بنگلہ دیش یہ تو ہونا ہی تھا
یہ مظاہرے طلباء نے اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع کیے۔
بنگلہ دیش میں جاری طلباء مظاہرے پر تشدد اور خوفناک شکل اختیار کر گئے ہیں۔ چالیس سے زائد اموات اور ایک ہزار سے زائد شدید زخمیوں کی اطلاعات ہیں۔ وزیراعظم حسینہ واجد نے بدھ کو قومی خطاب میں مظاہرین کو"رضا کاروں" سے تشبیہ دی جس سے مظاہرین میں مزید اشتعال پیدا ہوا۔ پولیس کے شدید تشدد کے ساتھ ساتھ عوامی لیگ کے طلبا ونگ عوامی چھاترو لیگ کے مظاہرین کے طلبا پر دھاوؤں نے اس میں سیاسی رنگ بھی شامل کر دیا ہے۔
یہ مظاہرے طلباء نے اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع کیے۔ اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں اس وقت 56 فی صد کوٹہ مختلف کیٹیگریز کے لیے مخصوص ہے۔ 30 فیصد آزادی کی جنگ میں شریک خاندانوں کی اولادوں کے لیے مخصوص ہے۔ جب کہ باقی مختلف کیٹیگریز کے لیے مختص ہے۔ طلباء کا اصل احتجاج 30 فی صد کے خلاف ہے جو بظاہر کھلم کھلا عوامی لیگ کے حامیوں کو نوازنے کا منظم ذریعہ ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ یہ کوٹہ ختم کرکے میرٹ کے سپرد کر دیا جائے۔
بنگلہ دیش میں ہمارے ہاں پائے جانے والے عمومی تاثر کے برعکس اقتصادی صورتحال پچھلے کئی سالوں سے بگڑ رہی ہے ، بالخصوص درمیانے اور نچلے طبقات کے لیے مہنگائی ، اشیائے خورونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور بے روزگاری جیسے مسائل نے جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ایسے میں سرکاری ملازمتوں کی کشش بلا جواز نہیں کہ تنخواہوں ، مراعات اور سالانہ اضافوں کے ساتھ سرکاری ملازمتیں معاشی استحکام کی علامت ہیں۔ گزشتہ سال 3ہزار اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے لیے 340,000 سے زائد اْمیدواروں نے اپلائی کیا۔
بنگلہ دیش میں سیاسی محاذ آرائی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدید تقسیم، ذاتی انا اور منافرت پر استوار ہے۔ عوامی لیگ اور حسینہ واجد کا طرز حکومت آمرانہ اور جابرانہ ہے۔ مخالفین پر مقدمات اور پابند سلاسل رکھنا معمول ہے۔ آزادی رائے پر کئی قدغنیں ہیں۔ اس سال چوتھی بار منتخب ہوئی حسینہ واجد کے مقابل سب سے بڑی جماعت نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔ سب سے بڑی جماعت کی لیڈر خالدہ ضیاء مسلسل زیر حراست ہیں۔ عوامی لیگ شیخ مجیب الرحمن کی "جنگ آزادی "کا پھل آج تک کھانے پر مصر ہے۔
عدلیہ اور انتظامیہ میں چن چن کر عوامی لیگ کے ہمدرد بھر چکے ہیں۔ جماعت اسلامی کے کئی معمر رہنماؤں کو جنگ آزادی میں " دشمن" کا ساتھ دینے کے الزام میں گزشتہ سالوں میں پھانسی پر لٹکایا گیا۔ جنگ آزادی کے ہیروز کے نام پر عوامی لیگ نے اعلیٰ ملازمتوں کا 30 فی صد کوٹہ مختص کر رکھا تھا۔ 2018 کے ایک عدالتی فیصلے نے یہ کوٹہ ختم کرنے کا اعلان کیا۔
تاہم حالیہ ہفتوں میں ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کوٹہ بحال کرنے کا حکم سنایا۔ اس فیصلے سے چنگاری پھر سے بھڑک اٹھی۔ حکومت اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ اپیل میں گئی جس کی سماعت اگست کے شروع میں متوقع تھی لیکن مظاہروں میں شدت کے سبب اس اتوار کو متوقع ہے۔وزیراعظم حسینہ واجد کا اصرار ہے کہ مظاہرین سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں۔ تاہم مظاہرین کا پارہ ٹھنڈا ہونے کے بجائے مزید بڑھ گیا ہے۔
