'' دروازہ اب بند ہے، اسے یا تو میں کھول سکتا ہوں یا تم، بتاؤ فزیو کے بقایاجات ادا کرو گے یا مجھ سے پٹنے کیلیے تیار ہو، تم مجھے جانتے ہو اتنا ماروں گا کہ کئی دن تک اسپتال میں ہی رہنا پڑے گا'' یہ ڈائیلاگز سن کر خوفزدہ دوسرا شخص کہنے لگا کہ ''ارے نہیں بھائی مار پٹائی کی کیا ضرورت ہے، میں ابھی پیسے ادا کر دیتا ہوں'' یہ سن کر پہلے شخص نے دروازہ کھولا اور دوسرا دم دبا کر بھاگ نکلا''
اب دوسری کہانی ، پاکستانی کرکٹ ٹیم بھارت کے دورے پر گئی ہوئی تھی، وہاں ایک اسٹار کرکٹر کی اہلیہ کو ایک دوسرے اسٹار کرکٹر نے چھیڑ دیا، جب شوہر کو یہ بات پتا چلی تو وہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گیا، بڑی مشکل سے بات ختم ہوئی۔
آپ کو لگ رہا ہو گا کہ شاید میں کسی پرانی فلم کے سینز لکھ رہا ہوں لیکن دراصل یہ نائنٹیز کے دور کی کچھ باتیں ہیں، ایسی لاتعداد اسٹوریز آپ کو اس زمانے کے اسٹارز سے سننے کو ملیں گی، بیشتر ایسی ہیں جو لکھی بھی نہیں جا سکتیں،اس زمانے میں کھلاڑی ایک دوسرے پر بیٹ تک اٹھا لیتے تھے، چونکہ ٹیم میں ایک سے بڑا ایک اسٹار موجود تھا اس لیے سب کی ایگو بھی بہت تھی، موجودہ دور میں ہر کسی کے پاس موبائل فون ہے، پریکٹس سیشن میں بھی کوئی کھلاڑی ساتھی سے کچھ کہے تو وہ وائرل ہو جاتا ہے۔
اب پلیئرز بھی محتاط ہیں، ڈسپلن بھی پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہو چکا، پھر بھی اکثر کوئی نہ کوئی بات سامنے آ ہی جاتی ہے، جیسا کہ گذشتہ دنوں شاہین شاہ آفریدی کی محمد یوسف سے تلخی کی خبریں سامنے آئیں، یہ واقعہ برطانیہ کا تھا لیکن اب ورلڈکپ ختم ہونے کے بعد افشا ہوا، نیٹ پریکٹس کے دوران شاہین نے اوور اسٹیپ ہونے کی نشاندہی پر بیٹنگ کوچ کو کام سے کام رکھنے کا کہا، بعد میں معذرت بھی کر لی، جب ٹیمیں ٹور پر ہوں تو ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن ان سے بچنا چاہیے، اگر یہ اتنی بڑی بات تھی تو شاہین کو منیجر نے واپس کیوں نہ بھیجا اور اگر وہ اسے سنگین واقعہ نہیں سمجھ رہے تھے تو اچانک کسی کی رپورٹ سے صرف یہی واقعہ کیوں لیک ہوا، یہ سوچ کر ایک مشہور ڈرامہ سیریل کا وہ ڈائیلاگ یاد آ جاتا ہے کہ '' کچھ تو گڑبڑ ہے''۔ یقین مانیے اگر آج کے دور میں شعیب اختر کھیل رہے ہوتے تو سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں ٹاپ پر ان کا نام آتا، مختلف اوقات پر سزا کو ملاتے تو 50 سال کی پابندی لگ گئی ہوتی، ایک بار انھوں نے ساتھی پر بیٹ اٹھایا تھا تو انھیں ورلڈکپ سے واپس بھیج دیا گیا تھا، شاہین کے حوالے سے ایسی رپورٹس سامنے نہیں آئیں، ان سے ایک غلطی ہوئی جو نہیں ہونی چاہیے تھی، سینئرز کا احترام سب کو کرنا چاہیے لیکن انسان خطا کا پتلا ہے۔
ایک غلطی پر جب انھیں معافی مل چکی تھی تو اس واقعے کو بڑا نہیں بنانا چاہیے، ہاں اگلی بار ایسا کچھ ہو تو ضرور موقع پر سزا دیں، شاہین کے ساتھ بڑا غلط ہوا، صرف 5 میچز کی ایک سیریز میں شکست کی بنا پر قیادت سے ہٹا دیا گیا، وہ بیچارہ ورلڈکپ کی پلاننگ کر رہا تھا، عامر اور عماد کو واپس آنے پر آمادہ کیا اور اچانک میڈیا سے پتا چلا کہ کپتانی چھننے والی ہے،بعد میں ایسا ہی ہوا، پھر من گھڑت بیان میڈیا کو جاری کر دیا گیا، آپ کسی کو اپنا بہت قریبی سمجھیں، اس کا بہت خیال رکھیں، خود سے زیادہ اس پر اعتماد کریں،برے وقت میں اس کے کام آئیں لیکن وہی شخص آپ کے ساتھ غلط کرے تو دکھ تو ہوتا ہی ہے۔
شاہین کے ساتھ بھی دوستوں نے دھوکا کیا، ہمارے یہاں 50 سال کی عمر تک پہنچ کر بھی لوگوں کو عقل نہیں آتی تو ہم ایک 24 سال کے لڑکے سے کیسے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ مصباح الحق جیسی سمجھدار شخصیت بن جائے گا، حال ہی میں مجھ سمیت بعض صحافیوں کی قومی ٹیسٹ کوچ جیسن گلیسپی سے ملاقات ہوئی، وہاں ایک سابق ٹیسٹ فاسٹ بولر کو بھی بلایا گیا تھا، وہ شان سے چلتے ہوئے آئے نہ کسی سے سلام نہ دعا اور سیدھے نشست پر براجمان ہو گئے، ان کا رویہ دیکھ کر لگ رہا تھا کہ موجودہ دور کا کوئی سپراسٹار آ گیا ہے، جب چند وکٹیں لینے والے کسی سابق کھلاڑی کی یہ اکڑ ہو سکتی ہے تو موجودہ کا کیا حال ہو گا۔
یہ بڑوں کا کام ہے کہ انھیں سمجھائیں اور کنٹرول کریں،شاہین اس وقت سے لاہور قلندرز کے ساتھ ہیں جب ان کی داڑھی مونچھیں بھی نہیں نکلی تھیں وہاں کیوں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، وجہ منیجر ثمین رانا اور اونر عاطف رانا ہیں، انھوں نے پیسر کو اچھے انداز سے ہینڈل کیا، ٹیم کے 11 کرکٹرز الگ کردار ہوتے ہیں انھیں سنبھالنے کیلیے کسی ''فادر فیگر'' شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے، یہاں بدقسمتی سے کسی کرکٹر کے بچپن کے کوچ یا کسی بورڈ آفیشل کے دوست کو خوش کرنے کیلیے منیجر بنا دیا جاتا ہے، دورئہ آسٹریلیا میں 2 سینئر بیٹرز نے غیر ملکی کوچ کو انھیں کچھ سکھانے سے باز رہنے کا کہا تھا، یہ واقعات بھی رپورٹ کا حصہ ہیں لیکن باہر نہیں آئے، شاہین ہوں یا بابر غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے، انھیں ضرور سزا دیں لیکن کسی خاص مقصد کو پورا کرنے کیلیے کارروائی نہیں ڈالنا چاہیے۔
اس وقت ایسا لگتا ہے کہ کپتان بابر اعظم کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کیلیے شاہین کیخلاف مہم چلائی جا رہی ہے، وہ ایسا لڑکا نہیں کہ جان بوجھ کر انڈر پرفارم کرے، ورلڈکپ میں امریکا کیخلاف سست بیٹنگ کیا شاہین نے کی؟ سپراوور کیاانھوں نے کرایا؟ بھارت کیخلاف میچ میں 120 رنز کا ہدف کیا شاہین کی وجہ سے حاصل نہ ہوا؟ نہیں ناں تو پھر ایک کو ولن کیوں بنایا جا رہا ہے، برطانیہ اور امریکا میں شاہین کی بولنگ تو بہتر رہی تھی، بابر نے قوم سے معافی مانگی نہ خراب کھیل کی وضاحت دی، وہ چپ کر کے سائیڈ میں بیٹھے ہیں،ملبہ شاہین پر گرایا جا رہا ہے، پلیز شاہین کو شعیب اختر نہ بنائیں، ان کا ڈسپلن بہت اچھا ہے، ایک، آدھ غلطی تو کسی سے بھی ہو سکتی ہے، شاہین اور بابر دونوں ہی ہمارے اسٹارز ہیں،ایک کو بچانے کیلیے دوسرے کو قربانی کا بکرا بنایا گیا تو اس سے ملکی کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا، یقینی طور پر پی سی بی بھی ایسا نہیں چاہے گا لہذا جوش نہیں ہوش سے کام لینا چاہیے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)