خواتین راہِ معرفت اور ذوق عبادت
ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ کی زندگی نہایت زاہدانہ تھی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مردوں کے اوصافِ بندگی کے ساتھ عورتوں کے اوصافِ عبادت کا بھی ذکر کیا اور اس پر ملنے والے اجروثواب کا انہیں بھی مستحق قرار دیا ہے، جس کی طرف قرآن کریم کی یہ آیت اشارہ کررہی ہے:
ترجمہ: یقیناً مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، فرماںبردار مرد اور فرماں بردار عورتیں، سچے مرد اور سچی عورتیں، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، اللّہ سے ڈر نے والے مرد اور اللّہ سے ڈر نے والی عورتیں، صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اپنے ستر کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنے ستر کی حفاظت کرنے والی عورتیں، اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں، ان سب کے لیے اللّہ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کیا ہے (سورۃالاحزاب53)
تاریخ اسلام اس بات پرگواہ ہے کہ ابتدائے اسلام سے آج تک عبادت و بندگی کے اس حکم پر جہاں مردوں نے عمل کیا ہے وہیں عورتیں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔ خالق کائنات کی رضاجوئی کے لیے جہاں مرد اپنی راتوں کو عبادت سے مزین کیں وہیں عورتیں بھی اطاعت و بندگی کے ذریعہ اپنی راتوں کو سجایا، اور اپنے مولا سے ہم کلامی کے لیے شب بیداری اور آہِ سحر گاہی کا معمول بنایا، جہاں رسول اللہ ﷺ پورے جذبے کے ساتھ عبادت میں مصروف ہوا کرتے وہیں آپ ﷺ کی صحبت میں رہنے والی ازواجِ مطہرات بھی پورے شوق و جذبے کے ساتھ فریضہ بندگی بجالاتیں، جہاں صحابہؓ طریقہ نبی ﷺ کے مطابق عبادت کیا کرتے، وہیں صحابیاتں بھی آپ ﷺ کی تعلیمات کی مطابق عمل کرتیں، اور جس طرح عبادت کے میدان میں حسن بصریؒ جیسے باکمال ولی پیدا ہوئے اسی طرح رابعہ بصریؒ جیسی ولیہ بھی پیدا ہوئیں، عبادت گزاروں کی فہرست اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی؛ جب تک ان برگزیدہ خواتین کا تذکرہ نہ کیا جائے جن کے جذبہ عبادت و بندگی اور رضائے الہی کے حصول کی کوششوں کودیکھ کر موجودہ دور کی خواتین بھی اپنے مقصدِ زندگی کو یا د کرسکتی ہیں اور اپنے مولائے حقیقی کی عبادت میں ہمہ تن مصروف ہوسکتی ہے۔
خیرالقرون اوردورِ سلفِ صالحین کی خواتین کو عبادت کا اتنا زیادہ شوق تھا کہ اپنے دن و رات کا اکثر حصہ عبادت ِ الہی میں گزارتیں اور اپنے آپ کو ان اعمال میں لگاتیں جو خدا اور اس کے رسول ﷺ کو راضی کرنے والے ہوتے، عبادت کے ذریعہ اس مقام و مرتبہ پر پہنچ گئی تھیں جس تک آج کے بڑے بڑے ولی صفت انسان کا بھی پہنچنا مشکل ہے۔
ازواجِ مطہرات ؓ کا ذوق عبادت: آپ ﷺ کی سب سے چہیتی بیوی حضرت عائشہ صدیقہ ؓعبادت گزار تھیں، اللّہ سے نہایت ڈر نے والی تھیں، چاشت کی نماز پابندی کے ساتھ ادا کرتی تھیں، رمضان المبارک میں تراویح کا خاص اہتمام کرتیں، ان کا غلام نمازِ تراویح میں امامت کرتا اور وہ مقتدی ہوتیں، اکثر روزے رکھا کرتیں، پورے جذبے کے ساتھ ہر سال برابر حج ادا کرتیں، غلاموں پر شفقت کرتیں اور ان کو خرید کر آزاد کرتیں (شرح بلوغ المرام)
ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ کی زندگی نہایت زاہدانہ تھی۔ انہیں عبادت الٰہی سے بہت زیادہ لگاؤ تھا۔ رمضان شریف کے علاوہ ہر مہینے میں تین روزے پابندی کے ساتھ رکھا کرتیں۔ اطاعتِ خداوندی ہر عمل میں صاف نظر آتا تھا، جہاں اوامر کی بے حد پابند تھیں وہیں نواہی سے بھی بچنے کا التزام کرتی تھیں۔ (ابن سعد)
ام المومنین حضرت زینب بنت جحش ؓبڑی دیں دار، پرہیز گار، حق گو اوررونے والی تھیں، ان کی عبادت و زہد کا اعتراف خود رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے، حافظ ابن حجر نے اپنی کتا ب الاصابہ میں ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ مہاجرین کی ایک جماعت میں مالِ غنیمت تقسیم فرمارہے تھے، حضرت زینب بھی اس موقع پر موجود تھیں، انہوں نے کوئی ایسی بات کہی جو حضرت عمر ؓ کو پسند نہیں آئی، انہوں نے ذرا تلخ انداز میں حضرت زینب ؓکو دخل دینے سے منع کیا، رسول کریم ﷺ نے فرمایا، اے عمر! انہیں کچھ نہ کہو یہ اوّاہ (خدا سے ڈرنے والی) ہیں۔
ام المومنین حضرت جویریہؓ بھی بڑی عبادت گزار اور زاہدانہ زندگی گزار نے والی خاتون تھیں۔ رسول اللہ ﷺ انہیں اکثر عبادت و بندگی میں مشغول پاتے۔ آپ ﷺ جب کبھی گھر سے باہر جاتے یا گھر تشریف لاتے تو انہیں اپنے رب سے رازونیاز کرتے ہوئے پاتے۔ ایک دن حضورانور ﷺ نے انہیں صبح کے وقت اپنے گھر کی مسجد (نماز کی جگہ) میں عبادت کرتے ہوئے دیکھا پھر ضروریات سے فارغ ہوکر آئے تو بھی اسی حالت میں ان کو پایا۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم ہمیشہ اسی طرح عبادت کرتی رہتی ہو۔ انہوں نے کہا: جی ہاں یا رسول اللہ ﷺ! تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ کلمات پڑھا کرو ان کو تمہاری نفل عبادت پر ترجیح حاصل ہے: سبحان اللہ، سبحان اللہ عدد خلقہ سبحان اللہ عدد خلقہ سبحان اللہ رضی نفسہ سبحان اللہ رضی نفسہ، سبحان اللہ زنۃ عرشہ سبحان اللہ زنۃ عرشہ، سبحان اللہ مداد کلماتہ، سبحان اللہ مداد کلماتہ (مسند احمد ، حدیث جویریہ بنت الحارث، حدیث نمبر 3308/ناشر موسسۃ الرسالۃ)
مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص بارہ رکعات نفل روزانہ پڑھے گا اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ آپ ﷺ کا یہ ارشاد حضرت ام حبیبہ ؓبھی سن رہی تھیں۔ اس کے بعد پوری زندگی یہ بارہ رکعات ان کا معمول میں رہیں۔ کبھی ان کو ترک نہیں کیا (مسند احمد حدیث ابی موسٰی الاشعری حدیث نمبر19709/ناشر موسسۃالرسالۃ)
حضرت فاطمہؓ کا ذوق عبادت: خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمہ الزہراؓ کو عبادتِ الٰہی سے بے انتہا شغف تھا۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ تہجد گزار اور کثرت سے روزے رکھنے والی تھیں۔ خوفِ الٰہی سے ہر وقت لرزاں اور ترساں رہتی تھیں۔ زبان پر ہمیشہ اللّہ تعالٰی کا ذکر جاری رہتا تھا۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں فاطمہ کو دیکھتا تھا کہ کھانا پکاتی تھیں، اور ساتھ ساتھ خدا کا ذکر کرتی جاتی تھیں۔ حضرت سلمان فارسی ؓ کا بیا ن ہے کہ حضرت فاطمہؓ ؓگھر کے کام کاج میں لگی رہتی تھیں اور قرآن مجید کی تلاوت کرتی رہتی تھیں۔ وہ چکی پیستے وقت بھی قرآن پاک کی تلاوت کرتی تھیں۔
علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں ان کی اسی عادت کی طرف اشارہ کیا ہے
آں ادب پروردہ صبر و رضا
آسیا گردان و لب قرآں سرا
حضرت علی المرتضی ؓ فرماتے ہیں کہ فاطمہؓ، اللہ تعالی کی بے انتہا عبادت کرتی تھیں؛ لیکن گھر کے کام میں کوئی فرق نہیں آنے دیتی تھیں۔ سیدناحضرت امام حسنؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنی والدہ ماجدہ کو صبح سے شام تک محرابِ عبادت میں اللہ تعالی کے آگے گریہ و زاری کرتے ، نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ اس کی حمد و ثنا کرتے اور دعائیں مانگتے دیکھاکرتا تھا، اور یہ دعائیں وہ اپنے لیے نہیں؛ بلکہ تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے مانگتی تھیں۔ عبادت کرتے وقت آپ کا نورانی چہرہ زرد ہوجاتا تھا، جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا، آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی تھی یہاں تک کہ اکثر مصلی آنسوؤں سے بھیگ جاتا تھا ۔