دور کے ڈھول سہانے کے مصداق ہمارے ہاں بالعموم بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کا فیشن رہا ہے۔اپنی حکومت اور معاشی مشکلات کا موازنہ کرتے ہوئے اکثر احباب میڈیا پر بنگلہ دیش کو رول ماڈل کے طور پر بیان کرتے رہے ہیں۔ کئی ایک بزنس مین اور تجزیہ کار بار بار سینے پر ہاتھ مار کر کہتے رہے کہ بنگلہ دیش سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش ملک ہے۔
یہ بھی بار بار کہا جاتا رہا کہ بہت سے پاکستانی سرمایہ کار بنگلہ دیش جا چکے ہیں۔جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان سے گنے چنے سرمایہ کار بنگلہ دیش گئے ، تاہم بیشتر کا تجربہ خوشگوار نہ رہا۔پچھلے کئی سالوں سے وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت نے پاکستانیوں کے لیے ویزے کا اجرا تقریبا ناممکن بنا دیا ہے لیکن ہمارے ہاں پھر بھی بار بار بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی اور موافق کاروباری حالات کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا ہے۔ تین سال قبل بنگلہ دیش نے آزادی کی گولڈن جوبلی منائی۔موقع کی مناسبت سے برآمدات کے ٹارگٹس اور پچاس سالوں میں حاصل ہوئی معاشی ترقی کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔
کوئی شک نہیں کہ بنگلہ دیش کی گارمنٹ ایکسپورٹس میں مسلسل اضافہ ہوا لیکن ماہرین بار بار اس امر کی طرف اشارہ کرتے آئے ہیں کہ برآمدات کا تقریباً 85 فیصد ایک ہی پروڈکٹ گروپ پر مشتمل ہے۔ ایکسپورٹ باسکٹ میں وقت کے ساتھ ساتھ وسعت نہیں آئی۔اس کے علاوہ ملک میں کرپشن، عدم مساوات اور انفرااسٹرکچر کے مسائل بھی بڑھے ہیں۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران مضبوط اقتصادی بیانیہ ایکسپوز ہونا شروع ہوا۔بنگلہ دیش کو آئی ایم ایف سے قرض پروگرام منظور کروانا پڑا۔ اس دوران مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا ،زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی آ چکی۔گزشتہ سال تین مرتبہ کرنسی کی قیمت میں کمی کی گئی۔ آج کل آفیشل ایکسچینج ریٹ کے علاوہ دوہرے بلکہ تہرے ایکسچینج ریٹس کی موجودگی ظاہر کر رہی ہے کہ بنگلہ دیش کو ایکسٹرنل اکاؤنٹ میں آنے والے دنوں میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بنگلہ دیش میں بلاشبہ جی ڈی پی میں اضافہ ہوا، ایکسپورٹس میں اضافہ ہوا لیکن دوسری جانب سیاسی عدم برداشت کے کلچر سے سیاسی عدم استحکام اب خوفناک صورت اختیار کر چکا ہے۔ بے روزگاری اور اسکول کالج سے باہر فارغ نوجوانوں کی تعداد میں خوفناک اضافہ ہوا ہے۔ توانائی اور اشیائے خور و نوش میں اضافے کی وجہ سے درمیانے اور نچلے طبقہ کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ ان مظاہروں کی تہہ میں عمومی معاشی مسائل سیاسی گھٹن اور مایوسی کی چنگاریاں صاف دیکھی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ کو بنگلہ دیش اور اس سے پہلے کینیا میں جاری مظاہروں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ خلق خدا جب مایوس ہو جائے تو امن اور سکون چند مظاہروں کی مار ہوتا ہے۔ قابل اجمیری یاد آئے
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا