کشیدہ تعلقات کے باعث پاک بھارت مذہبی سیاحت عدم توازن کا شکار
پاکستان میں بھارتی یاتریوں کا شاندار استقبال کیاجاتاہےجبکہ بھارت جانیوالے پاکستانی زائرین کوسختیوں کاسامناکرناپڑتا ہے
پاکستان اور بھارت کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے مابین مذہبی سیاحت بھی عدم توازن کا شکار ہے، پاکستان آنیوالے بھارتی سکھ اورہندویاتریوں کے لیے ریڈ کارپٹ بچھایا جاتا ہے جبکہ بھارت جانیوالے پاکستانی زائرین کا سرکاری طور پرکوئی استقبال کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں کوئی پروٹوکول ملتا ہے۔ سیکیورٹی کے نام پر پاکستانی زائرین کو مخصوص جگہوں تک محدود کردیا جاتا ہے۔
ملک یوسف سکندر کا تعلق لاہور سے ہے وہ رواں برس اپریل میں حضرت امیرخسروؒ کے عرس کی تقریبات میں شرکت کے لیے ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی گئے تھے ۔ لیکن ان کا یہ سفر انتہائی ناخوشگوار رہا۔ ملک یوسف سکندر نے بتایا کہ انڈین حکومت نے صرف 80 پاکستانی زائرین کو ویزے جاری کیے تھے۔ 199 زائرین نے درخواستیں جمع کروائی تھیں لیکن بھارتی ہائی کمیشن نے 119 ویزا درخواستیں مسترد کردی تھیں۔ بھارتی ہائی کمیشن نے ویزے بھی تاخیر سے جاری کیے جس کی وجہ سے 80 میں سے صرف 70 زائرین ہی انڈیا جاسکے تھے۔
ملک یوسف سکندر کے مطابق انہیں دہلی کے ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا وہاں بھارتی پولیس اورخفیہ ایجنسیوں کے اہل کاروں نے اتنی سختی کررکھی تھی کہ ہم لوگ ایک دوسرے کے کمروں میں بھی نہیں جاسکتے تھے۔ ہمارے ایک پاکستانی ساتھی کے رشتہ دار جو انڈیا میں ہی مقیم ہیں وہ اسے ملنے کے لیے ہوٹل میں آئے لیکن ان سے ملاقات کی اجازت بھی نہ دی گئی جبکہ ہوٹل سے باہرجانے پر بھی پابندی تھی۔
اس سے قبل جنوری 2024 میں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے سالانہ عرس میں شرکت کے لیے جانیوالے طارق محمود نے بتایا کہ وہ عرس میں شرکت کے لیے انڈیا جارہے تھے تو بڑےخوش تھے کہ وہاں ان کاپرتپاک استقبال ہوگا ،وہ اجمیرشریف میں گھومیں ،پھریں گے۔ لیکن وہاں پہنچ کران کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے تھے۔
طارق محمود کہتے ہیں جس طرح پاکستان آنیوالے بھارتی یاتریوں کو واہگہ بارڈر پر پھول پہنائے جاتے ہیں، ان کے لیے اسپیشل ٹرانسپورٹ، رہائش ،سیکیورٹی کا انتظام ہوتا ہے۔ بھارتی سکھ اور ہندویاتری لاہور کے بازاروں میں خریداری کرتے اور یہاں کے تاریخی مقامات کی سیروتفریح کرتے ہیں ہمارے ساتھ انڈیا میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔ پاکستان 230 زائرین انڈیا گئے تھے، ہمیں بس ہوٹل تک محدود رکھا گیا۔ نماز کے اوقات میں مزار شریف پر جانے کی اجازت دی جاتی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ بڑی مشکل سے ایک دن اجمیرشریف درگارہ کے قریبی بازار میں خریداری کی اجازت مل سکی تھی۔
پاکستان اور انڈیا کے مابین ستمبر 1974 میں ہونیوالے مذہبی سیاحت کے معاہدے کے تحت پاکستان بھارتی سکھوں اور ہندوؤں کے ان کے اہم مذہبی تہواروں اورمقدس مقامات کی یاترا کے لیے ویزے جاری کرتا ہے۔ وساکھی میلہ/خالصہ جنم دن کے لیے 3 ہزار، باباگورونانک کے جنم کی تقریبات کے لیے 3 ہزار ، گوروارجن دیو کے شہیدی دن کے لیے ایک ہزار، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی کے لیے 500 سکھ یاتریوں کو ویزے جاری کیے جاتے ہیں۔ 1999 میں ہوئے ایک معاہدے کے تحت پاکستان ساکہ ننکانہ صاحب ،باباگورونانک کی برسی اور گورو رام داس جی کے جنم دن کے موقع پر بھی بھارتی سکھ یاتریوں کو ویزے جاری کرتا ہے۔
اسی طرح بھارتی ہندویاتریوں کو بھی شادانی دربارحیات پتافی گھوٹکی کی سالانہ تقریب کے لیے 400 ہندویاتریوں اور کٹاس راج مندر چکوال میں شیوراتری کے تہوار کے لیے 200 اور اسی مقام پر کارتیک پوجا کے لیے 200 بھارتی ہندوؤں کو ویزے جاری ہوتے ہیں،
دوسری طرف انڈیا پاکستانی مسلم زائرین کو ہرسال حضرت مجددالف ثانیؒ کے عرس پر 200 ، حضرت خواجہ علاؤالدین علی احمد صابرؒ کے عرس کے لیے 200، حضرت حافظ عبداللہ شاہؒ کے عرس کے لیے 150، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کے عرس کے لیے 250، حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے عرس کے لیے 500 اورحضرت امیرخسروؒ کے عرس میں شرکت کے لیے 200 ویزے جاری کرنے کا پابند ہے۔اس کے علاوہ بھارت پاکستانی احمدی کمیونٹی کو بھی بڑی تعداد میں ویزے جاری کرتا ہے۔
انڈیا میں پاکستان کے سابق سفیر اورماہر سفارتی امور کے ماہر عبدالباسط خان نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا '' پاکستانی بنیادی طورپرمہمان نواز ہیں اس وجہ سے وہ بھارتی یاتریوں کو عزت اور احترام دیتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ انڈیا سے زیادہ سے زیادہ یاتری خاص طور پرسکھ کمیونٹی پاکستان آئے چونکہ پاکستان مذہبی سیاحت سے معاشی طور پرفائدہ اٹھاسکتا ہے۔ کرتارپور کوریڈرو اس کی بڑی مثال ہے جہاں سے پاکستان نے روزانہ پانچ ہزار بھارتی شہریوں کو انٹری دیتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس انڈیا کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں کہ پاکستانی سیاح ان کے ملک میں آئیں۔ بھارتی انٹیلی جنس ادارے سمجھتے ہیں کہ پاکستانی زائرین کے ساتھ پاکستان انٹیلی جنس کے لوگوں کو بھیج سکتا ہے اس خوف کی وجہ سے و ہ پاکستانی زائرین کو ایک تو بہت کم ویزے دیتے ہیں دوسرا سیکیورٹی کے نام پر ان کی سرگرمیوں کو محدود رکھا جاتا ہے۔
وزرات مذہبی اموروبین المذاہب ہم آہنگی کے ترجمان نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے پاکستانی زائرین کو انڈیا میں اگرمشکلات پیش آتی ہیں تو ان کی شکایات کو وزارت خارجہ تک پہنچایا جاتا ہے تاکہ وہ بھارتی حکام سے بات کرسکیں ،اس کے علاوہ انڈیا جانیوالے پاکستانی زائرین سے پاکستانی ہائی کمیشن کے لوگ بھی ملاقات کرکے ان کو ہرممکن سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کی کوشش کرتے اوران کی شکایات کوسنتے ہیں۔