تنازع فلسطین اور اسرائیل
مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک بھی کسی نہ کسی حوالے سے اس تنازعے سے متاثر ہو رہے ہیں
جب سے غزہ کا تنازع شروع ہوا ہے، اسرائیل کی جارحیت مسلسل جاری ہے۔ عالمی اداروں اور عالمی سربراہوں نے بارہا دفعہ اسرائیل کو غزہ میں جنگ بند کرنے کا کہا ہے لیکن اسرائیل کی حکومت نے کسی کی بات نہیں مانی اور وہ مسلسل فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے۔ عالمی عدالت انصاف بھی اسرائیلی حکومت کو غزہ میں جنگ بند کرنے کا حکم دے چکی ہے مگر اس کے باوجود فسطینیوں کا قتل عام جاری ہے۔ اب عالمی عدالت انصاف نے فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کو غیر قانونی قرار دے دیا ۔ عالمی عدالت انصاف کے جسٹس نواف سلام کی سربراہی میں آئی سی جے نے قرار دیا ہے کہ اسرائیل کو جتنا جلد ممکن ہو فوری طور پر مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے نکل جانا چاہیے۔ عالمی عدالت میں سماعت کے دوران دلائل دینے والوں کی اکثریت نے کہا کہ اس قبضے سے مشرق وسطیٰ اور دیگر علاقوں میں میں استحکام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
عالمی عدالت انصاف نے فیصلہ تو دے دیا ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایسے فیصلوں پر عملدرآمد کون کروائے گا؟ امریکا، برطانیہ، فرانس اور یورپی یونین کھل کر اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔ عرب لیگ بھی اس حوالے سے مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہے کیونکہ فلسطینیوں کی سیاسی قیادت کے حوالے سے عرب ملکوں کی اپنی اپنی پالیسی ہے۔ زیادہ تر ممالک حماس کے حق میں نہیں ہیں۔ ایران، عراق، شام، حزب اللہ کے زیرکنٹرول لبنان اور حوثی کے زیرکنٹرول یمن کھل کر حماس کی حمایت کر رہے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو اسلامی ممالک فلسطینیوں کی سیاسی قیادت کے حوالے سے اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل تمام تر دباؤ کے باوجود غزہ میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ادھر یمن کے حوثیوں نے اسرائیل کے شہر تل ابیب میں امریکی سفارت خانے کے قریب ڈرون سے حملہ کردیا ہے۔ عالمی میڈیا کے حوالے سے پاکستانی میڈیا نے خبر دی ہے کہ اس حملے میں ایک شخص ہلاک اور 10افراد زخمی ہوئے ہیں۔ میڈیا کے مطابق حوثیوں نے اعلان کیا ہے کہ یہ اسرائیل کے خلاف ہماری لڑائی کا نیا مرحلہ ہے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق تل ابیب میں علی الصبح تین بج کر بارہ منٹ پر دھماکا ہوا۔
تل ابیب اسرائیل کا دارالحکومت رہا ہے اور اب بھی کئی سفارت خانے اس شہر میں کام کر رہے ہیں۔ حوثیوں کے اس حملے میں صداقت ہے تو اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ غزہ کا تنازع مسلسل پھیل رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک بھی کسی نہ کسی حوالے سے اس تنازعے سے متاثر ہو رہے ہیں۔ بحیرہ احمر میں موجود امریکا اور اتحادی ممالک کے فوجی اڈوں سے یمن میں کئی بار بمباری ہوئی ہے۔ حوثی فوج نے بھی بحیرہ احمر میں امریکی بحری جہازوں اور تجارتی جہازوں کو کئی بار نشانہ بنایا ہے۔ یوں بحیرہ احمر میں تجارتی سرگرمیاں کم ہوئی ہیں۔ اس کے اثرات مشرق وسطیٰ کے علاوہ بحیرہ روم کے اردگرد ممالک تک مرتب ہو رہے ہیں۔ ایک دوسری خبر کے مطابق اسرائیلی ٹینکوں کی رفح میں دوبارہ پیش قدمی شروع ہوگئی ہے۔ وسطی و شمالی غزہ میں اسرائیلی طیاروں کی بمباری بھی جاری رہی۔ بمباری کی شدت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ مزید 50سے زیادہ فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی اہلکار میریس گیمنڈ نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی جنگ خواتین کے خلاف ہے۔ اس جنگ میں 10 ہزار سے زائد خواتین شہید ہوچکی ہیں۔ 6ہزار زائد خاندانوں کے بچے اپنی ماں سے محروم ہو چکے ہیں اور تقریبا 10 لاکھ خواتین اور بچیاں اپنے گھروالوں سے محروم ہو چکی ہیں۔
یہ اعداد وشمار انتہائی افسوس ناک اور الم ناک ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر جنگ میں سب سے زیادہ نقصان خواتین کو پہنچتا ہے۔ مرد تو دوران جنگ مارے جاتے ہیں یا پکڑے جاتے ہیں، آخری حربے کے طور پر مرد جنگجو فرار ہو کر محفوظ ٹھکانوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس خواتین اور بچے اتنی آزادی سے نقل وحرکت نہیں کر سکتے۔ نسل انسانی کا یہ کمزور حصہ ہمیشہ جنگوں کا نشانہ بنتا آیا ہے۔
غزہ میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اس صورت حال کے باوجود غزہ میں جنگ بند نہ ہونا، بے رحمی اور بے حسی کی ایسی مثال ہے جو آج کی مہذب دنیا میں کم ہی دیکھنے میں آئے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ سے انخلا کے حکم نے محصورین کو نقل مکانی کے لیے مجبور کر دیا ہے۔ شمالی غزہ میں امدادکی ترسیل میں حائل مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لین جیان نے کہا ہے کہ چین یکجہتی کے فروغ کے لیے فلسطینی دھڑوں کی حمایت کرتا ہے۔
سعودی عرب نے اسرائیلی افواج کے مسجد الاقصیٰ پر حملے اور پارلیمنٹ کی جانب سے فلسطینی ریاست کے قیام کو مسترد کرنے کی قرارداد کی شدید مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل گوتریش نے اسرائیلی پارلیمنٹ کی جانب سے فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف قرارداد کی منظوری پر مایوسی کا اظہار کیا اور اس مذمت کی ہے۔ اردن کی وزارت خارجہ نے بھی اسرائیلی پارلیمنٹ میں قرارداد کو قابل مذمت قرار دیا۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان کربی نے اسرائیلی پارلیمنٹ کی قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو ریاستی حل کے حصول کے لیے ہم ہر ممکن کوشش کرتے رہیں گے۔ ہسپانوی حکام نے تین افراد کو اسپین میں اور ایک کو جرمنی میں ایک نیٹ ورک سے تعلق کے شبے میں گرفتار کرلیا۔ یہ نیٹ ورک لبنانی گروپ حزب اللہ کو کامیکاز ڈرون بنانے کے لیے پرزے فراہم کرتا تھا۔ اسرائیل نے حوثیوں کے تل ابیب پر حملے کا بھرپور جواب دینے کی دھمکی دی ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان ہگاری نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کے حملے میں استعمال ہونے والا ڈرون ایرانی ساختہ تھا۔ اسرائیلی وزیر دفاع گیلنٹ نے کہا کہ اس حملے کا انتقام لیا جائے گا۔ اسے موثر اور حیران کن طریقے سے جواب دیا جائے گا۔
غزہ اور مشرق وسطیٰ کا منظرنامہ واضح ہے۔ اسرائیل کی پالیسی بھی واضح ہے۔ اسرائیل کی پالیسی یہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے باہر دھکیلنا چاہتا ہے۔ اب وہ دو ریاستی حل سے بھی پیچھے ہٹ گیا ہے۔ اس کی مثال اسرائیلی پارلیمنٹ کی قرارداد ہے جس میں دوریاستی فارمولے کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ یوں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازعے کے حل کا ایسا راستہ جس پر تقریباً سارے عرب ممالک متفق ہیں، وہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔امریکا کہہ رہا ہے کہ وہ دو ریاستی حل کے لیے کوششیں جاری رکھے گا لیکن اس وقت امریکا کی انتظامیہ کوئی غیرمعمولی فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا میں صدارتی الیکشن ہونے والے ہیں۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ریپبلکن پارٹی نے اپناصدارتی امیدوار نامزد کر دیا ہے جب کہ ڈیموکریٹک پارٹی نے موجودہ صدر جوبائیڈن کوامیدوار کے طور پر پیش کر رکھا ہے لیکن جوبائیڈن کی صحت کے حوالے سے مختلف قسم کی چہ مگوئیاں گردش میں ہیں۔ گزشتہ دنوں وہ کورونا وائرس کا بھی شکار ہوئے ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر بھی اس قسم کی آوازیں اٹھی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ جوبائیڈن کو صدارتی الیکشن نہیں لڑنا چاہیے۔ بہرحال چونکہ امریکا میں صدارتی الیکشن کی مہم شروع ہو چکی ہے،ایسے حالات میں امریکی انتظامیہ کی روایت یہی ہے کہ وہ صدارتی مہم کے دوران کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرتی۔ جہاں تک
عوامی جمہوریہ چین کا تعلق ہے، تو چین اسرائیل میں اتنا اثرورسوخ نہیں رکھتا کہ وہ اسرائیلی حکومت کو غزہ میں فوری جنگ بندی پر مجبور کر سکے البتہ چینی قیادت مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک اور اسرائیل دونوں کے لیے ناپسندیدہ بھی نہیں ہے۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اگر چین کی قیادت متحرک ڈپلومیسی کے ساتھ آگے بڑھے تو معاملات میں بہتری کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی میں بھی چین نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اب چین نے فلسطینیوں کے گروپوں کے حوالے سے یکساں پالیسی کی بات کی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ چینی قیادت پی ایل او اور حماس کے ساتھ سفارت کاری کر سکتی ہے اور دونوں فلسطینی گروپ چین کی بات سن سکتے ہیں۔ اگر فلسطینی قیادت کسی ایک نکتے پر متفق ہو جائے تو تنازع فلسطین کے حل کے امکانات زیادہ روشن ہو سکتے ہیں اور اسرائیلی قیادت پر عالمی دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ فلسطینی قیادت پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فلسطینی عوام خصوصاً خواتین اور بچوں کی حالت زار کو سامنے رکھ کر اپنی جنگ حکمت عملی پر غور کرے۔