سیاسی خلفشارکب تک
عمران خان بھی اپنے مخالفین کے خلاف سخت رویہ رکھنے والے کہے جاتے ہیں
ٹرمپ پر ہونے والے جان لیوا حملے کا مقابلہ بعض لوگ عمران خان پر وزیر آباد میں ہونے والے حملے سے کر رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو ان دونوں حملوں میں بہت فرق ہے۔کچھ لوگوں کے مطابق عمران خان پر حملہ آور نے اس زاویے سے فائرنگ کی کہ ان کے صرف پیروں میں گولیاں لگیں، لوگ انھیں سہارا دے کر اسٹیج سے نیچے لے گئے تھے جب کہ ٹرمپ کو لگنے والی گولیوں کا نشانہ ٹھیک ان کا سر تھا۔ وہ تو ان کی قسمت اچھی تھی کہ ایک گولی صرف ان کے کان کو چھوکر گزرگئی۔ اس گولی نے ان کے کان کو زخمی کردیا تھا۔ کان سے بہنے والے خون نے ان کے چہرے کو خون آلودہ کردیا تھا۔ ان کے پیچھے ان کی پارٹی کے لوگوں کو گولیاں لگیں جس سے ایک فرد تو اسی وقت ہلاک ہوگیا تھا۔
عمران خان کے جلسے میں خیر سے وہ تو محفوظ رہے تھے البتہ ان کا ایک شیدائی مارا گیا تھا۔ عمران خان پر حملہ کرنے والے کو تحریک انصاف کے کارکنوں نے بہادری سے پکڑ لیا تھا مگر ٹرمپ کا حملہ آور نوجوان جو اسٹیج سے کچھ ہی دور ایک چھت پر موجود تھا ہلاک کر دیا گیا تھا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ آور کو انھوں نے دیکھ لیا تھا وہ چھت پر رائفل لیے بیٹھا تھا، ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے حملہ آور کی جانب پولیس کی توجہ مبذول کرائی تھی مگر انھوں نے کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ تاہم عمران خان کے حملہ آورکو تو پولیس نے اپنی گرفت میں لے لیا تھا ۔
اکثر لوگ سیاست میں بھی عمران خان کا مقابلہ ٹرمپ سے کرنے لگتے ہیں۔ ٹرمپ نے امریکی سیاست میں نیا رنگ پیدا کیا ہے۔ انھوں نے اپنے مخالفین پر سخت غصہ دکھانے کے علاوہ ان کا مذاق بھی اڑایا ہے۔ جو پورے چار سال اپنے صدارتی دور میں امریکا کا کم اور اسرائیل کا زیادہ بھلا کرتے رہے۔ انھوں نے اسرائیل کو ایسے ایسے ممالک سے تسلیم کروا دیا جن کے بارے میں کوئی پہلے سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ متحدہ عرب امارات، عمان ،سوڈان اور بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کیے جو آج بھی ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما ٹرمپ کے اس قصور کو بار بار دہراتے ہیں کہ انھوں نے کیپٹل ہل پر حملہ کرا کے امریکا کی سیاسی تاریخ پر سیاہ دھبہ لگادیا ہے۔ ٹرمپ نے واقعی امریکی سیاست میں زور اور جبر کو پہلی دفعہ متعارف کرایا ہے ، اس سے قبل ایسا نہیں ہوتا تھا مگر اسے کیا کہیے کہ اس کے باوجود امریکی عوام نے انھیں صدارتی انتخابات میں کامیاب کرایا اور وہ امریکا کے صدر بن گئے تھے۔
عمران خان بھی اپنے مخالفین کے خلاف سخت رویہ رکھنے والے کہے جاتے ہیں مگر ان کی گزشتہ انتخابات میں کامیابی کی وجہ ان کا '' تبدیلی'' کا نعرہ تھا جو عوام کو بہت بھایا تھا۔ عمران خان بلاشبہ مقتدرہ کے چہیتے تھے ۔ اقتدار سے ہٹائے جاتے وقت ہی انھوں نے کہہ دیا تھا کہ ان سے چھیڑ چھاڑ مہنگی پڑے گی اور اب ان کی وہ بات بالکل سچ ثابت ہو رہی ہے۔ بہرحال اب حالات اس نہج پر آچکے ہیں کہ حکومت ان کی پارٹی پر پابندی لگانے کا سوچ رہی ہے۔ تقریباً تمام ہی سیاسی پارٹیاں تحریک انصاف پر پابندی لگانے کی مخالفت کررہی ہیں۔ ادھر اب تحریک انصاف مشکل حالات سے باہرآگئی ہے۔ اسی لیے اس کے وہ رہنما اورکارکنان جو اسے نو مئی کے بعد چھوڑ کر چلے گئے تھے اب اس کے قریب آتے جارہے ہیں۔
اب تو حال یہ ہے کہ پی ٹی آئی میں نئے اور پرانے رہنماؤں میں کھینچاؤکا ماحول ہے، جو نئے لوگ پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں وہ پرانوں کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں بعض پرانے رہنماؤں پر پارٹی کے دروازے بند کردیے گئے ہیں مگر ابھی اس کا فیصلہ بانی ہی کریں گے کیونکہ اس ضمن میں آخری فیصلہ ان کا ہی ہوگا۔ پرانے لوگوں کے پی ٹی آئی میں واپس آنے کی وجہ واضح ہے کہ اب اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے پارٹی کو مسلسل ریلیف مل رہا ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی کو سب سے بڑا ریلیف مخصوص نشستوں کے کیس میں مل چکا ہے۔
ن لیگ کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ فیصلے میں آئین اور قانون کو کم اور سیاسی مصروفیات کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ پی ٹی آئی کے رہنما فیصلے کو حق و انصاف کی فتح قرار دے رہے ہیں۔ انھوں نے الیکشن کمشنر کے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا ہے ۔ الیکشن کمشنرکا کہنا ہے کہ ''انھوں نے جو بھی کیا ہے آئین اور قانون کے مطابق کیا ہے۔'' ن لیگ اب مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل لے کرگئی ہے، دیکھیے کیا ہوتا ہے ۔