ہجرکی رات کا ستارہ

رشاد محمود کی زندگی کی داستان نوجوانوں کو جدوجہد کی طرف راغب کرتی ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan July 17, 2024
[email protected]

رشاد محمود 1930میں بمبئی میں پیدا ہوئے۔ 27 جون 2024کو اس دارِ فانی کو الوداع کہا۔ نوجوانی کے ابتدائی برسوں میں کارل مارکس کے نظریے کے اسیر ہوئے اور زندگی کے آخری لمحہ تک سوشلسٹ نظریات سے وابستہ رہے۔ رشاد محمود کے پسماندگان میں اپنے اہلِ خانہ کو ہی سوگوار نہیں، بلکہ ہزاروں مداحوں کو بھی سوگوار کرگئے۔


رشاد محمود کی زندگی کی داستان نوجوانوں کو جدوجہد کی طرف راغب کرتی ہے۔ ان کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا۔ رشاد محمود کا بمبئی میں قائم انجمن اسلام اسکول میں داخل کرایا گیا، مگر ابھی ان کی عمر بارہ سال تھی کہ والد انتقال کر گئے۔ رشاد محمود کو اپنی والدہ اور بھائی بہنوں کی خاطر تعلیم کو نامکمل چھوڑنا پڑا۔ محنت مزدوری کرنے لگے۔ رشاد محمود بتاتے تھے کہ مزدوری ان کی مجبوری تھی، مگر ابتدائی عمر سے پڑھنے کا شوق تھا، یوں جو اخبار، رسالہ یا کتاب مل جائے اس کو پڑھے بغیر نہیں چھوڑتے تھے۔


یہی مطالعہ کی عادت تھی کہ بیماری کے آخری ایام دنوں تک اخبار پڑھتے رہے، جب پڑھ نہیں پاتے تھے توکسی سے اخبارکی خبریں اورآرٹیکل اورکالم پڑھنے کوکہتے تھے۔ رشاد محمود جب بمبئی کی سڑکوں پر مزدوری کرتے تھے تو اس دوران انھیں سڑکوں پر بکنے والے کمیونسٹ پارٹی کے اخبار پڑھنے کا موقع ملا، یوں بمبئی کے ترقی پسند ادیبوں سے ان کا رابطہ ہوا۔ انجمن ترقی ہند مصنفین کی نشستوں میں شرکت کرتے تھے۔ اس دوران معروف ترقی پسند ادیبوں کیفی اعظمی، شوکت کیفی، سردار جعفری، سلطانہ جعفری، محمد مہدی، نیاز حیدر،کرشن چندر اور خواجہ احمد عباس وغیرہ سے ملنے کا موقع ملا۔ یوں رشاد محمود کی تربیت شروع ہوئی۔


رشاد محمود کو ترقی پسند شاعروں کا کلام اس خوبصورتی سے یاد تھا کہ کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ نظم خود انھوں نے ہی کہی ہے۔ رشاد محمود نے نوجوانی کے ابتدائی برسوں سے ہی محنت مزدوری کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔ انھوں نے سیکڑوں چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں۔ اس دوران ان کا رابطہ کمیونسٹ پارٹی کی قیادت سے ہوا۔ رشاد محمود کمیونسٹ پارٹی کے اخبار ہاری اور اس کی ذیلی تنظیموں کی سرگرمیوں میں متحرک رہے۔ رشاد محمود ابتدائی عمر میں اسکول جانے سے تو قاصر رہے، مگر ان کی ساری تربیت کمیونسٹ پارٹی اور اس کی ذیلی تنظیموں میں ہوئی۔


رشاد محمود 1954 میں پاکستان آئے۔ اس دوران انھوں نے شیشے کے کام میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کی اور ایک بہترین کارکن بن گئے۔ رشاد محمود کراچی کے مختلف علاقوں میں مقیم رہے اور سیاسی طور پر اپنا رشتہ نیشنل عوامی پارٹی سے جوڑا۔ انھوں نے کارل مارکس کے جدلیاتی مادیت کے فلسفے کو پہلے ہندوستان اور پھر پاکستانی سماج میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں دیکھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا مارکسزم پر اعتماد مضبوط ہوا، مگر وہ محض عقیدہ پرست نہیں بلکہ معروضی حقائق کو مکمل تناظر میں دیکھتے تھے۔ رشاد محمود کے جو مضامین رسالہ '' بدلتی دنیا'' میں شایع ہوئے یہ مضامین معلومات سے بھرپور تھے۔


قاری ان کے کسی بھی مضمون کو پڑھ کر حقائق سے آگاہ ہوجاتا ہے۔ ان کے مضامین کے مطالعے سے ان کی جرات اور بہادری کا اندازہ ہوتا ہے۔ رشاد محمود گزشتہ 70 برسوں کے دوران معروف کمیونسٹ اور ترقی پسند رہنماؤں سے بخوبی واقف تھے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوتا کہ وہ بعض سینئر رہنماؤں کے ساتھیوں میں بھی شامل رہے مگر رشاد صاحب نے اپنے مضامین میں دوستی اور تعلقات کو بالائے طاقت رکھتے ہوئے حقائق تحریرکیے اور ان کا تجزیہ کیا۔


انھوں نے اپنے ایک مضمون '' برصغیر میں انقلاب اور اس کی تکمیل کے مراحل'' میں لکھا ہے کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد یورپ کی سامراجی طاقتیں جس معاشی اور معاشرتی انتشارکا شکار ہوئیں ان سے دنیا میں بڑی تبدیلیاں آئیں جس میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور جمہوری طاقتیں مضبوط ہوئیں۔ اس طرح ترکی میں بھی بادشاہت اور خلافت کے خاتمے کے بعدمصطفیٰ کمال اتا ترک کی رہنمائی میں ترکی کو استحکام ملا اور اسلامی دنیا میں پہلا بار یورپ کی جدید سوچ اور خیالات کے ساتھ ایک مستحکم حکومت قائم ہوئی۔


روس میں زار شاہی کا خاتمہ ہوا۔ دنیا کی سب سے بڑی زمینی مملکت کمیونسٹ پارٹی کے جھنڈے تلے مارکس کے نظریات کے تحت سوویت یونین نئی صورت میں وجود میں آئی۔ یہ پہلی عالمی جنگ عظیم کی دین تھی، جو سامراجی طاقتور دنیا نئے سرے سے بندر بانٹ کے سبب ہوا۔ سوویت یونین کے قیام کا استحکام چین میں جمہوریت کے واقعات نے برصغیر پر بڑا اثر ڈالا۔ رشاد صاحب نے اس پیراگراف میں 20 ویں صدی کے پہلے دو عشروں میں رونما ہونے والے بین الاقوامی واقعات اور ان کے ہندوستان پر اثرات کا جائزہ لیا۔


اس طرح انھوں نے مزید لکھا کہ ایک طرف مولویوں کے جتھے سوویت یونین سے تعاون کی طلب گاری کے لیے روانہ ہوئے وہاں ہندوستان کی آزاد ی کی لڑائی لڑنے والوں سوویت یونین میں مزدوروں کی حکومت کے قیام سے نظریاتی بالیدگی حاصل کی۔ بھگت سنگھ کے ساتھیوں نے پنجاب اور بمبئی، کلکتہ اورکانپورکے مزدوروں نے بھی لال جھنڈے اٹھا لیے تو انھوں نے ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی کے قیام اور انگریز حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریکوں کو چند جملوں میں بیان کیا۔ انھوں نے مزید لکھا کہ برصغیرکا وہ خطہ جو پاکستان کے نام سے منسوب ہے وہ جاگیرداری کے خاتمے کے لیے وجود میں نہیں آیا۔


جمہوریت، جمہوری اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی ختم کرنے کے لیے وجود میں نہیں آیا۔ قومیتوں اور ان کے حقوق کی بحالی کے لیے نہیں بنا تھا۔ رشاد صاحب کی یہ تحریر اس ملک کی تاریخ کو گہرائی سے بیان کرتی ہے۔ رشاد صاحب 60ء کی دہائی کے واقعات کے تناظر میں لکھتے ہیں کہ نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ کی جدوجہد حکمراں طبقات اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عشروں پر پھیلی ہوئی تھی۔ 1965کی بات ہے۔ بھارت سے جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند کے نتیجے میں عوام کی جنرل ایوب خان کے خلاف نفرت نے ذوالفقار علی بھٹو کے وزارت سے استعفیٰ دینے کے عمل سے پیپلز پارٹی کو اور بھٹوکو مغربی پاکستان میں پذیرائی ملی۔ کشمیر میں چھاپہ ماروں کی مداخلت اور اس کے نتیجے میں پاک بھارت جنگ کے پس پردہ چین کا بہت اہم کردار تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ چین کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ پاکستان بھارت کی مدبھیڑ میں دو ہفتوں کے دوران میں ہی اپنے شدید ترین مخالف سوویت یونین سے ہندوستان سے مفاہمت کے لیے تاشقند میں روس کے کردارکو قبول کرے گا۔


چین اس عمل سے ناراض تھا۔ رشاد صاحب لکھتے ہیں کہ بھٹو نے ان سب باتوں سے پیپلز پارٹی کے قیام میں اور اپنی سیاسی جدوجہد میں خوب فائدہ اٹھایا۔ ایوب خان کے دور میں ہونے والی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی چین ہمنوائی ٹوبہ ٹیک سنگھ کی کسان کانفرنس میں بھاشانی اور بھٹو کا تعاون تمام چین نوازوں کو یکجا کر کے بھٹو نے چین نواز طلبہ تنظیموں،کسان تنظیموں اور سیاسی گروپوں کو اپنے پیچھے لگایا۔ رشاد محمود کے ایک مضمون کا عنوان ''سیکولر اور سوشل ازم'' ہے۔ وہ اس مضمون میں لکھتے ہیں کہ مسلم لیگ اور قائداعظم نے 1940 کی قرارداد والے مقاصد حاصل کرنے تھے تو اس میں کہیں بھی ایک مرکزی ریاستی اقتدارکا ذکر نہیں ہے۔ اس قرارداد میں اسلامی ریاست کے قیام کی بات بھی نہیں ہے۔ یہ قرارداد سیکولر اور قومی آزاد ریاستوں کے نیشنل ازم کی داعی ہے۔


رشاد صاحب کے اور مضامین بھی تاریخ اور تجزیے سے بھرپور ہوتے تھے۔ رشاد کا انتقال صرف ان کے خاندان کے لیے ہی صدمہ نہیں بلکہ اس ملک میں چلنے والی تمام مزاحتمی تحریکوں کے کارکنوں کے لیے بھی صدمہ ہے۔ غزل کے شاعر ناصر کاظمی کے چند اشعار شاید رشاد صاحب کے لیے ہی ہیں۔


وہ ہجرکی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا


صدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے، کل رات مرگیا وہ

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں