بالی ووڈ میں ماضی اورعہد حاضر کے مسلمان گیت نگار
گزشتہ کالم میں گیت نگاری کا ذکر ختم ہوا تھا، خاتون گیت نگار’’ کوثر منیر ‘‘پر، جنہوں نے انتہائی کم عرصے میں شہرت حاصل
گزشتہ کالم میں گیت نگاری کا ذکر ختم ہوا تھا، خاتون گیت نگار'' کوثر منیر ''پر، جنہوں نے انتہائی کم عرصے میں شہرت حاصل کی۔اسی طرح ''شبیر احمد ''کا تذکرہ بھی ہوا، انھوں نے بھی مختصر عرصے میں گیت نگاری کے شعبے میں حیرت انگیز صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، وہ اب تک جن فلموں کے گیت لکھ چکے ہیں،ان میں چمیلی، شبد، جب وی میٹ،آ وینس ڈے، لوآج کل، عجب پریم کی غضب کہانی،ونس اپان آ ٹائم ان ممبئی، میرے برادر کی دلہن،موسم ،روک اسٹار،کاک ٹیل، سن آف سردار، عاشقی ٹو،رانجھنا،پھٹا پوسٹر نکلا ہیرو، غنڈے اور ہائی وے شامل ہیں۔ان تمام فلموں کے گیت سپرہٹ ہیں۔
''سعید قادری''جن کی شہرت رومانوی گیت لکھنے کی ہے،انھوں نے بھی جن فلموں کے لیے گیت تخلیق کیے ، ان سپرہٹ فلموں کی کامیابی کی بنیادی وجہ ان کی گیت نگاری تھی،ان فلموں میں، جسم ، سایہ، پاپ، مرڈر، روگ، زہر، کلیوگ، گینگسٹر، بس اک پل، انور، لائف ان آ میٹرو، دی ٹرین، آوارہ پن، بھول بھلیاں، جنت، قسمت کنکشن، راز اور برفی جیسی فلمیں شامل ہیں ۔نوجوان نسل میں یہ گیت بے حد پسند کیے جاتے ہیں۔
عہد حاضر کے دیگر لکھنے والوں میں بہت سے گیت نگار ایسے ہیں،جن کو بہت زیادہ مقبولیت تو حاصل نہیں ہوئی مگر انھوںنے چند ایک کامیابیاں حاصل کرکے فلم بینوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی ہے۔کسی نے دو اورکسی نے چار اچھے گانے لکھے اوراپنی کامیابی کا راستہ بنانا شروع کردیا،کسی کو صرف ایک گانے نے ہی شہرت سے نواز دیا۔ایسے گیت نگاروں کی ایک بہت بڑی تعداد بالی ووڈ میں اپنانام بنانے کی تگ و دو میں آج بھی موجود ہے۔ ایسے ہی کچھ اورہنرمند لکھنے والوں کے صرف نام یہاں درج کررہاہوں،جن میںآنے والے وقت میں ایک بڑے گیت نگار بننے کی تمام نشانیاں موجود ہیں۔
نئے عہد کے گیت نگاروں میںرَبی احمد(اِک ولن) عرشیہ ناہید (فگلی) بلال اسد (ہیروپنٹی) شاہین اقبال (ریوالور رانی،اسپینش بیوٹی)سید گلریز (اپارٹمنٹ، آدیکھیں ذرا، وکٹری،تاج محل)حسن کمال (انور ، باغبان، آواز دے کہاں ہے) ابراہیم اشک(کہوناپیار ہے، کوئی مل گیا، جانشین، اعتبار، دس کہانیاں، ویلکم) شاہد بجنوری (یارا دلدارا) نواب آرزو(بازی گر،دل کاکیاقصور)دانش صابری(میں تیرا ہیرو) نقش لائل پوری (حنا، تاج محل)نکہت خان (بے شرم) جیسی فلموں میں ان نئے لکھنے والوں نے فلم بینوں کو اپنے ہونے کااحساس دلایا۔
یہ سلسلہ یہی ختم نہیں ہوتا،اگر ہم ذرا اور غور سے جائزہ لیں ،تونئی فلموں میں ہمیں کچھ مزید نام دکھائی دیتے ہیں، جن میںعلی حیات رضوی(مدارس کیفے) محبوب(رنگیلا،ہم دل دے چکے صنم)انور ساگر(گرل فرینڈ،کتنے دورکتنے پاس، برسات، میں کھلاڑی تواناڑی)تنویر قاضی (تارا) اسرار انصاری (سرفروش)رقیب عالم(ادا)عدیل شاہی (اسپینش بیوٹی) جنید وصی(نیویارک تیرا کیا ہو گا جونی) فرخ کبیر(اللہ کے بندے) میر علی حسین (آشیاں، موڈ، دور) شکیل اعظمی (تھری، بھیجا فرائی ٹو،نظر ،مدہوشی) شانی اسلم (موسیٰ) صاحب الہ آبادی) (آسمان، میری شادی کرو) اقبال پٹنی (سیواجی دی باس)ضمیر کاظمی(جوگرز پارک) عباس ٹائر والا (دم،لو کے لیے کچھ بھی کریگا،منا بھائی ایم بی بی ایس،چپکے سے، دے تالی، بلیو، جھوٹا ہی سہی)صائمہ ندیم(بے خودی) جیسے گیت نگار ہیں،جنہوں نے ان فلموں میں اپنے حروف کا سحر طاری کیا۔ان فلموں میں لکھے گئے گیت نغمہ گری کاجادو ہے۔ آج بھی یہ گیت کان میں پڑتے ہیں ،تو سحر طاری ہونے لگتاہے۔
ہم اگر غورکریں توہمیں چند ایسے نام بھی دکھائی دیتے ہیں، جنہوں نے ماضی اورعہد حاضر دونوں ادوار میں گیت نگاری کی اورشائقین موسیقی کو اچھے گیت سننے کو ملے،مگر اس فلمی صنعت نے انھیں وہ مقام نہیں دیا،جس کے وہ حق دار ہیں۔ ماضی کے ان گیت نگاروں میں کیفی اعظمی(تمنا،پھر تیری کہانی یاد آئی)عزیز خان(دل ہے کہ مانتا نہیں) راحت اندوری (تمنا، منابھائی ایم بی بی ایس،انتہا) جیسے شاعر شامل ہیں۔ بھارت میں ایک صحافی دوست ندیم صدیقی نے میری معلومات میںکافی اضافہ کیا۔میں ان کا شکر گزار ہوں۔
ان کی دستیاب معلومات اور میری تحقیق کے مطابق فلمی گیت نگاری میں ایک اہم نام ''حسرت موہانی'' کا بھی ہے،جن کی شہرت اگرچہ گیت نگار کی حیثیت سے نہیں تھی،مگر بہت سی فلموں کے گیتوں کا دارومدار ان کی شاعری پر ہے،جس کی ایک مثال بھارت میں سلمیٰ آغا کی مشہور فلم''نکاح''میں حسرت موہانی کی ایک غزل''چپکے چپکے رات دن'' شامل ہے،جس کوغلام علی نے گایا تھا،جب کہ اس فلم کے دیگر گیت ''حسن کمال''نے لکھے ہیں۔ یہ فلم بھی اپنے گیتوں کے حوالے سے ایک کامیاب فلم ثابت ہوئی۔ اس کے کئی گیت سلمیٰ آغا نے گائے اور فلم میں اداکاری بھی کی۔
بھارتی فلمی گیت نگاری میں ماضی کا ایک اور بہت اہم نام''حسرت جے پوری''بھی ہے،جنہوں نے موسیقار ''جے شنکر'' کے ساتھ اوراداکار راج کپور،جن کا گھریلو نام ''اقبال حسین'' تھا،ان کے ساتھ بہت سی فلموں میں گیت نگاری کی۔ اسی عہد کاایک اور مشہور نام''شمس الہٰدی بہاری'' کا ہے،جو ''ایس ایچ بہاری'' کے نام سے مشہور تھے، انھوںنے بھی بہت سے معروف گیت گائے۔بھارت دیگر اہم اورمعروف ناموں میںشمس لکھنوی اورشمیم جے پوری نے بھی گیت نگاری میں خوب نام پیدا کیا۔بھارت سے ہی تعلق رکھنے والے مجروح سلطان پوری سے تو پرانی اورنئی دونوں نسلیں واقف ہیں، انھوں نے بھی اپنے کام سے فلم نگری کے نشیب و فراز سے خوب نبھایا۔
