فیضان رمضان

اس مبارک مہینے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اﷲ عزوجل نے اس میں قرآن پاک نازل فرمایا ہے۔


پس جوکوئی ماہ رمضان کا پہلا روزہ رکھتا ہے تو اﷲ عزوجل مہینے کے آخر دن تک اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ فوٹو: فائل

خدائے رحمٰن عزوجل کا کروڑ ہا کروڑ احسان کہ اس نے ہمیں ماہ رمضان جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرمایا۔

ماہ رمضان کے فیضان کے کیا کہنے! اس کی تو ہر گھڑی رحمت بھری ہے۔ اس مہینے میں اجر و ثواب بہت بڑھ جاتاہے۔ نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گناکردیا جاتا ہے۔ بلکہ اس مہینے میں تو روزہ دار کا سونا بھی عبادت میں شمار کیا جاتاہے ۔ عرش اٹھانے والے فرشتے روزہ داروں کی دعا پر آمین کہتے ہیں اور ایک روایت کے مطابق '' رمضان کے روزہ دار کے لیے دریا کی مچھلیاں افطار تک دعائے مغفرت کرتی رہتی ہیں''۔ (الترغیب و التر ھیب)

روزہ باطنی عبادت ہے، کیوں کہ ہمارے بتائے بغیر کسی کو یہ علم نہیں ہوسکتا کہ ہمارا روزہ ہے اور اﷲ عزوجل باطنی عبادت کو زیادہ پسند فرماتا ہے۔ ایک حدیث پاک کے مطابق ''روزہ عبادت کا دروازہ ہے''۔

اس مبارک مہینے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اﷲ عزوجل نے اس میں قرآن پاک نازل فرمایا ہے۔ چنانچہ مقدس قرآن میں خدائے رحمٰن عزوجل کا نزول قرآن اور ماہ رمضان کے بارے میں فرمان عالیشان ہے،

ترجمہ کنز الایمان: رمضان کا مہینہ، جس میں قرآن اترا، لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اورفیصلے کی روشن باتیں، تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو، تو اتنے روزے اور دنوں میں۔ اﷲ عزوجل تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے تم گنتی پوری کرو اور اﷲ عزوجل کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزارہو۔( سورۃ البقرہ )

ان آیات مقدسہ کے ابتدائی حصہ شھر رمضان الذی کے تحت مفسر شہیر حضرت مفتی احمد یا ر خان نعیمی رحمتہ اﷲ تعالی علیہ تفسیر نعیمی میں فرماتے ہیں، ''رمضان ''یا تو''رحمٰن عزوجل'' کی طرح اﷲ عزوجل کا نام ہے۔ چونکہ اس مہینہ میںدن رات اﷲ عزوجل کی عبادت ہوتی ہے ۔ لہٰذا اسے شہر رمضان یعنی اﷲ عزوجل کا مہینہ کہاجاتا ہے۔ جیسے مسجد وکعبہ کو اﷲ عزوجل کا گھر کہتے ہیں کہ وہاں اﷲ عزوجل کے ہی کام ہوتے ہیں۔ ایسے ہی رمضان اﷲ عزوجل کا مہینہ ہے کہ اس مہینے میں اﷲ عزوجل کے ہی کام ہوتے ہیں۔

روزہ تراویح وغیرہ تو ہیں ہی اﷲ عزوجل کے۔ مگربحالت روزہ جو جائز نوکری اورجائز تجارت وغیرہ کیجاتی ہے وہ بھی اﷲ عزوجل کے کام قرار پائے۔ اس لئے اس ماہ کا نام رمضان یعنی اﷲ عزوجل کا مہینہ ھے۔ یا یہ رمضاء سے مشتق ہے۔ رمضاء موسم خریف کی بارش کو کہتے ھیں۔ جس زمین دھل جاتی ہے اور ربیع کی فضل خوب ہوتی ہے۔ چونکہ یہ مہینہ بھی دل کے گرد و غبار دھو دیتا ہے اور اس سے اعمال کی کھیتی ہری بھری رہتی ہے اس لیے اسے ر مضان کہتے ہیں۔ ''ساون'' میں روزانہ بارشیں چاہئیں اور '' بھادوں'' میں چار، پھر ''اسار'' میں ایک۔ اس ایک سے کھیتیاں پک جاتی ہیں۔ توا س طرح گیارہ مہینے برابر نیکیاں کی جاتی رہیں۔

پھر رمضان کے روزوں نے ان نیکیوں کی کھیتی کو پکا دیا۔ یا یہ ''رمض '' سے بنا ہے۔ جس کے معنی ہیں ''گرمی یا جلنا'' ۔ چونکہ اس میں مسلمان بھوک پیاس کی تپش برداشت کرتے ہیں یا یہ گناہوں کی جلا ڈالتا ہے، اس لیے اسے رمضان کہا جاتا ہے۔ (کنزالعمال کی آٹھویں جلد کے صفحہ دو سو سترہ پر حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ نبی کریم روف رحیم ﷺ نے ارشاد فرمایا ، اس مہینے کا نام رمضان رکھا گیا ہے کیونکہ یہ گناہوں کو جلادیتا ہے)۔

بعض مفسرین نے فرمایا کہ جب مہینوں کے نام رکھے گئے تو جس موسم میں جو مہینہ تھا اسی سے اس کا نام ہوا۔ جو مہینہ گرمی میں تھا اسے رمضان کہہ دیا اور جو موسم بہار میں آیا اسے ربیع الاول اور جو سردی میں تھا اسے جمادی الاولیٰ کہا گیا۔ اسلام میں ہر نام کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے اور نام کام کے مطابق رکھا جاتا ہے دوسری اصطلاحات میں یہ بات نہیں۔ ہمارے یہاں بڑے جاہل کا نام فاضل اور بزدل کا نام ''شیر بہادر'' ہوتا ہے اسلام میں کوئی بات بے مقصد نہیں۔ رمضان بہت خوبیوں کا جامع تھا اس کا نام رمضان ہوا۔

سیدنا ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، مکی مدنی سلطان ، رحمت عالمین ﷺ کا فرمان عالیشان ہے ،''جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو آسمانوں اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور آخر رات تک بند نہیں ہوتے جوکوئی بندہ اس ماہ مبارک کی کسی بھی رات میں نماز پڑھتا ہے تو اﷲ عزوجل اس کے ہر سجدے کی عوض (یعنی بدلہ میں ) اس کے لیے پندرہ سو نیکیاں لکھتا ہے اس کے لیے جنت میں سرخ یاقوت کا گھر بناتا ہے۔ جس میں ساٹھ ہزار دروازے ہوں گے اور ہر دروازے کے پٹ سونے کے بنے ہوں گے جن میں یا قوت سرخ جڑے ہوں گے۔

پس جوکوئی ماہ رمضان کا پہلا روزہ رکھتا ہے تو اﷲ عزوجل مہینے کے آخر دن تک اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے اور اس کے لیے صبح سے شام تک ستر ہزار فرشتے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں۔ رات اور دن میں جب بھی وہ سجدہ کرتاہے اس ہر سجدے کے عوض (یعنی بدلے ) اسے (جنت میں) ایک ایک ایسا درخت عطا کیا جاتا ہے کہ اس کے سائے میں گھوڑے سوار پانچ سو برس تک چلتا رہے۔'' (شعب الایمان)

اﷲ عزوجل! خدائے حنان و منان عزوجل کا کس قدر عظیم احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنے حبیب ذیشان، رحمت عالمین ﷺ کے طفیل ایسا ماہ رمضان عطا فرمایا کہ اس ماہ مکرم میں جنت کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں۔ اور نیکیوں کا اجر اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ بیان کردہ حدیث کے مطابق رمضان المبارک کی راتوں میں نماز ادا کرنے والے کو ہر ایک سجدے کے بدلے میں پندرہ سو نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔ نیز جنت کا عظیم الشان محل مزید برآں۔ اس حدیث مبارک میں روزہ داروں کے لیے بشارت عظمیٰ بھی موجود ہے کہ صبح تا شام ستر ہزار فرشتے ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہیں گے۔

حضرت سیدنا جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت عالمین ، حبیب رحمن عزوجل و ﷺ کا فرمان ذی شان ہے، ''میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی بھی نبی علیہ السلام کو نہ ملیں۔

پہلی یہ کہ جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اﷲ عزوجل ان کی طرف نظررحمت فرماتا ہے اور جس کی طرف اﷲ عزوجل نظر رحمت فرمائے گا اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔

دوسری یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو (جو بھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔

تیسرے یہ کہ فرشتے ہر رات اور دن ان کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔چوتھے یہ کہ اﷲ تعالیٰ جنت کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتاہے، میرے (نیک) بندوں کے لیے مزین (یعنی آراستہ) ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مشقت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے۔ پانچواں یہ کہ جب ماہ رمضان کی آخری رات آتی ہے تو اﷲ عزوجل سب کی مغفرت فرمادیتا ہے ''۔ قوم میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کی، یارسول اﷲ ﷺ کیا یہ لیلۃ القدر ہے؟ ارشاد فرمایا،''نہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کاموں سے فارغ ہوجاتے ہیں تو انہیں اجرت دی جاتی ہے۔''

حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے، حضور پرنور شافع یوم النشور ﷺ کا فرمان پرسرور ہے،'' پانچوں نمازیں اور جمعہ اگلے جمعہ تک اور ماہ رمضان اگلے ماہ رمضان تک گناہوں کا کفارہ ہیں جب تک کہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے۔'' ( صحیح مسلم ) اﷲ عزوجل رمضان المبارک میں رحمتوں کی چھماچھم بارشیں اور گناہ صغیرہ کے کفارے کا سامان ہوجاتا ہے۔ گناہ کبیرہ توبہ کرنے سے معاف ہوتے ہیں ۔ توبہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جو گناہ ہوا خاص اس گناہ کا ذکر کرکے دل کی بیزاری اور آئندہ اس سے بچنے کا عہد کرکے توبہ کرنی ہوگی۔ مثلاًجھوٹ بولا، یہ کبیرہ گناہ ہے۔

بارگاہ خداوندی عزوجل میں عرض کرے،''یااﷲ عزوجل ! میں نے جو یہ جھوٹ بولا اس سے توبہ کرتا ہوں اور آئندہ نہیں بولوں گا۔ یہ کہتے وقت دل میں یہ ارادہ بھی ہو کہ جو کچھ کہہ رہا ہوں ایسا ہی کروں گاجبھی توبہ ہے، اگر بندے کی حق تلفی کی ہے تو توبہ کے ساتھ اس بندے سے معاف کروانا بھی ضروری ہے۔ ماہ رمضان المبارک کے فضائل سے کتب احادیث مالا مال ہیں۔ رمضان المبارک میں اس قدر برکتیں اور رحمتیں ہیں کہ ہمارے پیارے آقا ﷺ نے یہاں تک ارشاد فرمایا،''اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ کاش! پور ا سال رمضان ہی ہو۔'' (صحیح ابن خزیمہ )

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں