سیل فون اور سوشل میڈیا کے نشے سے بچے کی جان چھڑانے میں والدین کا کردار سب سے اہم ہے، سربراہ شعبہ نفسیات جناح اسپتال کراچی
سیل فون اور انٹرنیٹ کے مثبت اور منفی اثرات کے حوالے سے مباحث اور تحقیق اکثر نظر سے گزرتی ہے۔ بالخصوص بچوں اور ٹین ایجرز پر اس ٹیکنالوجی کے منفی اثرات کے بارے میں بہت کچھ کہا جارہا ہے۔ کیا واقعی سیل فون، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، آن لائن گیمنگ بچوں کی ذہنی صحت اور ان کے رویوں کو متاثر کررہی ہے۔ اس بارے میں جاننے کے لیے ہم نے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جناح اسپتال) کراچی میں شعبہ نفسیات کے سربراہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر چُنّی لال سے بات چیت کی جس کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔
٭ بچوں اور ٹین ایجرز میں اسمارٹ فون کے استعمال کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے؟ کیا اس کے ان کی ذہنی صحت اور نفسیات پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ؟
ڈاکٹر چنی لال نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بچوں میں اسمارٹ فون کے استعمال کے رجحان کے حوالے سے صورت حال تشویش ناک ہوچکی ہے، اور یہ ہمارے معاشرے میں ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے کہ بچے اسمارٹ فون کے استعمال کی لت میں پڑچکے ہیں۔ ہر شے کے اپنے فوائد و نقصانات تو ہوتے ہیں، بالکل یہی معاملہ اسمارٹ فون، ٹیبلٹ اور اسی نوع کے دیگر گیجٹس یا آلات کا ہے، مگر ہمارے معاشرے میں اسمارٹ فون کا استعمال سب سے عام ہے۔ اسمارٹ فون کی شکل میں دنیا ایک کوزے میں بند ہوکر ہمارے ہاتھ میں سمٹ آئی ہے، ایک کلک پر ہمیں بے پناہ معلومات دستیاب ہوجاتی ہیں۔
ڈاکٹر چنی لال نے مزید کہا کہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ گھر میں مائیں اپنی مصروفیت کے باعث یا کسی بھی دوسری وجہ سے بچوں کو موبائل فون پکڑا کر انہیں مصروف کردیتی ہیں یا والد بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ ایسا کرنا بچوں کو ایک طرح سے سیل فون اور انٹرنیٹ کی عادت ڈالنے کے مترادف ہے۔ بچہ ازخود موبائل فون سے واقف نہیں ہوتا، یہ خاص طور سے والدین کی کوتاہی ہے جس کی وجہ سے انہیں اسمارٹ فون استعمال کرنے کی عادت پڑتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ یہ عادت، لت اور ایک قسم کا نشہ بن جاتی ہے جس سے بچوں کی جان چھڑانا اور انہیں نجات دلانا بہت دشوار ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر چنی لال کا کہنا تھا کہ اس لت کے بچوں کی جسمانی صحت پر تو مضر اثرات ہوتے ہیں مگر اس سے زیادہ خطرناک اثرات ان کی نفسیاتی و ذہنی صحت پر مرتب ہوتے ہیں، اور وہ 'ورچوئل آٹزم' کا شکار ہوجاتے ہیں، پھر ان بچوں میں اینگزائٹی، ڈپریشن، حد سے زیادہ حساسیت یا بالکل ہی بے حس ہوجانے کی کیفیات بھی مشاہدے میں آتی ہیں۔ آٹزم ایک ایسا مرض ہے جس میں متاثرہ فرد یا بچہ اپنی ذات تک محدود ہوجاتا ہے اور اسے سمجھنے، سماجی تعلقات بنانے اور بولنے یا رابطہ کاری میں مسائل پیش آتے ہیں۔ 'ورچوئل آٹزم' بھی ایک ایسی کیفیت ہے جس میں بچے کا ذہن موبائل ہی پر فوکس ہوجاتا ہے اور اس کی دنیا صرف اسکرین تک محدود ہوجاتی ہے، چناں چہ اسے سیکھنے، سمجھنے اور رابطہ کرنے یعنی بات چیت میں دشواری پیش آتی ہے اور اس کے سماجی تعلقات بھی نہیں بن پاتے کیوں کہ اس کے لیے موبائل ہی کل کائنات بن جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے بچے کا اپنے ماں باپ سے بھی وہ لگاؤ نہیں رہتا، وہ پیار نہیں رہتا، کیوں کہ بچے اور والدین کے درمیان وہ قدرتی نفسیاتی رشتہ قائم نہیں ہوپاتا، اور آگے چل کر یہ چیزیں بہت تشویش ناک ہوجاتی ہیں کہ بچے کی اپنے والدین سے وہ محبت اور انسیت نہیں ہے جو ہونا چاہیے۔
موبائل میں گم رہنے کی وجہ سے بچہ اپنے دوست نہیں بنا پاتا، وہ کھیل کود میں حصہ نہیں لے پاتا جو بچوں کی جسمانی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ دوسری بات یہ کہ بچے کو موبائل فون دینے کے بعد والدین کے لیے پورا وقت اس کی نگرانی کرنا بھی ممکن نہیں رہتا، بچہ اسکرین پر کیا دیکھ رہا ہے، اور کلک کرتے کرتے بچے کے سامنے وہ چیزیں بھی آجاتی ہیں جن کا اس کے دماغ پر برا اثر پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ موبائل فون کی لت کا بچوں کی پڑھائی پر بھی منفی اثر پڑتا ہے اور تعلیمی میدان میں ان کی کارکردگی زوال پذیر ہونے لگتی ہے۔ وہ بری صحبت میں بھی پڑ سکتا ہے کیوں کہ آپ ہر وقت یہ نگرانی نہیں کرسکتے کہ بچہ کیا دیکھ رہا ہے اور سوشل نیٹ ورکنگ کے ذریعے کن لوگوں سے رابطے میں ہے، وہ جرائم پیشہ لوگوں کے ساتھ بھی رابطے میں آسکتا ہے۔
٭ اسمارٹ فون میں گُم رہنے والے بچے کس قسم کے امراض کا شکار ہورہے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر چنی لال نے کہا کہ ان بچوں میں رابطہ کاری کی صلاحیتیں اچھی طرح پنپ نہیں سکتیں، انہیں دوسروں سے بات چیت کرنے میں اور مافی الضمیر بیان کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ اس کے علاوہ ان بچوں میں، چڑچڑا پن، غصہ اور عدم برداشت پیدا ہوجاتی ہے۔ دراصل موبائل فون کی لت میں مبتلا ہوجانے کے بعد یہ آلہ ان کے لیے لذت کے سامان کی سی حیثیت اختیار کرجاتا ہے، پھر جب والدین ان پر پابندی لگاتے ہیں کہ آپ نے موبائل کو ہاتھ نہیں لگانا، اس کا استعمال نہیں کرنا تو بچے غصے میں آجاتے ہیں، اور بدتمیزی بھی کرنے لگتے ہیں۔
٭ بچوں کے اس رویے کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟
ڈاکٹر چنی لال کا کہنا تھا کہ موبائل فون کی وجہ سے بچوں کے رویے میں در آنے والی خرابی میں قصور صرف بچوں کا نہیں ہے، بلکہ زیادہ ذمے دار خود والدین ہیں کیونکہ انہوں نے پہلے اپنے بچے کو ایک لت لگنے دی، انہیں ایک نشے کا عادی بنا دیا، پھر جب آپ نشے کے عادی فرد کا نشہ بند کردیں اور توقع رکھیں کہ وہ خاموش رہے گا تو ایسا نہیں ہوگا، بچہ اس پابندی پر ردعمل ظاہر کرے گا اور موبائل فون کے لیے ضد کرے گا۔
٭ کس عمر کے بچوں میں اسمارٹ فون کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
اس ضمن میں ڈاکٹر چنی لال نے بتایا کہ سیل فون کے اثرات سے پانچ سال سے لے کر بیس سال تک کی عمر کے بچے اور نوجوان زیادہ متاثر ہورہے ہیں، کیوں کہ ان میں موبائل فون کے استعمال کی شرح سب سے زیادہ ہے، تاہم مثالیں ایسی بھی ہیں کہ اڑھائی تین سال کے بچوں کو بھی مائیں مصروف رکھنے کے لیے اسمارٹ فون پکڑا دیتی ہیں اور یہ بچے اگر روزانہ طویل وقت تک موبائل فون میں مصروف رہیں تو بتدریج 'ورچوئل آٹزم' کا شکار ہوجاتے ہیں کیوں کہ اس عمر میں ان کی دماغی نشوونما مکمل نہیں ہوتی، اس چھوٹی سے عمر میں سیل فون ان کے ہاتھ میں پکڑانے سے بتدریج ان کے دماغ کی نشوونما متاثر ہوتی ہے، اور وہ ایک عام بچے کی طرح سیکھنے، سمجھنے اور رابطہ کاری کے عمل سے گزرنے کے بجائے اسکرین تک محدود ہوجاتے ہیں۔
