خارجہ پالیسی
پاک، امریکا تعلقات کے اثرات پاکستان اور اس کی سیاست پر مرتب ہوتے ہوئے صاف نظر آتے ہیں۔
امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔ یہ تعلقات وقتاً فوقتاً نشیب و فراز سے گزرتے رہے ہیں۔ کبھی ان میں چڑھاؤ آتا ہے اورکبھی اتار۔کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تعلقات اٹوٹ ہیں اورکبھی یوں لگتا ہے کہ ان کے منقطع ہونے کا وقت آپہنچا ہے۔
سچ پوچھیے تو ان تعلقات کی نوعیت بہت عجیب و غریب ہے۔ تاہم امریکا کی قومی سیکیورٹی کی عینک کے شیشوں سے دیکھا جائے تو بات کچھ سمجھ میں آجاتی ہے اور نان الیون واقعے کے بعد تو صورت حال کی دھندلاہٹ ختم ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔پاک امریکا تعلقات میں جب بہتری آتی ہے یوں لگتا ہے کہ جیسے امریکا ہی دنیا میں پاکستان کا واحد سچا دوست ہے ' تب امریکا پاکستان کو بھرپور امداد دیتا ہے اور بہت سے معاملات میں اس کا ساتھ بھی دیتا ہے۔
عسکری اور دیگر شعبوں میں پاکستان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرتا ہے لیکن جب امریکا کے وہ فوری مفادات پورے ہو جاتے ہیں اور اس کو پاکستان کی فوری ضرورت نہیں رہتی تو وہ ایک دم پانسا پلٹ لیتا ہے اور یوں بے رخی اختیار کرتا ہے جیسے جانتا ہی نہیں۔ تعلقات کے ان اتار کے دنوں میں وہ پاکستان کے خلاف بیان بازی اور مختلف حربوں کے ذریعے دباؤ کی پالیسی اختیار کر لیتا ہے۔روس کے ساتھ افغان جنگ کے دنوں میں امریکا نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا اور اسے معاشی امداد بھی دیتا رہالیکن جب روس افغانستان سے نکل گیا اور امریکا کا مقصد پورا ہو گیا تو اس نے پاکستان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ جھٹک دیا۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکا میں تشویش ابھرنے لگی اور پاکستان پر دباؤ بڑھنے لگا کہ وہ ایٹمی پروگرام رول بیک کرے ۔
پاک، امریکا تعلقات کے اثرات پاکستان اور اس کی سیاست پر مرتب ہوتے ہوئے صاف نظر آتے ہیں۔ امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے بارے میں قیاس آرائیوں کے حوالے سے بہت سی باتیں کی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کے امریکا کے ساتھ ماضی کے تعلقات کا جائزہ لینا اہم اور ضروری ہے۔ کسی سپر پاور کے ساتھ تعلقات برابری کی بنیاد پر اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتے جبتک کسی بھی بھی سپر پاور کی پشت پناہی حاصل نہ ہو یا پھر آپ معاشی اور دفاعی اعتبار سے اتنے مضبوط ہوں کہ اس کے مضمرات کو برداشت کرنے کی ہمت اور سکت رکھتے ہیں۔
یوکرین کے معاملے ہی کو لے لیجیے کہ جس میں جانبداری یا غیر جانبداری کے لیے بڑی ہمت اور حوصلہ کی ضرورت ہے کیونکہ ایک طرف طاقتور روس ہے اور دوسری طرف امریکا بہادر ہے لیکن اس صورتحال میں اپنے مفادات کا تحفظ بھی ضروری ہے۔ بقول شاعر:
جب کے دو موذیوں میں ہو کھٹ پٹ
اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ
کشاکش کی صورتحال میں چین کی ڈپلومیسی مثالی ہے جو انتہائی دانش مندی سے کام لے رہا ہے اور دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے سے گریز کررہا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے معاملے میں اپنے ملکی مفادات کو مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے، اس معاملے میں عجلت کے نتائج بہت مہنگے پڑسکتے ہیں۔
خارجہ پالیسی مرتب کرنے میں جذباتیت کو ایک جانب رکھنا عقلمندی کا بنیادی تقاضہ ہے کیونکہ یہ دو انسانوں کے باہمی تعلقات سے بالکل الگ اور قطعی مختلف ہے۔ ڈپلومیسی کے تقاضے انسانی تعلقات کے تقاضوں سے کوئی مماثلت نہیں رکھتے کیونکہ ان کا دار و مدار موقع محل کی ضرورت کے مطابق ہوتا ہے۔ اس شعبے میں گلوں شکوں کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ضرورت۔ بین الاقوامی تعلقات اور معاہدات وقت اور حالات کے تابع ہوتے ہیں۔کوئی بھی معاہدہ اس وقت تک قائم رہتا ہے، جب تک فریقین کے مفادات محفوظ ہوں۔ پاک امریکا تعلقات کا ہنی مون بھی اس وقت تک قائم رہا جب تک دونوں کے باہمی مفادات اس کے متقاضی رہے۔
تیسری دنیا کے ممالک کو بڑی طاقتوں کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کا خواب کبھی نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ کہاں راجا بھوج اورکہاں گنگوا تیلی۔ کسی سپر پاور کو بے دھڑک یا ٹکہ سا جواب دینا کہ '' نہیں! جناب ہم آپ کی بات بالکل نہیں مانتے'' ڈپلومیسی کے تقاضوں کے عین منافی ہے۔ ایسا کرنے کے سنگین نتائج کی کئی عبرت ناک مثالیں تاریخ میں موجود ہیں۔
اگر پاکستان ایک آزاد خارجہ پالیسی کا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ وہ پہلے اپنے یہاں معاشی استحکام قائم کرے اور بیساکھیوں کے بجائے اپنے پیروں پرکھڑا ہو۔