قانون کی دھجیاں
پچھلے ہفتے کالم نہیں لکھ سکی کیونکہ میری امی کی برسی تھی
پچھلے ہفتے کالم نہیں لکھ سکی کیونکہ میری امی کی برسی تھی ماواں ٹھنڈیاں چھاواں واقعی ماں ہوتی ہے تو کوئی غم نہیں ہوتا اور جب ماں نہیں ہوتی تو کوئی اپنا نہیں ہوتا ۔ ہر ایک کو اپنی ماں سب سے پیاری لگتی ہے میری ماں بھی دنیا کی سب سے پیاری ماں تھی اماں جی نے خود تو ساری زندگی تکلیفیں اٹھائیں مگر ہماری ساری پریشانیوں کو اپنے سر لے لیتی تھیں جس دن ان کا انتقال ہوا بالکل ٹھیک تھیں سارا دن ہم سے خوب باتیں کیں باقی سارے بہن بھائی اپنے کاموں پر تھے پورا دن اماں جی نے میرے ساتھ گزارا سارا دن ہم نے خوب باتیں کیں اور حیرت انگیز طور پر انھوں نے بتادیا تھا کہ آج میرا دنیا میں آخری دن ہے میں کل کا دن نہیں دیکھوں گی۔
ہم سب ہنسنے لگے اور کہنے لگے امی! ایسی باتیں نہ کرو، کیا آپ کو بشارت ہونے لگی ہے؟ تو کہنے لگیں کہ کل جب میں نہیں ہوں گی جب تم یاد کروگے میری بات کو۔ اور واقعی رات 9 بجے طبیعت خراب ہوئی ہلکی سی گھبراہٹ ہوئی کوئی بھائی اس وقت موجود نہیں تھا میں ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی۔ راستے میں کہنے لگیں میں اب نہیں بچوں گی مگر میری بات یاد رکھنا تو بہت ترقی کرے گی ۔ آج جب میں اپنے کالم چھپتے دیکھتی ہوں ان پر تبصرے کی ای میل پڑھتی ہوں تو مجھے اماں کی باتیں یاد آتی ہیں۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں اپنی ماں کی دعاؤں کے طفیل ہوں کہ جو نزع کے سفر میں بھی مجھے دعاؤں میں یاد رکھے ہوئے تھیں اور یہ سب ان کی دعاؤں کا ہی نتیجہ ہے مرتے وقت بھی ان کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا میں آج تک وہ نظارہ نہیں بھول سکتی کہ میری ماں نے کلمہ پڑھا اور بات کرتے کرتے ان کی روح پرواز کرگئی ۔
سات برس بیت گئے ، امی کے انتقال کو مگر لگتا ہے ہمارے آس پاس ہی موجود ہیں مجھے ہر قدم پر اپنی ماں کی کمی محسوس ہوتی ہے میری قارئین سے التماس ہے کہ میری والدہ رئیسہ یاسمین کی مغفرت کے لیے ضرور فاتحہ خوانی اور دعا کریں۔
یہی وجہ تھی کہ دل بہت اداس تھا ایک عجیب سی کیفیت تھی مگر کیا کریں دنیا کے جھمیلوں میں واپس آنا ہی پڑتا ہے اس دوران فیڈریشن چیمبر آف کامرس اور دی ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی جانب سے ذہنی اور جسمانی تشدد کے متاثرین کے عالمی دن کے موقعے پر ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا ۔ یہ سیمینار ہیومن رائٹس کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے آرگنائز کیا جس کے مہمان خصوصی سینئر صحافی غازی صلاح الدین تھے اور صدارت کراچی یونیورسٹی شعبہ ابلاغیات کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود نے کی۔ موضوع کے اعتبار سے ایک منفرد سیمینار تھا جس میں مقررین نے موضوع کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
اسٹینڈنگ کمیٹی ہیومن رائٹس اور دی ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر فرحانہ اقبال نے سیمینار اور کمیٹی کے اغراض و مقاصد بتائے۔ غازی صلاح الدین نے بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر طاہر مسعود نے کہا کہ قانون جب تک تمام لوگوں کے لیے برابر نہیں ہوگا معاشرے میں اسی طرح تشدد کی لہر برقرار رہے گی۔ مددگار ہیلپ لائن کی بشریٰ سعید نے خواتین کے حقوق کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ خواتین پر مردوں کا تشدد بڑھتا جا رہا ہے خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کو پہچانیں اور کسی بھی مصیبت کی صورت میں ان سے رجوع کریں اس کے بعد سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔
حقیقت تو واقعی یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ اس وقت زوال کا شکار ہے لوگوں میں تشدد کی بڑھتی ہوئی لہر اور قانون کی بالادستی نہ ہونے کی وجہ سے معاشرہ عدم توازن کا شکار ہے۔ آج جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ نظر آتا ہے حالیہ دنوں میں لاہور میں پولیس اور مشہور زمانہ گلو بٹ کی حرکتوں کا اگر مشاہدہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اگر قانون کی حکمرانی ہوتی تو اس طرح کے واقعات جنم نہ لیتے طاہر القادری کو خاموشی سے آنے دیا جاتا اور انا کا مسئلہ نہیں بنایا جاتا تو کچھ نہ ہوتا مگر جس طرح سے ان کی آمد سے پہلے ماڈل ٹاؤن میں ان کے گھر کے پاس رکاوٹیں ہٹانے کا عمل کیا گیا اور پولیس نے کارکنوں کو فائرنگ کرکے ہلاک اور زخمی کیا گیا جس میں خواتین بھی شامل تھیں اور پھر اس کے بعد جس طرح سے اپنے اقدامات کی صفائی دی گئی وہ خود ان کے لیے باعث پریشانی بن چکا ہے۔
کیونکہ صوبے کا سربراہ وہاں کے تمام حالات و واقعات کا ذمے دار ہوتا ہے اسے ان سے بری الذمہ نہیں قرار دے سکتے ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ انسانی جانوں کا ضیاع کیا گیا اور پھر کہا گیا کہ لاہور میں 8 جانوں کے ضایع ہونے پر واویلا مچایا جا رہا ہے کراچی میں تو اس سے زیادہ لاشیں روزانہ گرتی ہیں حالانکہ کراچی دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہے جب کہ لاہور کی دہشت گردی وہاں کی پولیس کی مرہون منت ہے۔
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی تو پھر داد رسی عوام کے لیے کس کے پاس جائیں ۔اس لیے کہا جاتا ہے کہ معاشرتی اونچ نیچ، انتہا پسندی اور جرائم کو جنم دیتی ہیں پاکستانی معاشرے میں تو یہ حال ہے کہ ہر سطح پر انصاف ناپید ہے اور جب لوگوں کو انصاف نہیں ملتا تو وہ دیگر جرائم کی طرف مائل ہوجاتے ہیں کیونکہ فرسٹریشن کو کہیں تو نکلنا ہے ہر طرف ہنگامے توڑپھوڑ جلاؤ گھیراؤ یہ سب کیا ہے پستی کی طرف جاتے ہوئے معاشروں میں اپنی کتھارسس کا یہی راستہ رہ جاتا ہے۔
گاندھی عدم تشدد کے پرچارک تھے مگر جب تحریک آزادی کی لہر اٹھی تو انھوں نے ہندوستان کے رہنے والوں سے کہہ دیا کہ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لو یہ قانون انگریزوں کا بنایا ہوا ہے اور انگریز ہمارے دشمن ہیں ہمارے ملک پر قابض ہیں سول نافرمانی کی اس تحریک نے قانون کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں اور یہی وجہ تھی کہ تقسیم کے بعد جو صورتحال سامنے آئی تو لاکھوں لوگوں کو مار دیا گیا گھروں کو جلاکر سامان کی لوٹ مار کی گئی۔
نفرت کی انتہائی سطح پر پہنچ کر تشدد کی ہر راہ کو اپنایا گیا۔یہ سب تشدد اور عدم برداشت کے تحت کیا گیا اور جب سے آج تک برصغیر پاک و ہند میں تشدد، عدم برداشت نے ختم ہونے کی بجائے اس آگ کو اور بھڑکایا ہے ۔ ہمارا یہ کہنا ہے کہ اگر پاکستانی معاشرے کو بچانا ہے تو مہذب معاشروں کی طرح غلط باتوں پر اپنا احتجاج ضرور ریکارڈ کروائیں ،لیکن کسی ایسے عمل سے ضرور گریز کرنا چاہیے کہ جس سے ملک کی سلامتی اور بقا کو نقصان پہنچے ۔