ خستہ لیکن جذبے ایسے کہ جس نے آج بھی آنکھوں کو نم کر دیا۔ آزادی شاید اس قیمتی نعمت کا نام ہے جو وقت گزرنے کے بعد بھی احساس کو مرنے نہیں دیتا، آج ایک صدی گزرے بھی بھگت سنگھ کی اس تصویر نے جیسے روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
فیصل آباد جب لائل پور تھا تب اٹھائیس ستمبر 1907 کو بھگت سنگھ نے آنکھ کھولی تھی۔ 1923 میں انھوں نے نیشنل کالج لاہور میں داخلہ لیا تھا۔ لاہور جو قدیم تاریخ کا مرکز رہا ہے، آزادی کے حوالے سے لاہور کا نام ہمیشہ بلند رہا، یہ وہی لاہور ہے جہاں تحریک آزادی کے نام سے جو شروعات ہوئی۔ وہ آزادی کی قیمت جانتا تھا، بہادر، نڈر، ہمت والا بھگت موت سے بھلا کب ڈرتا تھا، پھانسی چڑھنے سے پہلے اس نے پھانسی کے پھندے کو چوما تھا اور انھوں نے پھانسی کا پھندا اپنے گلے میں خود ڈالا تھا، ان کے بعد ان کے دونوں ساتھیوں کو پھانسی دی گئی۔ تیس مارچ 1931 کو یہ سانحہ ہوا اور فیروزپورکے قریب دریائے ستلج کے کنارے ان کی لاشوں کو جلایا گیا۔ پورا ہندوستان ان تین آزادی کے متوالوں کی قربانی پر احتجاج کر رہا تھا۔
نجانے کیسے آج اچانک ہی بھگت سنگھ کی لاہورکی وہ تصویر سامنے آئی تو بہت سے سوال ابھرے۔ آزادی کی قیمت کیا ہے؟ کسی دوسرے کو نیچا دکھانا، تکبرکرنا، شور و غوغا کرنا، خودنمائی کرنا، جھنڈے لہرانا، زوردار میوزک لگانا۔ ہم کیا سمجھتے ہیں؟ آزادی کا مفروضہ ہے کیا؟ کوئی اس وقت کے کسی نوجوان سے پوچھ سکتا کاش۔ کوئی اس وقت کی کسی دوشیزہ سے جان سکتا کاش۔ کوئی اس وقت کے بزرگ سے جان سکتا کہ جب دیوار پر ایک کیل ٹھونکنے کے لیے بھی انگریز بہادر کے دربار سے اجازت طلب کرنا پڑتی تھی۔
پہلے خیال تھا کہ شاید ایسا ہی ہوتا ہوگا لیکن جب ایک تحریر میں اس تمام مقدمے کو دیکھا تو سر ہی گھوم گیا تھا۔ جب ملازموں کے کوارٹرز کی دیوار ڈھے جانے اور بارشوں میں مزید نقصان کے باعث مودبانہ اجازت طلب کی گئی تھی 1931 یا غالباً 1928 کا دور تھا۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی کہ آج کا نوجوان، آج کا بزرگ، مرد ہو یا عورت آزادی کے مفہوم کو کس انداز سے لیتے ہیں۔ عیاشی، بے باکی، عیاری یا چالاکی خدا جانے ہم کس دور میں رہ رہے ہیں کسی عتاب کے زیر اثر ہیں جو ہم سب کچھ بھول بھال کر ظلم و تشدد کے رویے کو آزادی کے جامے میں قید کرنے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔
بھگت سنگھ کی وہ تصویر لاہور ریلوے پولیس اسٹیشن کی تھی، جہاں اسے انتیس مئی سے چار جولائی 1927 تک قید رکھا گیا تھا، اس کے ہمراہ گوپال سنگھ ڈی ایس پی، سی آئی ڈی لاہور بھی نظر آ رہے تھے۔ وہ تصویر کس نے کن حالات کے تحت لی تھی پر خدا جانتا ہے کہ آنسو تھے کہ بار بار آنکھوں سے لڑھکتے جا رہے تھے۔ لفظ آزادی کا رس اتنا ہی دل سوز ہوتا ہے۔ لاہور میں آج بھی مغل بادشاہوں، ہندو راجے، سکھ حکمران اور انگریز سرکار کے حوالوں سے بڑے واقعات و حادثات ثبت ہیں۔
وقت کا پہیہ بڑی تیزی سے گھوما اور ٹھہرگیا جب ایک منظرنامے میں چند لڑکیاں کچھ خریداری کے بعد غالباً پیسوں کی ادائیگی کرتے کرتے ایک نوجوان پر غصہ ہوتی، چیختی اور پھر اس کی پٹائی کرتی نظر آتی ہیں۔ بظاہر اچھے گھرانے کی پڑھی لکھی نوجوان لڑکیاں غالباً طالبات ہی تھیں۔ پر یہ کیا وہ تو جیسے پِل پڑیں، آخر ایسا بھی کیا ہوا تھا، اس منظر نامے میں ایک بزرگ بھی نظر آتے ہیں جن سے وہ بچیاں بحث کرتی ہیں غالباً بزرگ نے انھیں روکا تھا، ہمارے بچپن میں ایسا ہی ہوا کرتا تھا جب بچوں میں لڑائی ہو جایا کرتی تھی تو گزرنے والے بڑے، بوڑھے پکڑ دھکڑ کر صلح صفائی کرا دیا کرتے تھے پر آج وقت کی چکری بہت تیزی سے گھوم چکی ہے۔ ہمارے نوجوان، سچے آزادی کے مفہوم کو ٹھیک سے جان ہی نہ پائے۔ آزادی کا پاٹ پڑھانے والے تو ہمارے زمانے میں بھی نہ تھے پر اساتذہ اور بزرگوں سے اس کی قیمت سنتے تھے اور آج بھی پڑھتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے اور رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
میرا لاہور خوبصورت تاریخی ورثوں کا امین، یادوں، باتوں اور پراسرار واقعات کا گواہ۔ کل ہی تو جیسے بھگت سنگھ جیسے پڑھے لکھے شخص نے آزادی کی خاطر پھانسی چڑھنا قبول کیا تھا۔ وہ مسلمان نہ تھا پر زمین کا، انسانوں کا، ریت و روایات کا حق جانتا تھا۔ خوب واقف تھا کہ اگر آج اس نے اپنے حصے کی قربانی سے منہ موڑا تو کل آنے والی نسلیں ماضی کی نسلوں کو لعن طعن کریں گی، اسے یہ حق ادا کرنا تھا سو کر دیا۔
آج ہم آزاد ہیں، پر ہم سے بھول ہوگئی ہم اس کی قیمت بھول گئے، اس کا حق بھول گئے، اونچے مناسب، تعصب، مراتب اور درجات میں اس قدر بٹ گئے کہ آج ہمارا وجود چور چور ہے۔ ہم اس کے ٹکڑے اٹھا اٹھا کر جانچتے ہیں، تولتے ہیں اور پھر ایک زوردار کک لگا کر اسے میدان کے باہر پھینک دیتے ہیں۔ ہم اپنی زندگیوں سے بور ہوگئے ہیں، ہمیں ایڈوانچر اور تھرل سے بھرپور زندگی کشش کرتی ہے اور یہ تھرل ہمیں آزادی کے دوسرے معنوں میں ٹھونس رہا ہے۔ آج نوے برس سے زائد پرانی تصویر نے زندگی کے سارے رنگ درد سے بھر دیے، کیا ہم آزادی کے ان رنگوں کو پھر سے محسوس کر سکتے ہیں۔ کیا کوئی ہمیں اس کی صحیح پہچان کرا سکتا ہے۔ ہم ناامید نہیں کہ آج کا نوجوان سمجھ دار ہے جلد ہی جان جائے گا کہ آزادی کا کوئی مول نہیں۔