ڈنکی
غیر قانونی راستوں کا انتخاب ، زندگی چھین سکتا ہے!
''اب کوئی راستہ نہیں بچا!!'' نیم تاریک ہال میں گھٹن بڑھتی جارہی تھی۔ ''اس دن کے لئے تو سب قربان نہیںکیاتھا۔'' ماضی کی خوشگوار یادوں نے خساروں کااحساس زیاں بڑھادیا۔ ارد گرد بکھرے انسانی جسم بدروحوں جیسے دیکھ رہے تھے، لٹے پٹے، تنگی داماں، افلاس، بھوک کی شدت سے نڈھال، خارش زدہ نیم مردہ جسموں کو اپنے بڑھے ہوئے ناخنوں سے کھرچتے ہوئے وہ لوگ کسی قحط کا شکار تو نہ تھے۔ پر یہ ظلم اپنی جانوںپر خود انھی نے کیا تھا۔
انسان بھی عجیب ہے حاصل کی قدر نہیں اور لاحاصل کی چاہ میں وہ کچھ کر جاتا ہے جس کے نتیجے میں حاصل کو بھی کھو بیٹھتا ہے۔ اور پیچھے بچتے ہیں صرف پچھتاوے۔'' منڈا مر گیا جئے۔۔'' یہ آواز صور اسرافیل کی مانند لگی تھی۔ ہال میں پیپ زدہ زخموں کو کھرچتے ہوئے نیم مردہ لاشے کچھ لمحوں کے لئے ساکت ہوگئے۔ اس لمحے ان سب کی آنکھوں میں موت کا سناٹا واضح تھا۔ ہر ایک کو یوں لگا جیسے اگلی باری اسی کی ہو۔ کسی نے ہل کر اس مر جانے والے نوجوان کے قریب جانے کی کوشش نہ کی ۔
اللہ بخش نے جگہ جگہ سے زخموںبھرے ہاتھوں سے اس نوجوان کی پژمرہ آنکھوں کو بند کرنا چاہا مگر وہ انکاری تھیں شاید وہ بند ہو کر ان خوابوںکو پھر سے دیکھنا نہ چاہتی تھیں جو اسے ایجنٹ نے دکھا کر بھیجے تھے،،، سہانے خواب ، روشن مستقبل،، تاریک حال سے موت کی تاریکی تک ۔۔۔۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد سب پھر سے اپنے مشغلے میںمصروف ہوگئے۔۔۔ افلاس زدہ ڈھانچہ نما جسموں کو کھرچنے میں۔۔۔۔ ''مہر امانت علی! کیا اب تو بھی مرنے والا ہے؟'' ٹھنڈے فرش پہ لیٹے اس کا ذہن دھیرے دھیرے تاریکی میں ڈوب رہا تھا، اردگرد کی لاشوں سے اٹھتا تعفن ،، لیکن لاش تو صرف ایک تھی،،، کیا باقی سب زندہ تھے۔۔ اسے لگا جیسے وقت نزع قریب ہو۔ پھر ہولے ہولے وہ ماضی کی یادوں کے سمندر میں ڈوبنے لگا۔
وہ جلال پور جٹاں سے تعلق رکھنے والا ایک دبلا پتلا ، سیدھا سادہ سا نوجوان تھا۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے باقی سفید پوشوںکی طرح وہ بھی بھرم رکھے جی رہا تھا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ملکی حالات سے نالاں تھا۔ پھر اسے اپنے چھوٹے سے بیٹے اور بیوی کے ساتھ ماں کا خیال بھی رہتا تھا۔ سبزی کے ٹھیلے سے روزانہ وہ بھلا کتنی بچت کر سکتا تھا۔ اور ابھی تو وہ ساتھ میں وہ قرض بھی اتار رہا تھا جو اس نے سعودی عرب جانے کے لئے لے رکھا تھا۔ وہ ڈھائی سال جو پلمبر کے طور پر اس نے سعودیہ جا کر گزارے تھے وہ بھی اپنے اندر ایک الگ داستان تھے مگر جو افسوس اسے بیوی کے زیور بیچنے کا تھا وہ اذیت سے کم نہ تھا۔
اسی سوچ اور پچھتاوے کے ساتھ اس نے اپنے کزن اور سالے کے ساتھ مل کر یورپ ڈنکی لگانے کا پلان بنایا۔ اس تحصیل میں یورپ بھیجنے کے سنہری خواب دکھانے والے جعلی ایجنٹوں کی کمی تو نہ تھی سو وہ بھی ایک شکاری کے جھانسے میں آگیا۔ امانت علی اور اس کے کزن کی پہلی منزل بائی ائیر لیبیا تھی جوکہ قانونی طریقے سے تھی مگر اس کے بعد اس کے ساتھ جو ہونے والا تھا اس کا اندازہ بھی نہ تھا ۔ ایجنٹ نے بتایا کہ لیبیا سے ڈنکی لگاکر فیری کے ذریعے باحفاظت اٹلی پہنچ جائیں گے اور وہاںپہ موجود ان کے بندے انھیں یورپ کے دیگر ممالک تک پہنچنے میں مدد دیں گے۔
اس سب کے لئے ایک بڑی رقم وہ ایڈونس میںلے چکے تھے۔لیبیا تک تو ویزہ ہونے کی وجہ سے وہ خوشی خوشی یورپ جا کر ڈھیروں دولت کما کر امیر ہونے کے خوابوں میں ڈوبے جا رہے تھے ۔ لیکن لیبیا پہنچ کر ڈنکی لگانے سے پہلے سو سے زائد لوگوںکے اس گروہ کو انھوں نے ایک گمنام فیکٹری کی گودام نما جگہ جا کر بھیڑ بکریوںکی مانند بند کر دیا ۔اور یہاں سے اس اذیت ناک سفر کا آغاز ہوا جس کے بارے میں ان سب نے کبھی گمان بھی نہ کیا تھا۔ سیلن زدہ دیوایں جن کی تزئین و آرائش میں مکڑیوں کے جالوں اور حشرات الارض نے اپنا بھر پور حصہ ڈال رکھا تھا۔ جگہ جگہ سے اکھٹرے ہوئے فرش اور گندگی میں سانس لینا محال تھا۔
یہاں آکر شروع میں تو یہی کہا گیا کہ ایک دو دن میں فیری آنے تک یہاں رکناہوگا مگر یہ دو دن جب مہینوںمیں بدل گے تو وہاں موجود لوگوں کی آس یاس میں بدل گئی۔ شاید انتظار کی اذیت اتنی ہی خوفناک ہوتی ہے لیکن اس دوران ان سب لوگوں کو جن حالات کا سامنا رہا وہ کسی عذاب سے کم نہ تھے۔ نہ بجلی نہ پانی،نہ بستر، نہ ہی تین وقت کا کھانا،نہ موبائل نہ باہر کی دنیا سے رابطے کا کوئی ذریعہ۔ صفائی ستھرائی نہ ہونے کی وجہ سے مختلف وبائیں پھوٹنے لگیں جس میں خارش نے سبقت لی۔دن میں صرف ایک وقت کا کھانا جو کبھی قسمت سے ملتا تو کبھی وہ بھی نصیب نہ ہوتا۔ ایسے ہی حالات میں ایک نوجوان چل بسا۔ اور باقی بھی اپنی مخدوش حالت میں اس صورت حال سے نکلنے کے متمنی رہے۔
اس دوران انھیں فیری کے جانے کا عندیہ ملا لیکن اپنے کزن کی وہاں موجودگی نہ ہونے کی بنا پر وہ اس کشتی میں سوار نہ ہو سکا اور قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ کشتی یونان کے ساحل کے قریب جا کر ڈوب گئی۔ (یہ وہی حادثہ ہے جو سن 2023ء میں یونان کشتی حادثہ کے نام سے انٹرنیشنل میڈیا کی سرخیوں میں رہا) اس کے بعد پھر کئی ماہ اس جہنم نما جگہ پر گزارنے پڑے اور دوبارہ کشتی میں سوار نہ ہوسکا ، شاید قسمت اس پر مہربان تھی کیونکہ دوسری کشتی بھی حادثے کا شکار ہو گئی۔ اس دوران کسی کی مدد سے اس کا گھر والوں سے رابطہ ہوا جن کے اصرار کے باوجود وہ واپس نہ پلٹا ۔ شاید وہ واپس پلٹنے کو اپنی ذلت سے تشبیہ دیتا تھا ۔
ڈنکی لگا کر باہر جانے کو اپنی انا کر مسئلہ بنا رکھا تھا۔ ایک طویل انتظار اور خواری کے بعد تیسری بار ڈنکی لگانے میں کامیاب ہو گیا لیکن اٹلی کے بارڈر پر پکڑا گیا اور پھر جیل کاٹی ۔ مہر امانت علی تو اتنی ذلت و رسوائی کے بعد یورپ جانے میں کامیاب ہوگیا مگر کتنے ہی لوگ اس آگ کے دریا کو پار کرنے سے پہلے خاک ہو جاتے ہیں ۔ ڈنکی لگانے والے لوگوں کی اکثریت اس کرب ناک سفر کی اذیتوں اور خطرات سے ناواقف ہوتی ہے اور جعلی دھوکے باز ایجنٹوں کے چنگل میں آکر اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی اور خود اپنی جان کو داؤ پر لگا دیتے ہیں یہ جانے اور سوچے بنا کہ ان کے ساتھ پیش آنے والا کوئی بھی حادثہ ان کے خاندانوں پر کس قدر بڑی قیامت بن کر ٹوٹے گا۔
اور اگر وہ کسی طرح کامیاب ہو بھی جائیں تو ان کے گھر والوں کی زندگی سے ان کے بنا کیسے گزرے گی۔ جن بچوںکو اچھا مستقبل دینے کی چاہ میں وہ پیسے کمانے باہر جا رہے ہیں ان کو جب باپ کی شفقت نہ ملے گی تربیت نہ ملے گی جو باپ کے حصے آتی ہے تو وہ معاشرے میں اچھے دردمند انسان بن سکیں گے؟ کیا پیسہ ان کے اندر پیدا ہونے والے روحانی و اخلاقی عوارض کا سدباب کر سکے گا؟ اور کیا گارنٹی ہوگی کہ جب وہ بڑھاپے میں واپس آئیںتو ان کی اولاد ان کی قدر کرے گی۔
کیا وہ شخص جو خود ایک ملک کا قانون توڑ کر مالی فائدے کے لئے گیا ہے وہ اپنے بچے کو قانون کی پاسداری کا درس دے سکے گا۔اپنی بیوی کو چھوڑ کر کیا وہ اپنی بیوی سے تا عمر وفا اور محبت کی توقع کر سکے گا۔ یہ سب باتیں وہ ہیں جو شایدکوئی بھی شخص نہیں سوچتا اور سوچ لے تو ڈنکی لگانے کا نہ سوچے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ ملک اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے۔
سیاسی و معاشی عدم استحکام سے سفید پورشوں کا بھرم بھی قائم رہتا دکھائی نہیں دے رہا۔اس پر ناخواندگی اور پیشہ وارانہ تعلیم کی کمی غربت و جہالت کی آگ کو ہوا دیتی ہیں۔ نوجوانوں میں ریاستی سطح پر کسی مقصد اور ایجنڈے کے نہ ہونے کی وجہ سے مایوسی اور گمراہی پھیل چکی ہے۔کسی بھی ملک میں یوتھ بلج (نوجوانوں کی اکثریت) ہی ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور اگر اس کی کردارسازی پہ توجہ نہ دی جائے تو وہ مایوسیوں اور گمراہیوں کی دلدل میں دھنس جاتی ہے۔
پاکستان میں اس وقت آبادی چوبیس کروڑ ہے جس میں سے تقریباً 65 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلنے والے نوجوان جب ہاتھوں میں ڈگریاں لئے روزگار کی تلاش میں نکلتے ہیںتو فیلڈ میں ان سے تجربہ اور سفارش مانگی جاتی ہے۔ جب اکثریت یہ مطالبات پورے کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو وہ ڈپریشن اور مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ حکومتی سطح پر ایسی پالیسیاں نہ ہونے اور نوجوانوں کو بڑی تعداد میں ہنر مند فورس کے طور پر تیار نہ کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ نوجوان طبقے میں ایک سوچ مقبول ہوگئی ہے جس کے مطابق وہ کسی بھی دوسرے ملک جا کر ہی پیسے کما سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں درست راہنمائی نہ ہونے کی صورت وہ ڈنکی لگانے کا مشورہ دے کر لوٹنے والوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ۔ پاکستان کے کچھ علاقوں میں تو باقاعدہ ایسے ایجنٹوں کے گروہ منظم طور پر متحرک ہیں۔تحصیل گجرات میںمولا لنگڑیال نامی دوسو گھروں پر مشتمل ایک گاؤں ہے جہاں درجنوںغیر قانونی ایجنٹس ایف آئی اے کے ریکارڈ میں ہیں اوروہاں کریک ڈاؤن بھی ہوتا رہتا ہے۔ گجرات، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، منڈی بہاؤالدین اور لاہور کے علاقوں سے ڈنگی لگانے والوں کی کثیر تعداد ملتی ہے۔
جب اس کی وجوہات کو دیکھا جائے تو یہ ایک رویہ اور سوچ ہے جیسے بھیڑ چال، مثلاً ایک خاندان کا کوئی فرد ڈنکی لگانے میں کامیاب ہو جائے تو وہ باقیوں کو بھی ترغیب دے گا، زمینیں بیچ کر پہلے وہ غیر قانونی راستوں سے باہر جائیںگے پھر وہاں سے بلیک منی کو وائٹ کرنے کی خاطر یہاں دوبارہ زمینیں خرید کر کوٹھیاں بنا لیں گے۔ ایک وجہ ہنر اور تعلیم کا نہ ہونا بھی ہے ۔ کیونکہ بیرون ملک جانے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے اور جو لوگ اس پر پورا نہیں اترتے انھیں باہر جانے کیا اجازت نہیں ملتی ۔
یوں تو پاکستان مہاجرین کو پناہ دینے والے دنیا کے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ افغان مہاجرین کی بات کی جائے توتیس لاکھ سے زائد رجسٹرڈ افغان مہاجرین نے یہاں پناہ لی ۔جن میں سے1.3ملین کے پاس POR کارڈ بھی موجود تھے جو UNHCRکے تحت رجسٹرڈ کئے گئے۔پاکستان میں عمومی طور پر افغانستان، بنگلہ دیش، چین ، انڈیا اور فلسطین سے مہاجرین آتے ہیں۔ جبکہ پاکستان سے باہر ہجرت کرنے کے لئے لوگ زیادہ تر یو اے ای اور یورپی ممالک کو جاتے ہیں۔رواں برس اب تک 215000 افراد قانونی طریقے سے بیرون ملک جاچکے ہیں۔ لیکن غیر قانونی طور پر باہر جانے والوں کا اداروں کے پاس نہ کوئی ڈیٹا ہے اور نہ ہی وہ کوئی سراغ لگا پائے ہیں۔
پاکستان سے ہر برس اوسطً آٹھ لاکھ لوگ قانونی طریقے سے پاکستان سے باہر حصول روزگار کی غرض سے ہجرت کرتے ہیں۔ان کی سب سے بڑی مارکیٹ یو اے ای ہے اس کے بعد دوسرے نمبر پر امان،سعودی عرب اور پھر دیگر یورپی ممالک ہیں۔یوں ہی ڈنکی لگانے والوں کے لئے بھی آسان راستے پاکستان سے ملحقہ بارڈرز کو کراس کرکے ترکی ، لیبیا ، سربیا اور اٹلی کے راستے یورپ داخل ہونا ہے۔ وہاں جا کر اگر پکڑے جائیں تو بھی وہ باز نہیں آتے اور مسلسل ڈنکی کی کوشش جاری رکھتے ہیں جس میں زیادہ تر تو جان کی بازی ہی ہار جاتے ہیںا ور چند گنے چنے لوگ ساری عمر چھپتے پھرتے ہیں۔
کچھ تو اسائلم میں پنا ہ لے لیتے ہیں جس میں کبھی جھوٹے مقدمات ، ایف آئی آرز تو کبھی جعلی خبروں کا سہارا لیا جاتاہے۔ کبھی مذہبی و فقہی بنیادوں کو مدعا بن کر پیش کیا جاتا ہے۔ غرض جہاں جہاں ملک دشمن اور غدار وطن پیسوں کی غرض سے دو نمبری کرنے کو تیار رہتے ہیں وہ پاکستان کی ساکھ کو خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ جب یہ لوگ پکڑے جاتے ہیں تو ملک کی بدنامی کے ساتھ ساتھ بعد میںجانے والوں کے لئے سخت پالیسیوں سے گزرنے کا موجب بھی بنتے ہیں جبکہ کبھی تو ملک کے پاسپورٹس کو ہی بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بیرون ملک جابز کو تلاش کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور لاکھوں لوگ نام نہاد ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ کر نوکری کے جھانسے میں آکر اپنی جمع پونجی لُٹا بیٹھتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیرون ملک نوکری کیسے تلاش کی جائے ؟
اس کے دو طریقے ہوتے ہیں ایک جسے ڈائریکٹ امپلائمنٹ کہتے ہیں جس میں کوئی باہر کی کمپنی براہ راست جاب دیتی ہے اور دوسرا پاکستان میں Bureau of Emigration & Over Seas Employment ہے جس کابنیادی مقصد لوگوںکو ملک سے باہر جانے کے لئے رہنمائی دینا ہے اور ان کا تحظ یقینی بنانا ہے۔ وفاقی حکومت کے زیر انتظام ادارہ منسٹری آف اوورسیز کی چھتری تلے کام کرتا ہے ۔ پروٹکٹرز آف امیگریٹس کے نام سے اسلام آباد، لاہور، کراچی، راولپنڈی، راولاکوٹ اور باغ (آزادجموں کشمیر)،سیالکوٹ،ڈیرہ غازی خان، ملتان، کوئٹہ پشاور اور مالاکنڈ میں موجود یہ ادارے اپنے شہریوں کو قانونی اور باحفاظت طریقے سے بھیجنے کے ذمہ دار ہیں۔ اس ضمن میں یہ ریکروٹنگ ایجنسیز کو لائسنز بھی جاری کرتے ہیں جس کے تحت اس وقت پاکستان میں 5043 لائسنس ہولڈرز ہیں ۔ ان لائسنس ہولڈرز کا بیورو کے ساتھ اشتراک ہوتا ہے اور بیرون ممالک بھیجنے کے مجاز ہوتے ہیں۔
بیورو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جو لوگ کام کرنے جا رہے ہیں ان کو لائسنس ، امپلائمنٹ ویزہ، ورک پرمٹ، رجسٹریشن، جانے سے قبل ٹریننگ ، انشورنس، کم سے کم خرچ اور مہارت کے مطابق بیرون ملک روزگار تک رسائی ممکن ہو۔اگر بیورو کی جانب سے رجسٹرڈ ایجنٹس کوئی گھپلا کرتے ہیں توادارہ ان کا لائسنس ضبط کرنے اور ان کے خلاف کاروائی کا مجاز ہوتا ہے۔بہت سے ممالک کے سفارتخانوں میں لیبر اتاشی موجود ہوتے ہیں جو کسی مسئلے کو حل کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے معاونت فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح منسٹری آف اوور سیزپاکستانیز اینڈ ہیومن ڈویلپمنٹ، منسٹری آف انٹیریر کے ذیلی اداروں ایف آئی اے، پاسپورٹ آفس اور دیگر ادارے اس ضمن میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں امیگرنٹ ریسورس سینٹرقانونی طور پر کام یا پڑھائی کی غرض سے محفوظ انداز میں بیرون ملک جانے کے لئے آگاہی فراہم کرتا ہے۔
بین الممالک مائیگریشن کے حوالے سے پالیسیوں کو ساز گار بنانے کے لئے انٹرنیشنل سینٹر فار مائیگریشن پالیسی ڈیویلپمنٹ جیسی تنطیمیں بھی موجود ہیں۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ منظم اداروں اور قوانین کی موجودگی میں ڈنکی جیسا مجرمانہ اور انسانی سمگلنگ پر مبنی عمل کیسے پکڑ میں نہیں آتا۔ کوئی واقعہ ہونے کی صورت میں مجرموں کو کیفرکردار تک کیوں نہیں پہنچایا جاتا۔ ملکی سرحدوںپر ایف آئی اے اہلکاروں کی موجودگی اور سمندری حدود پر پوسٹل گارڈز کی منظم فورسز کی ناک تلے کیسے انسانی سمگلرز یہ انسانیت سوز کھیل کھیلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔یقیناً ان اداروں میں کالی بھیڑیں موجود ہیں جو کہ اس قبیح عمل کو سر انجام دینے میں معاونت فراہم کرتی ہیں۔ اور اس ضمن میں ایف آئی اے بھی نرمی برتتی ہے جس کی وجہ سے ایسے ایجنٹس پکڑے جانے کے باوجود پیسے دے کر بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور دوبارہ سے اپنے گھناؤنے دھندے میں لگ کے لوگوں کی زندگیوں اور جذبات سے کھلواڑ کرتے ہیں۔
اس میں قصور ملکی سطح پر بیٹھ کر پالیسیاں بنانے والوںکا بھی ہے جو ایسے مجروں کو پکڑ کر سخت سے سخت سزاؤں کا قانون بنانے کی ضرورت پر غور نہیں کرتے۔گزشتہ تئیس برس میں ٹرانپرینسی انٹرنیشنل نے آٹھ مرتبہ پاکستان میں نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے کروائے ہیں۔ جس میں 2023ء کے سروے کے مطابق پولیس کرپشن میں پہلے نمبر پر رہی، ٹینڈر اور کنٹریکٹنگ دوسرے جبکہ عدلیہ تیسرے نمبر پر رہی۔ یہ سروے چاروں صوبوں میںکرایا گیا تھا۔
سروے کے مطابق پاکستانیوںکی 68 فیصداکثریت یہ سمجھتی ہے کہ احتساب کرنے والے ادارے جیسا کہ نیب ، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن سیاسی بنیادوںپر لوگوں کو بلیک میل کرنے اور سزا دینے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اور 60 فیصد لوگوں کے خیال میںیہ ادارے اپنے مقصد کو پوراکرنے یعنی کرپشن کو ختم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔اس بات میں شک نہیں کہ پاکستان میں رشوت ستانی اور اقربا پروری کا بازار گرم ہے۔ اگر کوئی مجرم پکڑا جاتا ہے تو رعایت دینے کے لئے قانون اور سسٹم میں لوپ ہولز کو ڈھونڈا جاتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہی کرپشن پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
گو کہ لیگل امیگریشن کا پروسیس سخت ہے۔ لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ اس کے لئے غیر قانونی راستے اپنائے جائیں۔جب ڈنکی کے راستے جانے والے کسی نوجوانوں کی موت ہوتی ہے تو کسی ماں باپ کے بڑھاپے کی امید ٹوٹ جاتی ہے، کسی عورت کا سہاگ اجڑتا ہے کسی کے سر سے باپ کا سایہ اٹھتا ہے ۔ اور اس کے پیچھے جو بھی لوگ ملوث ہوتے ہیں وہ کھلے عام پھرتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومتی سطح پر اور کمیونٹی کی سطح پر کچھ اہم اقدامات کی ضرورت ہے جس سے ڈنکی لگانے والوںکو روکنا یقینی بنایا جاسکے۔ کمیونٹی لیول پر آگاہی کو بڑھایا جاسکتا ہے اور اس ضمن میں ایسے علاقے جہاں سے لوگوں کے ڈنکی لگانے کی شرح بلند ہے وہاں کے سکولوںمیں بالغ بچوںمیں اس حوالے سے آگاہی پیدا کی جائے، کیونکہ یہ وہ عمر ہوتی ہے جہاں بچوں میں درست اور غلط کی پہچان ہو رہی ہوتی ہے۔
اس ضمن میں خواتین کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بطور ماں، بیوی، بہن یا استاد وہ تربیت اور اچھے برے کی پہچان کروا سکتی ہیں اور کسی بھی غلط اقدام سے باز رکھنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرسکتی ہیں۔متاثرہ علاقوں کی مساجد کے امام حضرات کو آگاہی مہم کے لئے شامل کیا جاسکتا ہے ۔ جہاں وہ ڈنکی کے حوالے سے جمعہ کے خطبہ میں لوگوں کو متنبہ کر سکیں ۔ کسی بھی معاشرے میں دانشوروں اور لکھاریوںکا کردار اہمیت کا حامل اس لئے بھی ہوتا ہے کہ ان کے فکر و تدبر سے افراد فیضیاب ہوتے ہیں۔
ذرائع ابلاغ نے اپنی اشکال وقت کے ساتھ ساتھ بدلی ہیںدور حاضر میں سوشل میڈیا مقبول ہے سو اس کو معاشرے کی اصلاح و آگاہی کے لئے استعمال کر کے مستفید ہواجاسکتا ہے۔حکومتی سطح پہ قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اور مجروں کو نشان ِ عبرت بنا کر پیش کیا جائے۔کم پڑھے لکھے لوگوںکو ہنر سیکھایا جائے اور لیبر کلاس کے ایمیگریشن پروسس کے لئے آسان پالیسیاں بنائی جائیں۔ اور سب سے اہم بات انفردی سطح پر اس شعور کا اجاگر ہونا ناگزیر ہے کہ ڈنکی لگا کر جان کی بازی ہارنے سے بہتر ہے اپنے ملک میں رہ کر محنت کرتے ہوئے رزق حلال پر قناعت کی جائے۔
پناہ گزین کسے کہتے ہیں؟
کوئی بھی شخص اگر نسل، مذہب ، قومیت، کسی خاص نظریاتی گروہ سے تعلق رکھتا ہو اور اسے کسی بھی وجہ سے اپنے وطن سے ہجرت کر کے کسی دوسری جگہ آباد ہونا پڑے تو ایسا شخص پناہ گزین کہلاتا ہے۔
مہاجر کون ہوتا ہے؟
گو کہ اس کی کوئی مخصوص تعریف نہیںلیکن کوئی بھی ایسا شخص جو اپنی مستقل رہائش گاہ سے ملک کے اندر یا ملک سے باہر وقتی طور پر یا مستقلاً مختلف وجوہات کی بنا پر قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہجرت کرے وہ مہاجر کہلاتا ہے۔
باہر جاتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھناچاہیے؟
؎جاب کے بارے میں سوال کریں، کہاں ہے کس چیز کی ہے؟
؎پڑھنے کے لئے جا رہے ہیں تو کونسا ادارہ ہے؟
؎ تمام متعلقہ معلومات کو چیک کریں اور جاب کنٹریکٹ کو سائن کریں۔
؎ تمام ڈاکومینٹس کو سفر سے پہلے یقینی بنائیں، ویزہ اور ورک پرمنٹ کے ساتھ اپنی رہائش کا بندوبست کریں۔
؎ اپنا پاسپورٹ اور ذاتی ڈاکومینٹس کسی کے حوالے نہ کریں۔
؎ اپنے ویزہ کی معیاد کو چیک کریں اور ورک پرمٹ کے ساتھ ضروری دستاویزات کے بغیر بالکل سفر نہ کریں۔
؎ کسی بھی غیر قانونی ذریعے کو استعمال کر کے بارڈر کے پار جانے کی ہرگز کوشش نہ کریں۔