ملک جس انتشار کا شکار ہے، اس میں سے کوئی خیر کی خبر آنے کی امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔ ہر آنے والا دن نت نئی پریشان کن خبروں کا دن ہوتا ہے اور اب تو حالت یہ ہوچکی ہے کہ عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ ضد اور اَنا کی اس لڑائی کا انجام شاید کسی بھی فریق کے لیے اچھا نہ ہو لیکن اس کے باوجود سب اپنی اَنا پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ ملک کی معاشی حالت سے کسی بھی فریق کو کوئی سروکار نہیں، بس اگر کوئی فکر اور پریشانی ہے تو وہ اس بات کی کہ اس لڑائی میں جیت کس کی ہوگی ۔
اگر کوئی ایک بھی فریق اس زور پکڑتی لڑائی جیت بھی گیا تو پھر ہار کسی دوسرے فریق کی نہیں بلکہ خدانخوستہ پاکستان کی ہوگی جس کی نظریاتی اور دفاعی اساس کو پس پشت ڈال کر فریقین آپس میں دست و گریباں ہیں۔نقصان پاکستان کا ہورہا ہے۔ یہ طرفہ تماشہ دیکھنے والے بہت ہیں لیکن کوئی بھی صلح جو اور مفاہمت پسند شخصیت اس میں فریق بن کر مفاہمتی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ نہ تو حکومت کی جانب سے پہل کی جارہی ہے اور نہ ہی حکومت کے اتحادی اپوزیشن کی جانب صلح کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔
ان حالات میں لکھنے والے لکھ اور بولنے والے بول رہے ہیں لیکن نہ تو کوئی سنجیدگی سے پڑھ رہا ہے اور نہ ہی کسی کی توجہ بولنے والوں کی جانب ہے۔ ان حالات میں چند روز کے لیے رخت سفر باندھا ہے اور اس دفعہ پہلا پڑاؤ کینیڈا میں ہے جہاں پر میرے مستقل میزبان سجاد عباس اور ملک جمیل ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے کینیڈا میں سکونت پذیر ہیں اور ایک مطمئن اور آسودہ زندگی گزار رہے ہیں لیکن یہ دونوں حضرات بھی دوسرے تارکین وطن کی طرح اپنے آبائی وطن کے لیے پریشان ہیں۔
ان کے پاس نہ ختم ہونے والے سوالات ہیں اور یہ اپنے مہمان سے اس توقع کا اظہار کررہے ہیں کہ وہ ان سوالات کے جوابات دے۔ پاکستان سے آنے والے ہر شخص سے تارکین وطن اپنے وطن کی گفتگو کرتے ہیں اور نہایت توجہ سے اس کی بات سنتے ہیں کہ شاید ان کا مہمان انھیں اپنے آبائی وطن کی کوئی ایسی خوش خبری سنا دے جس سے ان کی پرمژدہ چہروں پر رونق آجائے۔
اجنبی ممالک میں آباد ہونا ، وہاں پر اپنے لیے حالات کو سازگار بنانا، ایک یکسرمختلف تہذیب اور معاشرت کو اپنا کر اس میں اپنے لیے گنجائش پیدا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ ایک عمر گزر جاتی ہے لیکن ایک تارک وطن ہمیشہ اپنے آبائی ملک کے لیے سوچتا اور پریشان رہتا ہے کہ مادروطن کے حالات سازگار ہوں گے تو وہ باقی ماندہ زندگی وہیں گزارے گا ۔ عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے یہ محب وطن پاکستانی جو روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔
ان کے دلوں میں ابھی تک پاکستان کی محبت موجزن ہے بلکہ ٹھاٹھیں مارتی ہے یہ تارک وطن کسی بھی پاکستانی سے بڑھ کر پاکستان کے لیے فکر مند رہتے ہیں لیکن ان کے کچھ سوالات اپنے ارباب اختیار سے ہیں جن کے جوابات کے وہ متلاشی ہیں اور ہمارے ان پردیسی بھائیوں کے بقول کے یہ وہ سوالات ہیں جو ان کی جوان ہونے والی نسلوں سے متعلق ہیں۔ ایک ایسے ہی پردیسی پاکستانی آصف سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ آپ یہ کیوں نہیں لکھتے ہم وہ پاکستانی تارکین وطن ہیں جو پاکستان میں پلے بڑھے جوان ہوئے اور پھر روزگار کے لیے بیرون ملک آگئے ۔
ہم آج بھی پاکستان کی یاد میں آہیں بھرتے ہیں اور جب زیادہ اداس ہوتے ہیں تو کبھی کبھا ر ایئر پورٹ چلے جاتے ہیں جہاں پر پی آئی اے کے طیارے پر سبز ہلالی پرچم کو نم آنکھوں سے دیکھ کر اپنی اداسی کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہماری آنکھوں کی یہ نمناکی ہماری موجودہ نسل تک ہی ہے ، ہماری نئی نسل جو بیرون ملک پیدا ہوئی اور جوان ہو رہی ہے اس کو ہماری تربیت اور کوشش کے باوجود شاید پاکستان سے وہ محبت اور لگاؤ نہ ہو جو ہمارے خون میں شامل ہے، اس نئی نسل کے لیے یہی اس کا اصل وطن ہے جہاں پر وہ پیدا ہوئے ہیں۔
ان کو اپنے آباؤ اجداد کے آبائی وطن کی یاد ہر گز نہیں ستاتی اور اگر والدین کبھی ان کو پاکستان لے جانے کا سوچتے ہیں تو نوجوان نسل یہ سوال کرتی ہے کہ ہمارا وہاں پر کون ہے جس کے پاس ہم وہاں جائیں وہاں پر نہ تو انصاف ہے نہ قانون ہے اور نہ ہی سیکیورٹی کی صورتحال تسلی بخش ہے کہ خدانخواستہ اگر کوئی حادثہ پیش آگیا تو ان کو ریاست کیا تحفظ دے گی۔ یہ وہ خطرناک صورتحال ہے جس کا ادراک کوئی بھی نہیں کر رہا ۔ دنیا بھر میں ایک کروڑ سے زائد مقیم پاکستانی ہر سال اربوں ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان بھجواتے ہیں جس کا پاکستانی معیشت کو سہارا دینے میں بڑا حصہ ہے۔ یہ زرمبادلہ ہماری موجودہ نسل تو بھجوا رہی ہے لیکن کیا ہماری اولاد بھی ہمارے آبائی وطن کے لیے خدمت انجام دے گی اس کا جواب نفی میں ہے ۔
کینیڈا میں مقیم ہمارے دوست ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس نئی جوان ہونے والی نسل کا پاکستان سے لگاؤ نہ ہونے کی وجہ سے دس برس کی قلیل مدت میں بیرون ملک خاص طور پر امریکا اور مغربی ممالک سے پاکستان زرمبادلہ کی منتقلی نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی ۔ وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ ہماری حکومت ایسے اقدامات کیوں نہیں کر رہی کہ جس سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی آنے والی نسلوں میں پاکستان کی محبت اور لگن کو اجاگر کیا جائے، ان کویہ تحفظ دیا جائے کہ ان کے والدین کا ملک ان کا بھی ملک ہے اور وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں اور ان کے حقوق اور جان و مال کا تحفظ ریاست پاکستان کی ذمے داری ہے ۔
یہ ان پاکستانیوں کی اولاد ہیں جن کے آباؤ اجداد اپنے وطن کی مٹی میں مدفون ہیں اور یہ خود بھی وہیں سپرد خاک ہونا چاہتے ہیں۔ ان کی اولاد کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جب ہمارے حکمران ہی اپنی اولاد کو بیرون ملک محفوظ تصور کرتے ہیں تو پھر ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم ایک مہذب معاشرے جہاں پر قانون کی عملداری ہے، ا س کو چھوڑ کر پاکستان آباد ہوں یا وہاں پر سرمایہ کاری کریں اور ہم جو زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں اس پر ہمارے حکمران عیاشیاں کرتے ہیں، ان حالات میں ہم کب تک مٹی کی محبت کا قرض اتارتے رہیں گے؟