’’ الجھی زلفیں‘‘ ایک اہم دستاویز
تانیثیت کے عنوان سے عورت کا اپنے آپ کو منوانے کی جدوجہد تحریک کی شکل میں آئی ہے
گزشتہ دنوں ایک ادبی قافلے کیساتھ بذریعہ کوسٹر رواں دواں تھے، اسی دوران پانی، فروٹ کیساتھ ''الجھی زلفیں'' جوکہ خواتین کے حقو ق کے حوالے سے ایک ضخیم کتاب ہے ہم سب قلمکاروں کو تحفتاً پیش کی گئی، اورکمال بات یہ ہے کہ ہر صفحے پر عورت کی داستان رقم ہے، عورت کے عز م واستقلال اور جدوجہد کی کہانیاں بکھری ہوئی ہیں، یہ کتاب پڑھنے سے تعلق تو رکھتی ہے لیکن اس کیساتھ ان خواتین کیلئے تحریک بھی پیدا کرتی ہے، جو اپنے حقوق سے ناواقف ہیں، زندگی جینے کا ڈھنگ سکھاتی ہے ، اس کی حیثیت ایک دستاویزکی سی ہے، جسے طالبات اور دوسری خواتین کو ضرور پڑھنا چاہیے، اصل کامیابی تو انسان کی اپنی ذاتی زندگی ہے، اگر وہ کامیاب ہے قوس و قزح کے رنگوں سے مرصع ہے اگر نہیں تو پھر تعلیمی ڈگریاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔مذکورہ کتاب میں ''آج کی عورت'' کے عنوان سے محمود شام کا بصیرت افروز مضمون بھی عورت کی صلاحیتوں کی کاوشوں اور محمود شام کی خلوص نیت کی عکاسی کرتا ہے، انہوں نے عورت کی صلاحیت اور اہمیت کو اجاگرکیا ہے، اس ہی حوالے سے ایک شعر بھی درج ہے۔ قتیل شفائی نے کہا تھا۔
جو ہم نہ ہوں تو زمانے کی سانس رک جائے
قتیل وقت کے سینے میں ہم دھڑکتے ہیں
ا س ہی مضمون سے چند سطور ملاحظہ فرمائیں جو پاکستان اوردوسرے ممالک کی عورتوں کے حقوق کی عکاس ہیں۔ ''اطراف'' نے اپنے پہلے شمارے سے عورت کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھا ہے اور مسلسل کوشش کی ہے کہ اپنے قارئین کو مستند معلومات پہنچائیں، پاکستان میں عورت کوکیا حقوق حاصل ہیں، عالمی سطح پر خاتون کو اس کا ارفع رتبہ دیا جا رہا ہے یا نہیں، امریکا میں عورت کوکیا حقوق حاصل ہیں، ووٹ دینے کا حق کب ملا، برطانیہ میں عورتیں کیا اپنی حیثیت سے مطمئن ہیں، عرب دنیا میں مسلم عورت کا سماجی رتبہ کیا ہے، افریقہ اور ایشیا میں خاص طور پر بھارت اور بنگلہ دیش میں عورت کی آزادی کی جدوجہدکتنی کامیاب ہوئی ہے،
ماہنامہ ''اطراف'' نے عظیم مملکت پاکستان کے مختلف حصوں، پنجاب، سرائیکی، سندھی، پشتون، بلوچ،کشمیری، بلتستان کی ماؤں، بہنوں کے بارے میں بھی تفصیلی تحریریں شامل کی ہیں۔ ''اطراف'' میں شائع ہونیوالی تحریریں جب یکجا کی گئیں تو بامعنی اور مؤثر تحریروں کا گلدستہ ''الجھی زلفیں'' کی شکل میں قارئین کے ہاتھوں میں آگیا ہے۔
ابتدائی صفحات میں عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر محمد خالد مسعود کا مضمون تانیثیت کے حوالے سے فکرانگیز اور اسلامی تعلیمات کو مدنظر رکھتے ہوئے قلمبندکیا گیا ہے جو خواتین کیلئے علم وآگہی کا درجہ رکھتا ہے، تانیثیت کے عنوان سے عورت کا اپنے آپ کو منوانے کی جدوجہد تحریک کی شکل میں آئی ہے، ڈاکٹر محمد خالد مسعود نے ملکی اور غیر ملکی ان خواتین کا ذکر کیا ہے جنہوں نے خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور اپنی کاوش کے نتیجے میں صعوبتیں برداشت کیں ، انہی میں قاسم امین تحریر المرآ 1899ء خواتین کے اعتراضات کے مردوں کے نقطہ نظر سے لکھی گئی ہے، عائشہ عبد الرحمن بنت الشاطی نے قرآن کی تفسیر لکھی، فاطمہ مر ینی (2015-1940) کا تعلق مراکو سے تھا، عربی دنیا میں اسلامی تحریک حقوق نسواں کی اولین صف کی خواتین میں شمار ہوتی ہیں، انہوں نے مختلف یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی۔
تحقیق کا میدان بھی خواتین کے حقوق کے تعلق سے تھا۔ لیلی احمد کا تعلق مصر سے تھا، ہارورڈ یونیورسٹی کے ڈیوپنیٹی اسکول میں خواتین کے مطالعات کے میدان میں پہلی خاتون پروفیسر مقرر ہوئیں، 1992میں '' اسلام میں خواتین اور صنف'' عرب مسلم معاشرتوں کا تاریخی تجزیہ کے عنوان سے کتاب لکھی، جس میں انہوں نے وضاحت سے لکھا کہ عورتوں کے خلاف جو بھی رواج ہیں وہ اسلام کی ایسی تعبیرات ہیں جو پدرسری سے متاثر لوگوں نے پیش کی ہیں، پھر بہت سی نامور خواتین کے نام فہرست میں شامل ہیں، ڈاکٹر رفعت حسن نے پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف تحریک چلائی، ان کی کتاب'' اسلام میں عورتوں کے حقوق (2005) نسوانیت کے نقطہ نظر سے قرآن کا مطالعہ'' ہے، زینہ انوار ملائیشیا سے تعلق رکھتی ہیں، انہوں نے ملائیشیا میں خواتین پر ہونیوالے مظالم کیخلاف وکلا ء کیساتھ مل کر ایک تنظیم بنائی جو بہت جلد سسٹران اسلام کی فعال تحریک میں بدل گئی۔
سسٹران اسلام جو قرآن کی بنیاد پرخواتین کے حقوق، ناانصافی، عدل اور جمہوریت کی جدوجہد کا نام لیتی، عبد المنان معاویہ کا مضمون بقول محمود شام انتہائی جامع اور چشم کشا کوزے میں سمندر بندکرنے کے مترادف ہے، بے شک مصنف قرآنی آیات کے تراجم شیخ الاسلام مولانا محمد تقی عثمانی کی سورہ ''نساء' ' کی تفسیرکو بھی احاطہ تحریر میں لائے ہیں، دوسرے مفسرین قرآن کا تذکرہ بھی آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے، ڈاکٹر سید جعفر احمد کا مضمون بھی خاصے کی چیزہے، ممتازصحافی مہناز رحمن عورت کو اس کے حقوق دلانے کیلئے پیش پیش رہتی ہیں، عورت کے حوالے سے ان کی تحریر قابل مطالعہ ہے، اس کیساتھ ہی ڈاکٹر شہنازشورو نے ہمیشہ کی طرح بے حد مدلل مضمون قلمبندکیا ہے،''آدھی گواہی'' کے عنوان سے ایک نظم بھی ''الجھی زلفوں '' کی گواہ ہے کہ کس طرح ایک معصوم عورتوں کی چیخیں اور اس کی کربنا کیوں سماج کے طاقتوروں نے گلا گھونٹا ہے، اس کے خواہشات کو پیروں تلے کچلا ہے، اسے اور اس کے ارمانوں کو سولی پر چڑھایا ہے، اسے ستی کیا گیا، اس کی مرضی کے بغیر ایک ایسے آدمی کے پلے باندھ دیا گیا جو اسے اپنی مرضی سے اسے نچاتا اور حکم کا غلام بنا کر فخر محسوس کرتا ہے محض اپنی تسکین اور انا کیلئے، کتاب ''الجھی زلفیں'' میں قابل قدر خواتین کی آواز تحریرکی شکل میں نظر آتی ہے، انہوں نے ان کے جائز حقوق دلانے کیلئے شب وروزکوشش کی ہے۔
تحاریروتقاریر کے ذریعے ، ''پناہ بلوچ'' صاحبہ نے بلوچستان کی عورت کی شبانہ روز محنت، دیانت داری اور وفا شعاری پر معلوماتی مضمون درج کیا ہے، اس ہی طرح پروفیسر جویریہ یاسمین نے کشمیری عورت کے حوالے سے بھرپور اور بہترین تحریر لکھی ہے۔ عصمت چغتائی ، قرۃ العین حیدر، کشور ناہید، شمیم اختر، بیگم شائستہ اکرام اللہ، یہ وہ نامور خواتین ہیں جن کا ہر حال میں قلم سے رشتہ استوار رہا، آج کی نسل کیلئے ان کا کام مشعل راہ ہے ۔ محمود شام کی سوچ و فکر مثبت اور اعلیٰ ہے وہ بلا تفریق نسل و قوم اپنے ملک اور ملک کے باسیوں کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ، ان کا رسالہ ماہنامہ اطراف اس بات کا بہتر ثبوت ہے جو پابندی سے شائع ہوتا اور معاشرے کے ان لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جنہوں نے ملکی سطح پر اہم امور انجام دیے اور ان کے بارے میں بھی آگاہ کرتا ہے جو بے شمار مسائل میں گھرے ہوئے ہیں ان کا حوصلہ بڑھانے اور مدد کرنے کیلئے مختلف ان راہوں کو تعین کرتا ہے جن پر چلنے سے امید کی کرن روشن ہوتی ہے۔