فلسطین کے غمزدہ بچے اور ڈاکٹر اسحقٰ منصوری کی پوسٹ
ہمارے مسلم حکمران سوئے ہوئے ہیں، انہیں احساس ہی نہیں ہے کہ فلسطینی ان کی طرف دیکھ رہے ہیں
ایک بچہ جس کی عمر بمشکل چار برس ہوگی جرسی اور نیکر میں ملبوس ہے، سفید شوز اس کے پیروں میں ہیں وہ بہت اونچی آواز میں اللہ اللہ کی صدائیں لگاتا ہوا تیز رفتاری کے ساتھ بھاگتا چلا جا رہا ہے ، جیسے منزل پر جلد سے جلد پہنچنا چاہتا ہو، اسے پناہ کی تلاش ہے وہ یہ نہیں جانتا کہ آگے اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، اس کے عقب میں جلی ہوئی بلڈنگ اپنا نوحہ بیان کررہی ہے، اس بلڈنگ میں بے شمار لوگ شہید اور زخمی ہوچکے ہیں، یہ پیغمبروں کی سرزمین ہے، یہاں کے لوگ ایمان کی طاقت اور اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی محبت سے سرشار ہیں وہ ہر روز لاشیں اٹھاتے اور دفنانے کے کام میں مصروف ہیں، ا نہی لاشوں میں ان کے دل کے ٹکڑے بھی شامل ہیں زندہ سلامت بچہ اس ماحول کو چھوڑ آیا ہے۔
چونکہ اب بھی اس عمارت اور اس کے اطراف میں ملبہ اور گہرا سناٹا ہے، اس نے نہ جانے کہاں چھپ کر جان بچائی تھی، اب وہاں اس کا کوئی نہیں ہے اس ہی وجہ سے وہ اپنی کرب ناک آواز سے اللہ کو بلند آواز سے پکار رہا ہے اس کی آواز دلوں کو تڑپا رہی ہے، ایک اور بچہ ہے جو منڈیرکو پکڑے کھڑا ہے، اس کی جان کو خطرہ ہے لیکن اس وقت وہ تمام خطرات سے نمٹ آیا ہے اور اب وہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا ہے تفکرات کی لکیریں اس کے چہرے پر عیاں ہیں وہ کب تک اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کرکھڑا رہے گا؟ وہاں کوئی اس کا مددگار نہیں، اس کی عمر تقریباً ڈھائی تین سال ہے، کئی بچے کھانے کے پتیلوں میں بیٹھے کھرچن نوچنے اور کھانے میں مصروف ہیں۔
ایک بچی جو چار پانچ سال کی ہوگی وہ اسرائیلی غنڈوں کے درمیان نہ جانے کیسے آگئی ہے، ایک دھکے سے اسے زمین پر گرایا جاتا ہے پھر وہ اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے اب ایک چھوٹا لڑکا اس ہی کی عمر کا بھاگتا ہوا آتا ہے اور اس کے بالوں کوکھینچتا ہے پھر اس کے بدن کی دھنائی کردیتا ہے گویا یہ اس کی ٹریننگ ہے، پتھر دل درندہ صفت فوجی ہنس رہے ہیں، مزے لے رہے ہیں پھر وہ خود بھی آگے بڑھتے ہیں اور اس معصوم جان پر بل پڑتے ہیں، اس سے آگے ویڈیو دیکھنے کی ہمت نہیں تھی۔
ہمارے مسلم حکمران سوئے ہوئے ہیں، انہیں احساس ہی نہیں ہے کہ فلسطینی ان کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن یہ دولت مند حضرات منہ اپنا دوسری طرف کرلیتے ہیں جیسے یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے جب غیر قومیں یہود و نصاریٰ اس قدر بے باکی اوردھڑلے کے ساتھ مسلم ممالک پر حملہ آور ہوتے ہیں اور انہیں بم دھماکوں اور بارود کے گولوں کی نذرکر دیتے ہیں کوئی ان کا مددگار نہیں ہوتا ہے، حکمرانوں تک کو اذیت ناک سزا دیتے ہیں اور انہیں پھانسی کے پھندے پر لٹکانے کا پورا اختیار رکھتے ہیں، عوام کے مال و اسباب اور عزتوں کو لوٹنے میں انہیں دیر نہیں لگتی ہے لیکن حکمران وہ بھی 57 اسلامی ممالک کے خاموش تماشائی ہیں۔
اس قدر بے حسی کو دیکھتے ہوئے دشمن شیر ہوجاتا ہے اور ڈرنے والے چھوٹے جانوروں کی مانند ہیں، اللہ کا کچھ تو خوف کریں ایمان کو مضبوط اور اللہ پر توکل کریں قسطنطینیہ کس طرح فتح ہوا تھا ؟ ایمان کی قوت کی بدولت ہمارا ملک پاکستان تو ایٹمی طاقت ہے پھر خوف کیسا ؟ یہ ملک کلمہ طیبہ کے نام پر وجود میں آیا تھا، یہاں کے حکمرانوں کو جری اور بہادر ہونا چاہیے، اپنے آپ کو منوالینا چاہیے تاکہ دوسرے ملکوں کے بھی حوصلے بڑھیں اور وہ فخرکریں کہ مسلمان کبھی نہیں جھکتا، اس کی غیرت زندہ رہتی ہے، لیکن بات یہ ہے کہ مسلمان کہاں ہیں ؟ نام کے رہ گئے ہیں،کام کے نہیں۔
ہمارے ملک میں بھی دامے، درمے، سخنے، قدمے فلسطین کی امداد کے لیے کام کیا گیا ہے، دوسرے ملکوں میں بھی فلسطین سے یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، احتجاج ہو رہا ہے، بظاہر دشمن بھی فلسطین کے حق میں بات کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں فلسطین کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحق منصوری سابق رکن اسلامی جمعیت طلبہ کراچی، پریزیڈنٹ صفہ انٹرنیشنل آکسفورڈ انگلینڈ نے ایک خاص میسج پوسٹ کیا تھا ، اسے ہم من وعن نقل کر رہے ہیں ۔
آکسفورڈ یونیورسٹی انگلینڈ کے مین گیٹ کے سامنے ''کون'' آئسکریم کھاتے ہوئے میں نے اس نوجوان اسٹوڈنٹ کوکوئی بار دیکھا وہ اپنے رنگ و روپ اور شکل و شبہات سے پاکستانی بلکہ کراچی کا لگ رہا تھا، بلیک جینز کے ٹراؤزر پر بلیک ٹی شرٹ اس نے پہنی ہوئی تھی، اس کے ایک ہاتھ میں ایک کتاب تھی، دوسرے ہاتھ میں وہ کون کھاتا ہوا میرے قریب آگیا،آداب و تسلیمات کے بعد بولا ''آپ بھی پاکستان بلکہ کراچی سے آکسفورڈ تشریف لائے ہیں، سنائیے! کیسا لگا آکسفورڈ اور انگلینڈ ؟''
مجھے اس نوجوان کے اس بے تکلفانہ سوال پر ذرا بھی حیرت نہیں ہوئی اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے میں نے کہا بہت خوب، بہت اچھا لگا، آج جمعے کا دن ہے، اس لیے یہیں یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ نماز پڑھ کر غزہ فلسطین کے مظلوموں سے اظہار یکجہتی کرنے والے آکسفورڈ یونیورسٹی کے طلبا وطالبات اور اساتذہ کرام اس خیمہ بستی کو دیکھنے اور انہیں سلام و تشکر و عقیدت پیش کرنے کے لیے حاضری دوں گا کہ اس ظلم وستم سے بھری دنیا میں یہ طلبا وطالبات اور اساتذہ کرام بلا امتیاز و مذہب و وطن اور رنگ و نسل فلسطین کے چھوٹے چھوٹے بچوں اور نہتے بوڑھوں، مردوں اور عورتوں پر اندھا دھند بمباری کے خلاف فلسطین کے انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کررہے ہیں۔
ان کیمپوں میں بڑی تعداد مسلمانوں کے ساتھ عیسائی، یہودی اور دیگر مذاہب کے طلبا وطالبات کی ہے، وہ نوجوان 'کون' کھاتے ہوئے اس سبزہ زار میں داخل ہوگیا جہاں فلسطین کے مظلوموں کے لیے مختلف پوسٹرز اور بینرز لگے ہوئے تھے، اس نے ایک ٹیبل سے فلسطین کا پرچم اٹھا کر دیتے ہوئے کہا کہ '' سر میں آپ کو سلام عقیدت پیش کرتے ہوئے بڑی خوشی محسوس کر رہا ہوں کہ آپ اتنی دور سے اظہار یکجہتی کے لیے تشریف لائے ہیں میرا نام ڈیوڈ ہے اور میں یہودی ماں باپ کا سب سے بڑا بیٹا ہوں، آپ حیران ہوں گے کہ ایک یہودی ماں باپ کا بیٹا ہونے کے باوجود میں اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی مدد اور اظہار یکجہتی کے لیے اس کیمپ میں کیوں موجود ہوں، پھر اس نے بہت سی باتیں کیں، اس کا مذہب انسانیت کی خدمت تھا۔ ڈیوڈ کی طرح بے شمار غیر مسلم غزہ کے مظالم کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، جبکہ ہمارے مسلم حکمران خواب غفلت اور بے حسی کا مظاہرہ کرنے میں پیش پیش ہیں۔