ہماری پہلی یا آخری نسل

ہم پر سچ بولنے کی اَن دیکھی پابندی ہے۔


راؤ منظر حیات June 30, 2014
[email protected]

RAWALPINDI: ہم پر سچ بولنے کی اَن دیکھی پابندی ہے۔ فکری اعتبار سے ہم اپنی خود ساختہ منزل کے سامنے آن کھڑے ہوئے ہیں۔ اب سوچنے پر بھی پابندی ہے۔ آج ہم کسی بھی حقیقت کو رد کرنے کی عامیانہ ہمت رکھتے ہیں۔ ہم ہر اطوار سے ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے نکل کر قدیم یاPrimitive ملک بن چکے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارا مسئلہ سیاسی ہے اور نہ ہی معاشی۔ ہم اخلاقی طور پر ذاتی اور اجتماعی زوال کا شکار ہیں۔

منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ہم شدید نوعیت کے تضادات کا شکار ہو چکے ہیں۔ میں مثال نہیں دینا چاہتا کیونکہ اپنے عیب لکھنے سے خود انسان کو تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے کی آخری لڑائی شروع ہو چکی ہے۔ اس کے نتیجہ میں یا تو ہمیں مجبوراً تبدیل ہونا پڑے گا۔ ورنہ ہم تاریخ کی قربان گاہ پر فطری انجام کو پہنچ جائیں گے۔ مجھے بہادر شاہ ظفر کی تاریخی بے بسی اور لال قلعہ کی سازش زدہ راہداریاں آنکھ کھولے بغیر بھی نظر آ رہی ہیں۔ آخری قہقہہ کون لگائے گا؟ اس اَمر کو سمجھنا اب نہایت آسان ہو چکا ہے۔ بہت ہی سہل!

مجھے ایک سوال کا جواب نہیں مل پایا۔ پاکستان بنتے ہوئے انسانوں کی جو نسل موجود تھی، وہ جوہری اعتبار سے اتنی مختلف کیوں تھی؟ آج وہ تمام لوگ مٹی اوڑھے سو رہے ہیں۔ آپ عصرِ حاضر کے لوگوں کو کمپیوٹر، انٹرنیٹ، گوگل اور میڈیا کے اسلحہ سے لیس بھی کر ڈالیے۔ پھر بھی وہ نسل جو پاکستان بنتے ہوئے حیاتی طور پر موجود تھی، اتنی زیادہ جاندار اور ذہنی اعتبار سے اس قدر متحرک کیسے تھی؟ یہ کسی ایک شعبہ کا مسئلہ نہیں۔ مجھے پرانے لوگ تمام شعبوں میں زیادہ باصلاحیت نظر آتے ہیں۔

پاکستان کی عدلیہ کا چیف جسٹس، بانیِ پاکستان قائداعظم کی چائے کی دعوت مسترد کر دیتا ہے کہ کہیں وہ کسی کیس کے متعلق بات نہ کر دیں۔ ملک کا گورنر جنرل اور ہمارا قائد، ٹرین کے پھاٹک پر گاڑی رکوا دیتا ہے اور ریل گاڑی کے گزرنے کا انتظار کرتا ہے۔ سول انتظامیہ کے سینئر افسر سائیکل یا تانگہ پر دفتر جاتے ہیں۔ فوج کے ایسے جنرل جو آرمی چیف بھی رہے جب دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو صرف میس کا کمرہ ہوتا ہے۔ اپنی تدفین اور کفن کے پیسے پہلے سے نکال کر اپنے بیٹ مین (ملازم) کے حوالے کر جاتے ہیں۔کیا آج یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو صرف ایک شوق تھا اور وہ تھا کتابیں پڑھنے اور اپنی لائبریری کو بہتر بنانے کا۔

وہاڑی سے تعلق رکھنے والا یہ سیاستدان اپنے منشی کو ہر ماہ کتابوں کی نئی فہرست دے دیتا تھا۔ اس منشی کا کام صرف کتابیں مہیا کرنا تھا۔ آپ دین کی جانب متوجہ ہوں۔ آپ کو مولانا مودودی اور امین الدین اصلاحی نظر آتے ہیں۔ آپ ان مذہبی لوگوں کی فکر سے لاکھ اختلاف کریں۔ مگر آپ ان کی علمی برتری کو تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ آپ بیورو کریسی کے ریگستان میں سفر کیجیے۔ آپکو الطاف گوہر اور مختار مسعود نظر آتے ہیں۔ آج کیا ہے! جتنا کم بولا یا لکھا جائے، اتنا ہی بہتر ہے۔ صرف چھ سال کے جمہوری سفر میں کئی بیورو کریٹ سیاستدانوں سے بہت زیادہ امیر ہو چکے ہیں۔

کیا یہ حقیقت سرکاری ملازم کی حیثیت سے قابل فخر ہے کہ ہمارے سابقہ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری متعدد مقدمات میں ملوث ہو کر لندن میں مفرور ہیں۔ سعادت حسن منٹو کہاں اور کب پیدا ہوا۔ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ صرف بیالیس سال کی طبعی عمر میں اس نے لازوال ادب تخلیق کر ڈالا۔ اس کی قلمی اور فنی عظمت سے کوئی روگردانی نہیں کر سکتا۔ تقسیم کے فسادات نے منٹو پر گہرا اثر ڈالا۔ ہندو مسلم فسادات میں اس نے انسان کے چھپے ہوئے درندے کو باہر نکل کر دھاڑتے ہوئے دیکھا۔ اس کی حقیقت پسندی نے ہر وہ مقدس بت توڑا جو لوگوں کے لیے پرستش کے قابل تھا۔

اس نے انسان کو بحیثیت انسان متعارف کروایا۔ ایک جگہ تنقید کا جواب دیتے ہوئے اس نے سادہ سی بات کی۔ "اگر آپکو میری لکھی ہوئی کہانیاں خراب معلوم ہوتیں ہیں، تو آپکو سوچنا چاہیے کہ یہ جس معاشرے میں جنم لیتی ہیں وہ خراب ہو چکا ہے"۔ حلقہ ارباب ذوق کے سالانہ تقریب میں سعادت حسن منٹو نے اپنی شہرہ آفاق کہانی"ٹوبہ ٹیک سنگھ" زبانی پڑھ کر سنائی۔ اس وقت اس کے بال سفید ہو چکے تھے۔ کثرت بلا نوشی سے جلد کا رنگ زرد تھا۔ وائی'ایم'سی'اے کی تقریب میں منٹو نے یہ کہانی بھر پور صوتی تاثرات کے ساتھ بیان کی۔ جب کہانی ختم ہوئی تو ہال میں مکمل خاموشی تھی۔ سامعین کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

منٹو مال روڈ کے مشہور کیفے، پاک ٹی ہائوس میں اکثر آتا تھا۔ ایک مقدمہ کی پیروی کرتے ہوئے اس نے جج سے کہا" ایک لکھاری صرف اس وقت اپنا قلم اٹھاتا ہے جب اسے شدید ذہنی اذیت دی جاتی ہے" ۔ کیا ہماری آج کی نسل کے پاس منٹو جیسا کوئی بھی لکھاری ہے؟استاد اللہ بخش کسی فرانسیسی آرٹ اسکول کا طالب علم نہیں تھا۔ وہ کسی میوزیم یا برطانوی مصوری کے کالج سے بھی کوسوں دور تھا۔ آپ تصور کیجیے۔ اس کی جائے پیدائش "وزیرآباد" میں 1890 میں کیسا ماحول ہو گا۔ پنجاب میں مصوری سکھانے والے کتنے ادارے ہونگے۔

شائد ایک بھی نہیں! استاد اللہ بخش نے صرف پانچ سال کی عمر میں تصویریں بنانی شروع کر دیں۔ وہ چودہ برس کی ننھی عمر میں مصوری میں اپنا پختہ اسٹائل بنا چکا تھا۔ اس نے لاہور آ کر سائن بورڈ بنانے شروع کر دیے۔ مغلپورہ کی ریلوے ورکشاپ میں اس نے ریل کے ڈبوں کو پینٹ کرنا شروع کر دیا۔ پھر اسے نہ جانے کیا سوجی۔ اس نے آغا حشر کے تھیٹر میں نوکری کر لی۔ وہ ہر سیٹ کی بیک گرائونڈ انتہائی آسانی سے تصویر کی صورت میں ڈھال دیتا تھا۔ اس کی بنائی ہوئی تصویر کو غور سے دیکھیں۔ لگتا ہے کہ اس میں ہل چلانے والے بیل ابھی زندہ ہو کر لکڑی کے چوکٹھے سے باہر آ جائینگے۔

مٹی کے گھروں میں اس قدر اصلیت ہے کہ، معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ان میں سے مکین باہر آئینگے اور فصل کی کٹائی شروع کر دینگے۔ استاد اللہ بخش کی تصاویر حیران کن حد تک خوبصورت اور دیدہ زیب ہیں۔ اس نے پنجاب کے دیہات کو اپنے برش کی طاقت سے لازوال تصویروں میں مقید کر ڈالا۔ وہ اتنا مختلف کیوں تھا؟ آج ہر سہولت ہوتے ہوئے بھی ہمارے پاس اس جیسا ایک بھی مصور نہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے! کیسا فکری بانجھ پن ہے!سید موسیٰ رضا کے خاندان کا تعلق یوپی سے تھا۔ مگر وہ پیدائش سے لے کر مرتے دم تک مکمل لاہوری رہا۔ لوگ اسے سنتوش کمار کے نام سے جانتے ہیں۔

آپ حیران ہونگے کہ وہ بنیادی طور پر عثمانیہ یونیورسٹی سے پڑھا ہوا تھا۔ اس نے وہاں سے آئی۔ ایس۔ سی کیا تھا۔ فلم انڈسٹری میں اس جیسا خوبرو اور مردانہ وجاہت رکھنے والا کوئی ہیرو نہیں تھا اور نہ شائد ہو گا۔ سرکاری سطح پر جتنے طائفے پاکستان سے باہر بھیجے جاتے تھے وہ ان کی سربراہی کرتا تھا۔ اسے لوگ "پاکستان کا فلمی سفیر" کہا کرتے تھے۔ وہ 1951ء سے لے کر مرتے دم تک انڈسٹری پر چھایا رہا۔ آپ سنتوش کمار کی مکالموں کی ادائیگی کو چھوڑ دیجیے، آپ اس شخص کے اردو تلفظ پر غور کیجیے۔ آپکو کئی بار اپنی اردو کی تصحیح کرنی پڑے گی۔ فلم انڈسٹری تو خیر اب دم توڑ چکی۔

آپ ہمارے ٹی۔وی ڈراموں میں سنتوش کمار جیسا شیریں لب و لہجہ والا پر تاثیر ہیرو تلاش کیجیے، آپ یقینا ناکام ہو جائینگے۔کھیل کے میدان کو دیکھیے۔ ہاشم خان1951ء سے1958ء تک سات بار برٹش اوپن چیمپئن رہا۔ وہ سکوائش کے کھیل کو زندگی بخش گیا۔ اس کھیل کو ہم تک کامیابی سے پہنچانے میں ہاشم خان کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ مشتاق احمد یوسفی طنز و مزاح کے میدان میں آج تک اکیلا سب پر ہنس رہا ہے۔

فیض احمد فیضؔ کے برابر کا شاعر تو دور کی بات۔ اس سے کئی نوری سال بعد کے شعراء اکھٹے ہو کر بھی نارووال کے اس شخص کے پاسکُو تک نہیں! کیا فزکس کی پیچیدہ اور سنگلاخ کائنات میں ڈاکٹر عبد السلام کو نوبل پرائز کسی سفارش پر دیا گیا تھا؟یہ لوگ کون تھے؟یہ ہمارے جیسے معاشرہ میں زندہ رہنے کے باوجود ہمارے جیسے کیوں نہیں تھے! یہ ہم سے اتنے مختلف کیوں تھے! اگر تخلیقی قوتیں خداداد ہیں تو کیا یہ سلسلہ اب ختم ہو چکا ہے! کیا قدرتی صلاحیتوں کے چشمے سے ٹھنڈا پانی اب صرف رِس رِس کر آ رہا ہے! کیا تمام سہولتیں بہم ہوتے ہوئے بھی ذہن بنجر ہو چکے ہیں! کیا ہمارے آج کے منافقانہ نظام نے ہمارے تخیل کو قید کر ڈالا ہے! کیا ہمارے ملک کی پہلی نسل تخلیقی اعتبار سے ہماری آخری نسل تھی؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں