کراچی میں کم عمر بچے اور بچیوں میں ویپ کے استعمال میں خطرناک حد تک اضافہ
اکثر کم عمر بچیاں شوق میں ویپ پیتی ہیں اور یہ شوق انہیں سوشل میڈیا سے پیدا ہو رہا ہے
شہر قائد میں کئی زائد العمر خواتین اور مردوں کے علاوہ کم عمر بچے اور بچیوں میں ویپ کے استعمال کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔
ویپ کے کاروبار سے منسلک لوگوں نے اعتراف کیا ہے کہ نوجوانوں میں یہ لت تیزی سے پھیل رہی ہے اور یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے، پہلے یہ مخصوص دکانوں پر فروخت ہوتا تھا لیکن اب ہر علاقے میں یہ بآسانی دستیاب ہے۔
ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو ویپ پینے سے روکتے نہیں ہیں جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اور حکومت کی جانب سے بھی ویپ کی فروخت کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی ہے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ویپ میں مائع نکوٹین ہوتا ہے جس کا کثرت سے استعمال صحت کے لیے انتہائی مضر ہے، یہ براہ راست پھیپھڑوں کو متاثر کر تا ہے۔
کینسر کے معالج کا کہنا ہے کہ سگریٹ اور ویپ کے استعمال سے پھیپھڑوں کے کینسر میں ایک اندازے کے مطابق 30 فیصد اضافہ ہو گیا ہے لہٰذا اس کے پینے کے رجحان کو کم کرنا ہوگا جس کے لیے آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ سگریٹ اور ویپ کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون نے ویپ کے استعمال اور اس کے نقصانات کے حوالے سے رپورٹ مرتب کی۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق ای سگریٹ کی بہت سی مختلف قسمیں ہیں جو کہ الیکٹرانک نیکوٹین ڈیلوری سسٹم (ENDS) اور الیکٹرانک نان نیکوٹین ڈیلوری سسٹم (ENNDS) کی سب سے عام قسم ہیں۔ یہ سسٹم ایروسول بنانے کے لیے مائع کو گرم کرتے ہیں جو صارف سانس کے ذریعے لیتا ہے، ان نام نہاد ای مائعات میں نیکوٹین ہو سکتی ہے یا نہیں۔ ان میں عام طور پر شامل کرنے والے ذائقے اور کیمیکل بھی ہوتے ہیں جو لوگوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ ای سگریٹ ENDS اور ENNDS کی وسیع تر مصنوعات کے زمرے کا حصہ ہیں، جس میں ای-سگار اور ای پائپ جیسی مصنوعات شامل ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کو تشویش ہے کہ ان مصنوعات کو کھلی مارکیٹ میں صارفین کی مصنوعات کے طور پر اجازت دی گئی ہے اور نوجوانوں کے لیے جارحانہ انداز میں مارکیٹنگ کی گئی ہے۔ فی الحال، 88 ممالک میں کوئی کم از کم عمر نہیں ہے جس پر ای سگریٹ خریدا جا سکتا ہے اور 74 ممالک میں ان نقصان دہ مصنوعات کے لیے کوئی ضابطے نہیں ہیں۔ ای سگریٹ کم از کم 16 سے زائد پرکشش ذائقوں کے ساتھ سوشل میڈیا اور اثر انگیز افراد کے ذریعے بچوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ان میں سے کچھ پروڈکٹس کارٹون کرداروں کا استعمال کرتے ہیں اور ان میں خوبصورت ڈیزائن ہوتے ہیں، جو نوجوان نسل کو پسند کرتے ہیں۔ کچھ کھلونوں اور کھیلوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ بچوں اور نوجوانوں میں ای سگریٹ کے استعمال میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جس کی شرح بہت سے ممالک میں بالغوں سے زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر ای سگریٹ کے مواد کی مختصر نمائش ان مصنوعات کو استعمال کرنے کے زیادہ ارادے کے ساتھ ساتھ ای سگریٹ کے بارے میں زیادہ مثبت رویوں سے وابستہ ہے۔
ماہر سماجیات احمد رضا طیب نے بتایا کہ کراچی میں ہر عمر کے افراد خصوصا نوجوانوں میں ویپ (ای سگریٹ) پینے کے رجحان میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے، اصل میں لوگوں کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ ویپ مضر صحت نہیں ہے جبکہ سگریٹ کا استعمال نقصان دہ ہے۔ صحت کے امور سے متعلق حالیہ ریسرچ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ویپ سیگریٹ کے مقابلے میں زیادہ نقصان دہ ہے۔
انہوں نے شکوہ کیا کہ نوجوان نسل اپنے والدین کے سامنے اگر ویپ پیتی ہے تو والدین اب اسے معیوب نہیں سمجھتے۔ میں نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ کئی والدین نے اپنے سگریٹ پینے والے بچوں کو ان کی یہ عادت چھڑوانے کے لیے انہیں ویپ پینے کی اجازت دے دی۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں ویپ پینے کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، پہلے تو یہ چند ایک مخصوص بڑے اسٹورز یا مالز میں بکتی تھی لیکن اب تو یہ ہر جگہ بآسانی محلوں کی سطح پر دستیاب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویپ کے نقصانات کے حوالے سے آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ای سگریٹ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر تشہیر کی جا رہی ہے جس کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔
خواتین کے مسائل کے حل کے لیے کام کرنے والے ماہر سماجیات شبانہ ایاز نے اس بات کی نشاندہی کی کہ مرد اور نوجوانوں کے ساتھ اب بڑی عمر کی خواتین اور بچیوں میں بھی ویپ کا استعمال بڑھ گیا ہے، یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بچیاں عموماً مختلف فلیور والا ویپ پی رہی ہیں اور کچھ نکوٹین مائع پر مشتمل ویپ کا استعمال کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اکثر کم عمر بچیاں شوق میں ویپ پیتی ہیں اور یہ شوق انہیں سوشل میڈیا سے پیدا ہو رہا ہے، یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر بچیاں سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر اپنی ویڈیوز بناتی ہیں، جس میں وہ شوقیہ ویپ کا استعمال دکھاتی ہیں، انہیں دیکھ کر دوسری خواتین اور کم عمر بچیوں میں اسے پینے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے لہٰذا والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو ویپ کے استعمال سے روکیں کیونکہ یہ میٹھا زہر بچیوں کی صحت کو بھی خراب کر رہا ہے۔
لائنز ایریا میں ایک ہوٹل پر کم عمر نوجوانوں کا ایک گروپ کچہری کر رہا تھا جس میں 16 سے 20 سال کی عمر کے لڑکے موجود تھے۔ فراز، اسامہ، افہام اور دیگر سے سوال کیا گیا کہ آپ ویپ کیوں پی رہے ہیں تو ان نوجوانوں کی یہ رائے تھی کہ سگریٹ سے اچھا ہے، اس کا نقصان بھی کم ہے اور ہم فلیور کا ویپ پی رہے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کے اہلخانہ آپ کو روکتے نہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، ہمارے گھر میں سب کو پتہ ہے کہ ہم ویپ پیتے ہیں۔
ایک 38 سالہ شخص احمد نے بتایا کہ میں مسلسل سگریٹ پینے کا عادی ہوں اور اچھی کوالٹی کی سگریٹ پیتا تھا اور دن کے دو پیکٹ ختم کرتا تھا۔ میرا یومیہ خرچہ 700 سے 800 تھا تاہم میں کئی دوستوں کو ویپ پیتے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ یہ مضر صحت نہیں ہے اورسگریٹ کے مقابلے میں سستا بھی ہے۔ پھر میں نے 10 ہزار روپے کا ویپ خریدا اور اس میں نکوٹین ڈال کر یہ ویپ پیتا ہوں۔ نکوٹین کی بوتل 2800 سے 3000 روپے یا اس سے زائد میں دستیاب ہے اور اب میرا مہینے کا خرچہ 6 ہزار روپے تک آتا ہے کیونکہ اب میں بہت زیادہ ویپ استعمال کرتا ہوں۔ کئی لوگوں کے لیے نکوٹین کی بوتل ایک ماہ تک چل جاتی ہے۔
ایک طالبہ جو مقامی یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہیں نام تبدیل کرنے کی شرط (فرضی نام) مہک نے بتایا کہ آج کل 16 سال سے 30 یا اس سے زائد عمر کی خواتین اور بچیوں میں ویپ کا استعمال بڑھ گیا ہے لیکن بیشتر طالبات اور خواتین فلیور والے ویپ پیتی ہیں، نکوٹین والے ویپ طبقہ اشرافیہ میں استعمال ہوتا ہے۔
ویپ فروخت کرنے والے ایک دکاندار سعد نے بتایا کہ کراچی میں ویپ کا کام ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے مخصوص دکانوں پر ویپ ملتا تھا لیکن اب تو یہ پان کی دکان پر بھی مل جاتا ہے، ویپ فروخت کرنے والوں کی آمدنی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ نوجوان طبقہ اور مرد حضرات سگریٹ کے بجائے اب ویپ کا استعمال کر رہے ہیں۔ ویپ سے خرچہ کم آتا ہے اور لوگوں کی اپنی یہ رائے ہے کہ ویپ سے ان کے مطلب کا نشہ انہیں حاصل ہو جاتا ہے۔
ویپ فروخت کرنے والے ایک ڈیلر اکرم نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ویپ چائنا، دبئی اور دیگر ملکوں سے درآمد کیا جاتا ہے۔ ویپ ایک ہزار روپے سے لے کر 20 ہزار روپے یا اس سے زائد میں دستیاب ہے، یہ مختلف برانڈز کے ہوتے ہیں۔ یہ ویپ فلیور والا بھی ہوتا ہے اور نکوٹین والا بھی ہوتا ہے۔ نکوٹین میں عموماً کیمیکل اور تمباکو مائع شکل میں شامل ہوتا ہے، فلیور والے ویپ کی 50 سے زائد اقسام ہے ہیں، یہ پھلوں اور سبزیوں کے فلیور پر مشتمل ہوتے ہیں۔ نکوٹین والے ویپ میں 15 سے 20 فلیور ہیں۔ نکوٹین کی بوتل 30 اور 50 ایم ایل پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ نکوٹین 25 اور 50 گرام کے آتے ہیں، 25 گرام نکوٹین کی بوتل ویپ میں بھرنے کے بعد اس کے استعمال سے کم نشہ ہوتا ہے جبکہ 50گرام والا نکوٹین کثرت سے تمباکو نوشی کرنے والے افراد ویپ میں استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خواتین آئس، بنانا، اسٹابری اور دیگر پھلوں کے فلیور کو استعمال کرتے ہیں، اس معاملے پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ کچھ خواتین 25 ایم جی نکوٹین والا ویپ استعمال کرتی ہیں، شوقیہ ویپ پینے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تین ایم جی والا فلیور پیتی ہیں۔
ماہر امراض سینہ اور پھیپھڑے اور جناح اسپتال شعبہ چیسٹ کے سابق سربراہ ڈاکٹر ندیم رضوی نے بتایا کہ سگریٹ ہو یا وی سگریٹ ویپ دونوں ہی مضر صحت ہیں اور یہ تاثر غلط ہے کہ سگریٹ کے مقابلے میں ویپ نقصان دہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں میں نکوٹین استعمال ہوتا ہے۔ سگریٹ میں تمباکو کو جلا کر نکوٹین ملتی ہے، ای سگریٹ یا ویپ میں مائع نکوٹین ہوتی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ویپ کے استعمال سے سینے، سانس، دل اور پھیپھڑوں کے امراض لاحق ہوتے ہیں، اس سے احتیاط کرنی ہے۔
مقامی فزیشن ڈاکٹر فاروق خان نے بتایا کہ ویپ میں نکوٹین مائع کے کثرت استعمال سے دماغی نشو ونما متاثر ہوتی ہے، یہ دل کی بیماری اور فالج کا باعث بھی بنتے ہیں، لوگوں کو ویپ کے نقصانات کے حوالے سے آگاہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویپ کے کاروبار کے حوالے سے حکومت کی کوئی پالیسی نہیں ہے، اس کے رجحان کو کم کرنے کے لیے آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
ای این ٹی کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ ویپ کے استعمال سے گلے کے امراض لاحق ہو رہے ہیں اور اگر گلے میں تکلیف مسلسل جاری رہے اور علاج نہ کیا جائے تو یہ کینسر کے مرض میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس لیے لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ سگریٹ اور ویپ کے استعمال سے گریز کریں، نشے کو ترک کرنے کے لیے ڈاکٹرز کی ہدایات کے مطابق زندگی بسر کریں۔
کینسر کے ماہر اور سول اسپتال شعبہ کینسر کے سابق سربراہ ڈاکٹر نور محمد سومرو نے بتایا کہ ویپ میں مائع نکوٹین ہوتا ہے، ویپ کا دھواں براہ راست سانس کی نالیوں کو متاثر کرتا ہے۔ سگریٹ ہو یا ویپ اس سے پھیپھڑے متاثر ہو رہے ہیں اور یہ پھیپھڑوں کے کینسر کا باعث بن رہا ہے۔سرکاری سطح پر پھیپھڑے کے کینسر کا مستند ڈیٹا موجود نہیں ہے لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمباکو نوشی سگریٹ کی شکل میں ہو یا ویپ کی، دونوں کے کثرت استعمال کے باعث پھیپھڑوں کے کینسر میں 30 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ اکثر نوجوان پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مستقل کھانسی، تھکاوٹ، چڑچڑاہٹ، ذہنی تناو اور سانس پھولنا یا اس کو لینے میں دشواری سینے اور پھیپھڑے کے امراض کی علامات ہیں۔ اگر علاج پر توجہ نہ دی جائے تو پھیپھڑے کا کینسر لاحق ہو جاتا ہے۔
کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ سگریٹ، ویپ اور دیگر وہ تمام اشیاء جو اسمگل ہوتی ہیں، ان کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے کارروائیاں جاری ہیں، جس میں اسمگلنگ کا مال ضبط کرنے کے ساتھ گرفتاریاں اور مقدمے کا اندراج قانون کے مطابق کیا جاتا ہے۔