پاکستان سے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور سے تعلق رکھنے والے سینئر گیت نگار''فاروق قیصر'' نے بھی کئی فلموں میں اپنی صلاحیتوں کاجلوہ دکھایا۔گیت نگاری کے کینوس کو مزید بڑا کرکے دیکھیں ، توہمیں کئی ایسے مزیدنام تھوڑی سی تلاش کرنے پر مل جاتے ہیں،جنہوںنے باقاعدہ گیت نگاری تو نہیں کی،مگر وہ کسی نہ کسی طرح فلمی دنیا سے جڑے رہے یا ان کی شاعری کو گیت نگاری کی طرز پر فلموں میں شامل کیا گیا،ان میں سرفہرست نام''جوش ملیح آبادی''کا ہے، جن کا حقیقی نام''شبیرحسن خان''تھا۔تقسیم ہند سے پہلے وہ شالیمارفلم کمپنی سے وابستہ ہوئے اورپونہ میں پانچ سال قیام کیا۔ اس عرصے میں اپنی صلاحیتیں فلمی دنیا کے لیے وقف کیں۔
پاکستان سے دوسرا بڑانام فیض احمد فیض کاہے،جن کی شاعری کوگزشتہ برس ریلیز ہونے والی فلم''دی ریلکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ''میں شامل کیاگیا۔یہ فلم نائن الیون کے موضوع پر پاکستانی ناول نگار کالکھاہوا ناول ہے،اسی ناول کے نام پر یہ فلم بنائی گئی ۔یہ فلم پاکستانی اوربھارتی فنکاروں کے حسین امتزاج کا نمونہ ہے،اس فلم کو ''دوہافلم انسٹی ٹیوٹ''نے پروڈیوس کیا،جب کہ اس کی ہدایت کارہ بھارتی نژاد کینیڈین شہری ''میرا نائر''ہیں۔انھوںنے ہالی ووڈ اوربالی ووڈ سے اداکاروں کو شامل کیا۔پاکستان کے قوالی میں مشہور گھرانے کے قوال ''فریدایاز''کی آواز کوفلم میں شامل کیاجب کہ فیض کی پنجابی نظم''رَبا سچیا توں تے آکھیا سی'' کو عاطف اسلم کی آواز میں کمپوز کیا۔یہ نظم دل کو چھولینے والی گائیکی کااثر لیے ہوئے ہے،جو فلم کے ڈرامائی موڑ کی عکاسی بھی کرتی ہے۔
اسی طرح پاکستان کی لوک موسیقی کے گیت نگار ایس ایم صادق ،خواجہ پرویز اوردیگر گیت نگاروں کے گانے بھی اکثر مواقعے پر بھارتی فلموں میں شامل کیے جاتے رہے ہیں،جن کا اکثر کوئی حوالہ ہی نہیں دیاجاتا۔مثال کے طور پر ایک مشہور بھارتی فلم''لائف اِن آمیٹرو''کا مرکزی گیت ''ان دنوں دل میرا''پاکستانی گیت تھا۔ہمارے دوست اور پاکستان کے معروف موسیقار ''وقارعلی''کے بقول یہ گیت ان کا لکھاہوا اور کمپوز کیا ہوا ہے،مگر یہ بھارتی فلم میں بناکسی اجازت کے اس فلم کے موسیقار''پریتم''نے شامل کرلیا اوراس پر اپنا نام بھی کندہ کردیا۔بہت سارے گیت نگار ایسے بھی ہیں،جن کی شاعری پر کسی دوسرے کا نام درج ہے،مگر مرکزی خیال ان کا ہوتا ہے،مگر وہ گمنام ہی رہ جاتے ہیں۔
فنکاروں کے دل بڑے ہوتے ہیں ،ان کا کام جذبات کی عکاسی اورترجمانی ہوتاہے۔فن اورفنکار کا سچائی سے گہرا رشتہ ہے،اس لیے فنکاروں کو چاہیے کہ وہ صرف فن کی قدر کریں ،سچائی سے اعتراف کریں ،اُن کاجنہوں نے اپنے احساسات گیت نگاری کے فن میں سموئے۔مان لینے سے مان بڑھتاہے۔فلمی صنعت کی صد سالہ تاریخ میں پاکستان کا بھی اتنا ہی حصہ ہے،جتنا بھارت کا ہے،اس کی ایک جھلک میں نے اس مختصر سی تحقیق میںپیش کی ہے۔