٭ بچے اور ٹین ایجرز سیل فون پر سوشل میڈیا یا آن لائن گیمنگ، کارٹون یا ٹک ٹاک وغیرہ میں سے کس میں زیادہ وقت صرف کرتے ہیں؟
بچوں کی فطرت میں تجسس ہوتا ہے، وہ کھوجنا چاہتے ہیں۔ سیل فون میں انہیں جو بھی چیز سامنے دکھائی دے گی وہ اسے ایکسپلور کرتے چلے جائیں گے۔ چاہے وہ کوئی گیم ہو، یا ٹک ٹاک وغیرہ کا کوئی کلپ۔ یعنی کوئی بھی ایسی چیز جس سے بچہ لطف محسوس کررہا ہو وہ اسے دیکھنے یا کھیلنے میں مصروف ہوجائے گا۔ چنانچہ ہم سو فی صد یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ بچےموبائل پر گیم زیادہ کھیلتے ہیں یا پھر سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، تاہم ایک بات یقینی ہے کہ گیمنگ ہو یا سوشل میڈیا دونوں ہی بچے کے لیے یکساں طور پر نقصان دہ ہیں کیونکہ ان میں مصروف رہتے ہوئے وہ باقی دنیا سے کٹ جاتا ہے۔
٭سیل فون اور سوشل میڈیا کے حد سے زیادہ استعمال کے بچوں کی جسمانی صحت پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟
اس سلسلے میں ڈاکٹر چنی لال نے بتایا کہ اسکرین پر طویل وقت تک نظریں جمائے رکھنے سے رفتہ رفتہ بچوں کی بینائی متاثر ہونے لگتی ہے اور ان کی نظر کمزور ہوجاتی ہے۔ پھر یہ کہ گھنٹوں بیٹھے رہنے کی وجہ سے جسمانی سرگرمی صفر ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ان بچوں کا وزن بھی بڑھ جاتا ہے۔ تیسرے یہ کہ ان بچوں کے کھانے پینے میں توازن نہیں رہتا، یا تو وہ کھانا کھانا بھول جاتے ہیں یا پھر سیل فون کی اسکرین پر نظریں جمائے کھاتے ہی چلے جاتے ہیں۔ بچوں کو احساس نہیں رہتا کہ وہ کیا کھارہے ہیں اور کتنی مقدار میں کھارہے ہیں۔
٭اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کی لت میں مبتلا بچوں کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر چنی لال کا کہنا تھا کہ ایسے بچوں اور ٹین ایجرز کا آدھے سے زیادہ علاج تو یہ ہے کہ والدین پہلے اپنی اصلاح کریں۔ عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ گھر میں والدین بھی بیشتر وقت سیل فون میں مصروف رہتے ہیں تو اس سے بچے کو یہ پیغام ملتا ہے کہ جب امی یا ابو موبائل فون دیکھ رہے ہیں تو میں کیوں نہیں دیکھ سکتا۔ یہ ضروری ہے کہ آپ بچوں کے لیے وقت کی تقسیم کریں۔ ان کے لیے پڑھائی، دوستوں کے ساتھ کھیل کود کے ساتھ ساتھ موبائل فون کے استعمال کا بھی وقت مقرر کردیں، کیونکہ آج کے دور میں بچے کو سیل فون سے یکسر دور رکھنا ممکن نہیں۔ گھر میں بچہ محفوظ ماحول میں رہتے ہوئے موبائل فون پر غلط چیزیں دیکھنے سے بچ سکتا ہے، اگر آپ اس سے سیل فون بالکل چھین لیں گے تو وہ ردعمل میں گھر سے باہر جا کر کہیں زیادہ بری چیزیں دیکھ سکتا ہے اور غلط صحبت میں بیٹھ سکتا ہے۔ چنانچہ والدین بچوں کو موبائل فون ضرور دیں مگر اس کا وقت مقرر کریں اور سیل فون پر بچے کی سرگرمیوں پر کڑی نگاہ بھی رکھیں۔ والدین یہ بھی کریں کہ موبائل فون کو کسی چیز سے منسلک کردیں کہ مثلاً بچے سے کہیں کہ پہلے اپنی پڑھائی یا ہوم ورک کرلو تو پھر موبائل ملے گا، پھر مقررہ وقت ختم ہونے پر اسے فون رکھ دینے کے لیے کہیں، بچہ آپ کی بات مانے تو اسے سراہیں اور شاباش دیں، اور پیار کریں۔
٭کیا ان بچوں کا ادویاتی علاج بھی کیا جاتا ہے؟
ڈاکٹر چنی لال نے کہا کہ عموماً ان بچوں کے علاج کے لیے ادویات کی ضرورت نہیں پڑتی، چونکہ بچوں کی عمر اتنی زیادہ نہیں ہوتی، عام طور پر موبائل کی لت میں مبتلا بیشتر بچوں کی عمریں دس سے انیس سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ تو بطور علاج ہم والدین سے کہتے ہیں کہ وہ بچوں کو مناسب وقت دیں، اور ان کے ساتھ کیرم بورڈ، لوڈو وغیرہ کھیلیں اور اسی طرح کی دیگر کوئی بھی سرگرمی جسے بچے سیل فون کا متبادل سمجھ سکیں۔ بچوں کے لیے موبائل فون کے استعمال کو محدود کریں کہ آپ پڑھائی کرتے ہوئے، کھانا کھاتے ہوئے یا کسی مہمان کے سامنے فون کو ہاتھ نہیں لگائیں گے، مگر دن میں آدھا یا ایک گھنٹہ انہیں موبائل استعمال کرنے دیں۔
ڈاکٹر چنی لال کا کہنا تھا کہ عمومی طور پر ہم ان بچوں کے علاج میں ادویات سے گریز کرتے ہیں مگر کبھی کبھار ادویات تجویز کرنا ضروری ہوجاتا ہے، اس صورت میں کہ جب سیل فون ایک لت اور نشہ بن جائے، اسے ہم نفسیات کی اصطلاح میں Obsessive-Compulsive Disorder یا او سی ڈی کہتے ہیں۔ یہ وہ صورت حال ہے جب بعض اوقات بچے موبائل فون کا استعمال نہیں بھی کرنا چاہتے مگر اس سے دور رہنا ان کے لیے بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ تو اس کے تدارک کے لیے ہم متعلقہ دوائیں بہت تھوڑی مقدار میں دینا شروع کرسکتے ہیں، مگر اس میں بھی بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ ان ادویہ کے مضر اثرات بھی ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ بچوں کے علاج میں ادویہ سے زیادہ والدین کا کردار اہم ہوتا ہے۔
٭ بچوں پر سیل فون اور سوشل میڈیا کے اثرات حوالے سے پاکستان میں کوئی جامع تحقیق ہوئی ہے؟
اس سلسلے میں ڈاکٹر چنی لال نے بتایا کہ بدقسمتی سے ایسی کوئی جامع تحقیق نہیں ہے جس کا میں کوئی حوالہ دے سکوں، لیکن چھوٹے پیمانے پر، میڈیکل کالج کی سطح پر یا ادارہ جاتی سطح پر سیل فون اور سوشل میڈیا وغیرہ کے استعمال کے اثرات پر تحقیق ہوئی ہے۔ تاہم جامع تحقیق ہونی چاہیے اور اس حوالے سے حکمت عملی وضع کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
موبائل ...... نشے جیسے اثرات
ڈاکٹر چنی لال نے بتایا کہ سیل فون دیکھتے ہوئے بچوں یا بڑوں کے دماغ کے وہی حصے فعال ہوتے ہیں جو کوئی نشہ کرتے ہوئے فعال ہوتے ہیں۔ اگر آپ کوئی بھی ایسی چیز دیکھتے ہیں جس میں آپ کو لطف یا لذت محسوس ہورہی ہے تو اس دوران دماغ سے ڈوپامین نامی ہارمون خارج ہوتا ہے۔ کسی فرد کے نشہ کرنے کے دوران بھی دماغ سے اسی ہارمون کا اخراج ہوتا ہے۔
ڈاکٹر چنی لال کا کہنا تھا کہ سیل فون سے جڑے اس نشے کو انٹرنیشنل کلاسیفکیشن آف ڈیزیز میں 'انٹرنیٹ ایڈکشن' یعنی 'انٹرنیٹ کا نشہ' کا نام دیا گیا ہے۔ جیسے کسی نشے کو چھوڑنے کے اثرات ہوتے ہیں اسی طرح اس لت سے جان چھڑانے کے بھی مابعد اثرات ہوتے ہیں۔ کچھ نشے چھوڑنے کی جسمانی اور کچھ کی نفسیاتی علامات یا اثرات ہوتے ہیں جیسے بے چینی، بے آرامی، اضطراب، گھبراہٹ وغیرہ۔ یہی علامات ان بچوں میں دیکھی جاسکتی ہیں جنہیں موبائل فون سے دور کردیا جائے۔