انگلش لینگویج سرٹیفکیٹ اسکینڈل برطانیہ میں کھلبلی مچ گئی

ہزاروں غیرملکی طلبا نے انگریزی زبان میں اہلیت کی جعلی اورمشکوک سندوں پر داخلے حاصل کیے


Nadeem Subhan July 01, 2014
ہزاروں غیرملکی طلبا نے انگریزی زبان میں اہلیت کی جعلی اورمشکوک سندوں پر داخلے حاصل کیے۔ فوٹو : فائل

ہر سال ہزاروں افراد روشن مستقبل کی امید میں اسٹوڈنٹ ویزا پر برطانیہ جاتے ہیں۔

2011ء میں امیگریشن ڈیپارٹمنٹ نے برطانوی تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے کے غیریورپی خواہش مندوں کے لیے انگریزی زبان میں ماہر ہونے کی شرط عائد کردی تھی۔ انگریزی زبان میں مہارت ثابت کے لیے مختلف مجاز اداروں سے سرٹیفکیٹ کا حصول ضروری ہوتا ہے۔

مگر حال ہی افشا ہونے والے اسکینڈل نے محکمہ داخلہ میں کھلبلی مچادی ہے۔ امیگریشن منسٹر جیمز بروکنشائر نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ برطانیہ میں داخل ہونے والے 48000 تارکین وطن نے اسٹوڈنٹ ویزا سسٹم کی خامیوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ان میں سے بیشتر افراد نے انگریزی زبان میں مہارت کے جعلی سرٹیفکیٹس حاصل کرکے امیگریشن حکام کی آنکھوں میں دھول جھونکی۔ جیمز بروکنشائر کے مطابق جعلی سرٹیفکیٹس کے دھندے کو جرائم پیشہ گروہ چلا رہے ہیں۔



وزیر کے مطابق اسٹوڈنٹ ویزا سسٹم کو باقاعدہ ایک مرحلہ وار نظام کے تحت شکست دی گئی جس کی وجہ سے انگریزی حروف تہجی سے نابلد لوگ بھی ملک میں سکونت پذیر ہونے میں کام یاب رہے، اور بہت سوں نے برطانوی شہریت بھی حاصل کرلی۔ اس اسکینڈل میں انگریزی کی استعداد جانچنے والے بدعنوان ممتحن بھی شامل تھے جو خود امیدواروں کو سوالوں کے جواب پڑھ کر سناتے تھے یا امتحان میں امیدوار کے ساتھ اس کے ساتھیوں کو بھی بیٹھنے کی اجازت دیتے تھے جو امتحان پاس کرنے میں امیدوار کی مدد کرتے تھے۔ اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے'' نیشنل کرائم ایجنسی'' کی خدمات حاصل کی گئی ہیں اور اس ضمن میں کچھ گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں۔

گذشتہ ماہ ایک برطانوی اخبار میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شایع ہوئی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہLearn Pass Succeed نامی ادارہ انگریزی زبان میں مہارت کی سند ( انگلش لینگویج سرٹیفکیٹ ) فروخت کرنے میں ملوث تھا۔ مذکورہ ادارے کو محکمہ داخلہ نے غیرملکیوں سے انگریزی زبان کا امتحان لینے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یہ ادارہ پانچ سو پاؤنڈز کے عوض سرٹیفکیٹ فروخت کررہا تھا۔ ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ برطانوی یونی ورسٹی کے غیرملکی طالب علم نے ایک سال کے دوران بیس ہزار پاؤنڈز کمالیے جب کہ قوانین کے مطابق غیرملکی طلبا ہفتے میں بیس گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کرسکتے۔



برطانوی امیگریشن منسٹر کے مطابق تحقیقات کے دوران 29000 جعلی سرٹیفکیٹس برآمد ہوئے ہیں جب کہ 19000 سرٹیفکیٹ کے امتحانی نتائج مشکوک پائے گئے ہیں، مگر انھوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ جعلی اور مشکوک سرٹیفکیٹس کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔ غیرملکی طلبا برطانوی تعلیمی اداروں کے لیے آمدنی کا پُرکشش ذریعہ ہیں جن سے وہ فیس کی مد میں بیس ہزار پاؤنڈز فی طالب علم تک وصول کرتے ہیں۔ جعلی سرٹیفکیٹس کا اسکینڈل طشت از بام ہوجانے کے بعد ان یونی ورسٹیوں اور کالجوں کے خلاف بھی کارروائی ہورہی ہے جنھوں نے جعلی یا مشکوک سرٹیفکیٹ کے حامل طلبا کو داخلے دیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان طلبا کے خلاف بھی کارروائی کی جارہی ہے۔

ویلز میں واقع گلنڈر یونی ورسٹی میں 350 طالب علموں کے انگلش لینگویج سرٹیفکیٹ جعلی یا مشکوک پائے گئے جس کے بعد مذکورہ یونی ورسٹی کے غیرملکی طالب علموں کو داخلہ دینے پر پابندی لگادی گئی۔ اسی طرح 57 نجی کالجوں کے غیرملکی طلبا کو داخلہ دینے کے اجازت نامے بھی منسوخ کردیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد طالب علموں کے داخلے بھی منسوخ کیے گئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں