9 مئی کے 12 مقدمات میں بانی پی ٹی آئی کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
عمران خان نے اپنے اوپر عائد ہونے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میں نے کسی کو ہنگامہ آرائی پر نہیں اکسایا
انسداد دہشت گردی لاہور کی عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا (فوٹو فائل)
انسداد دہشت گردی عدالت نے 9 مئی کو جلاؤ گھیراؤ کے 12 مقدمات میں بانی پی ٹی آئی کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت لاہور کے ایڈمن جج خالد ارشد نے نو مئی سے متعلق مقدمات سماعت کی جس میں بانی پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل سے بذریعہ واٹس ایپ ویڈیو کال پر حاضری دی اور بیان دیتے ہوئے سانحہ 9 مئی کے واقعات کی ذمہ داری لینے سے انکار کردیا۔
عمران خان نے تمام الزامات مسترد کر تے ہوئے کہا مجھ پر بے بنیاد الزامات ہیں، میں 9 مئی کو تو وہاں موجود ہی نہیں تھا، میں نے یہ واقعات نہیں کرائے، میرا ان واقعات سے کوئی تعلق نہیں، میں تو اسلام آباد میں تھا، مجھے وہاں شیشے توڑ کر گرفتار کیا گیا،میں نے تو کہا کہ جب بھی احتجاج کرنا ہے پرامن کرنا ہے، ہمارے لوگ پرامن تھے جن پر گولیاں چلائی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے نو مئی کے واقعہ پر جوڈیشل انکوائری کے لیے درخواست دی،ابھی تک یہ درخواست زیر التوا ہے،ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے، جس کے گھر میں چاہتے ہیں یہ داخل ہوکر چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہیں۔ مجھ پر تمام الزامات غلط ہے میں نے کسی کو نہیں اکسایا،مجھے کہتے ہیں معافی مانگیں میں کہتا ہوں ظلم انہوں نے کیا معافی بھی وہ مانگیں،تمام سی سی ٹی وی فوٹیجز غائب کر دی گئیں۔
عمران خان نے بیان میں کہا کہ کیپٹل ہل میں بھی ویڈیو شواہد کی بنیاد پر سزائیں ہوئیں،میں نے 28 سال میں کسی کو پرتشدد احتجاج کا نہیں کہا، میرے گھر پر حملہ کیا گیا،میں نے پر امن احتجاج کا کہا تھا،نو مئی جلاؤ گھیراؤ کی جوڈیشل انکوئری کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دے رکھی ہے،میں نے چیف جسٹس پاکستان کو یاد دہانی کروائی ہے ہماری درخواست پر سماعت کریں۔
جج خالد ارشد نے ریمارکس دیئے کہ آپکا بیان اور وکلا کے دلائل آرڈر کا حصہ بناؤں گا،آپکو سن لیا ہے قانون کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ عدالت نے بانی پی ٹی آئی کی حاضری وٹس ایپ کے ذریعے لگائی، تفتیشی افسران نے مختلف 12 مقدمات میں بانی پی ٹی آئی کا جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے استدعا کی۔
سرکاری وکیل نے مؤقف اپنایا کہ لائن حاضری بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے، ورنہ ثبوت ہی ریکارڈ نہ ہوں عدالت نے استفسار کیا کہ آپ بانی پی ٹی آئی کو عدالت میں پیش کیوں نہیں کر رہے؟
اس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ سیکیورٹی کی وجہ سے انہیں عدالت پیش نہیں کر سکتے اور ضمنی میں یہ بات لکھی ہوئی ہے۔ عمران خان کے وکیل ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے کہا کہ ایسا کوئی حکم ریکارڈ پر موجود نہیں جس سے یہ واضح ہو کہ عمران خان کو ذاتی حثیت میں پیش نہیں کیا جاسکتا ہے، عمران خان کو 9 مئی کو اسلام آباد میں گرفتار کیا گیا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ گرفتاری درست ہے اور سپریم کورٹ نے کہا کہ گرفتاری درست نہیں ہے، یہاں اب فیصلہ کس کا مانا جائے گا وہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے، پورا پاکستان آرٹیکل 4 اور 5 پر کھڑا ہے، پاکستان کا آئین ہر شہری کو لبرٹی فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا اعتراض ہے کہ پہلے یہ طے کیا جائے کہ کیا ایسے سماعت کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ قانون کے مطابق ملزم کو گرفتاری ڈالنے کے بعد کمرہ عدالت میں پیش کرنا ہوتا ہے۔
وکیل بانی پی ٹی آئی کا مزید کہنا تھا کہ قانون کے مطابق 24 گھنٹوں میں ملزم کو متعلقہ عدالت کے روبرو پیش کرنا ہوتا ہے مگر یہاں ایسا عمل نہیں کیا جارہا اور اس معاملے میں قانون بڑا واضح ہے۔
وکیل بانی پی ٹی آئی عثمان ریاض نے ATC ایکٹ کے چند نقاط پیش کرنے کی درخواست کی اور اجازت ملنے پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم کو 24 گھنٹوں کے اندر عدالت کے روبرو پیش کرنا لازم ہے، یہاں ایسا عمل نہیں ہو رہا ہے، قانون بہت واضح ہےاگر لیٹ ہو بھی جائیں تو راہدری ریمانڈ لیا جا سکتا ہے۔
اس پر جج نے ریمارکس دیئے کہ اگر حکومت نوٹیفکیشن جاری کردے تو پھر سماعت ہوسکتی ہے۔ وکیل بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ جی بلکل عدالت سماعت کر سکتی ہے لیکن آپکو عدالت اڈیالہ جیل لے کر جانا ہوگی یہ آپکو جھانسے میں لاکر آپ سے غیر قانونی اقدام کروانا چا رہے ہیں ہم اپنے دلائل کو مختصر کرتے ہیں لیکن یہ ایسا نہیں کرسکتے ہیں۔
دوران سماعت انسداد دہشت گردی عدالت لاہور کے پراسکیوٹر نے کہا کہ عمران خان کے وکلاء عدالت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، پراسکیوٹر دہشتگردی عدالت کے اعتراض پر وکیل بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم پراسکیوٹر کے اس بیان پر سخت اعتراض کرتے ہیں عدالت نے ہمیں تسلی سے سنا یہ سراسر الزام ہے۔فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ عدالت پریشان نہیں ہوتی ہے۔
سماعت کچھ دیر وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو لاہور کے پراسیکیوٹر محمد آذر نے عدالت سے استدعا کی کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کا نو مئی کے 12 مقدمات میں 30 دن کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔ پراسکیوٹر کا موقف تھا کہ بانی پی ٹی آئی وائس میچ، پولی گراف ٹیسٹ، فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ کروانا ہے۔
تفتیشی افسر جناح ہاؤس مقدمہ محمد اشرف نے کہا کہ سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر بانی پی ٹی آئی کو ذاتی حثیت میں پیش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ پنجاب حکومت نے بانی پی ٹی آئی کی واٹس ایپ پر وڈیو کال کے ذریعے حاضری کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے تحفظ کے لیے انکو یہاں پیش نہیں کیا جا سکتا ، سرکاری وکیل نے نوٹیفیکیشن پیش کیا لا اینڈ آرڈر صورتحال کے باعث ملزم کی ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری مکمل کی جائے۔
وکیل بانی پی ٹی آئی کا موقف تھا کہ یہ نوٹیفکیشن صرف جیل ٹرائل یا جیل سماعت تک محدود ہے، پراسکیوشن نے جو نوٹیفکیشن پیش کیا وہ اصل نہیں بلکہ جعلی ہے اور ہمیں یہ نوٹیفکیشن قابل قبول نہیں ہے، عدالت کی فائل میں اصل نوٹیفکیشن لگتا ہے۔
پی ٹی آئی بانی کے وکلا کے اعتراض پر سرکاری وکیل نے اصلی نوٹی فکیشن کیلیے تیس منٹ کا وقت لیا اور بانی پی ٹی آئی کے وکلا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ریمانڈ دینے دیں کیونکہ عمران خان کو جیل میں ہی رہنا ہے۔
وکیل بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ آپ نے قانون کو دیکھنا ہے، مفرضوں پر تو کسٹڈی نہیں دی جاسکتی ہے فاضل عدالت نے کہا کہ چلیں آپ کا یہ پوائنٹ آگیا ہے میں اسکو دیکھ لوں گا۔
وکیل اظہر صدیق نے بانی پی ٹی آئی کو ڈسچارج کرنے کی استدعا کی اور کہا کہ میں اب ریمانڈ سے آگے جانے کی بات کر رہا ہوں، لاہور ہائیکورٹ نے کچھ روز پہلے بڑی زبردست ججمنٹ دی ہے، عدالت نے صنم جاوید کو ایسے ہی مقدمات میں ڈسچارج کیا ہے۔
ایڈوکیٹ اظہر صدیق نے کہا کہ یہ جو آڈیو، ویڈیو کی بات کر رہے ہیں سب پر ہائیکورٹ نے بات کی ہے۔
اس موقع پر انہوں نے لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس اسجد جاوید گھرال اور جسٹس علی ضیاء باجوہ کی ججمنٹ پڑھ کر سنائی جس میں ہائیکورٹ نے سرکار ،پولیس کی بدنیتی پر زبردست احاطہ کیا ہے۔
ایڈوکیٹ اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ انکا مقصد صرف بانی پی ٹی آئی کو گرانا ہے، یہ تحریک انصاف پر پابندی لگانا چاہتے ہیں یہ آپکا کندھا استعمال کرنا چاہتے ہیں، یہ آپ کے کندھے پر تلوار رکھ کر چلانا چاہتے ہیں،یہ ایسے اقدامات کر رہے ہیں پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہورہی ہے، میإ آج اسی لیے آیا ہوں یہ میرا ملک ہے۔
عدالت نے فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا اور تھوڑی دیر بعد محفوظ فیصلہ جاری کردیا۔
جج خالد ارشد نے محفوظ فیصلہ سنایا جس کے مطابق عدالت نے پولیس کی استدعا کو منظور کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کا 10روز کا جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا جبکہ پولیس نے 30 روز کے ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔
بانی پی ٹی آئی کے وکلا نے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کرتے ہوئے مقدمات سے بری کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد بھی کردیا۔