حضرت حسن بصری ؒفرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ ؓکی عبادت کا یہ حال تھا کہ اکثر ساری رات نماز میں گزاردیتی تھیں بیماری اور تکلیف کی حالت میں بھی عبادتِ الٰہی کو ترک نہیں کرتی تھیں۔ اللّہ تعالٰی کی عبادت، اس کے احکام کی تعمیل اور اس کی رضاجوئی اور سنتِ نبوی ﷺ کی پیروی ان کے رگ و ریشے میں سماگئی تھیں (سیرت فاطم الزہراء)
اسماء بنت ابوبکرؓ کا ذوق عبادت: حضرت اسماء بنت ابو بکرؓ عبادت وبندگی میں شہرہ رکھتی تھیں۔ نہایت درجہ کی عابدہ اور زاہدہ تھیں۔ کثرت عبادت ان کا خصوصی وصف تھا۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کسوف کی نماز پڑھا رہے تھے، بہت سی صحابیاتؓ بھی شریک ِ نماز تھیں، ان میں حضرت اسما ء بھی شامل تھیں، آپ ﷺ نے نماز کو کئی گھنٹے طویل کیا، حضرت اسماء کی طبیعت کچھ کم زور تھی، تھک کر چُورچُور ہوگئیں، لیکن بڑے استقلال سے کھڑی رہیں، جب نماز ختم ہوئی تو غش کھاکر گر پڑیں، چہرے اور سر پر پانی چھڑ کا گیا تو ہوش میں آئیں (بخاری شریف، باب صلاۃ النسا ء مع الرجال فی الکسوف، حدیث نمبر1053)
دیگر صحابیاتؓ کا ذوق عبادت : آپ ﷺ کی چچی حضرت ام الفضل نہایت پرہیزگار اور عبادت گزار تھیں، بعض روایتوں میں ہے کہ وہ ہر پیر اور جمعرات کو ہمیشہ روزہ رکھا کرتی تھیں۔
حضرت خولہ ؓبھی عبادت الٰہی سے کافی شغف رکھتی تھیں اور ساری رات عبادت اور نماز پڑھنے میں گزار تی تھیں۔ ان کا تذکرہ مسند احمد بن حنبل میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں حضرت خولہ کا ادھر سے گزر ہوا تو حضرت عائشہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ خولہ ہے، جو پوری رات عبادت میں گزارتی ہے اور رات بھر سوتی نہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے تعجب سے فرمایا کہ رات بھر نہیں سوتیں؟ پھر فرمایا کہ انسان کو اتنا ہی کام کرنا چاہیے جسے وہ ہمیشہ نباہ سکے (مسند احمد، مسند عائشہ حدیث نمبر 25632/ناشر موسسۃالرسالۃ)
حضرت صفوان بن معطل کی اہلیہ ایک مرتبہ آپ ﷺ کے پاس آکر شکایت کرنے لگیں کہ ان کے شوہر انہیں نماز پڑھنے کی بنا پر سختی کرتے ہیں، جب میں روزہ رکھتی ہوں تو میرا روزہ بھی تڑوادیتے ہیں، حضور انور ﷺ نے صفوان بن معطل سے وجہ دریافت کی تو انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ یہ نماز میں دولمبی لمبی سورتیں پڑھتی ہیں اور میں انہیں اس سے منع کرتا ہوں، اور روزہ تڑوانے کی حقیقت یہ ہے کہ جب یہ نفلی روزے رکھنے پر آتی ہیں تو رکھتی ہی چلی جاتی ہیں جو میرے لیے تکلیف دہ ہے۔ (مسند احمد، مسند ابی سعید خدری، حدیث نمبر 110801)
تابعیہ خواتین کا ذوق عبادت : حضرت عائشہ بنت طلحہ مشہور تابعیہ ہیں، بڑی ذاکرہ تھیں، ان کی زبان صبح و شام ذکر الہی سے تر رہا کرتی تھی۔ ان کا نفس پاکیزہ ہوچکا تھا جس نے انہیںتمام عورتوں میں ممتاز کردیا تھا۔ انہیں بہت ساری باتیں خواب کے ذریعہ معلوم ہوجاتی تھیں۔
خوابوں کی تعبیر بتانے والے مشہور امام محمد ابن سیرین کی بیٹی حفصہ بنت سیرین اپنے زمانے کی معروف تابعیہ ہیں، جن کے بلند مرتبے کی گواہی اہلِ معرفت حضرات نے دی ہے۔ حفصہ بنت سیرین پاکیزگی، عزت و عفت اور دین و عبادت کے اعتبار سے اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں۔ ان کی الگ کو ٹھری تھی جس میں وہ اکثر عبادت کرتی تھیں۔ اسی لیے عبادت کے معاملے میں بہت ممتازمقام رکھتی تھیں، اور وہ اس صفت میں حیرت انگیز مقام پر پہنچ گئی تھیں، جہاں پر صرف بڑے زاہدین کی ہی رسائی ہوتی ہے۔ مہدی بن میمون فرماتے ہیں کہ حفصہ بنت سیرین تیس سال تک اپنے مصلی سے سوائے کسی کی بات کا جواب دینے یا قضا حاجت کے نہیں نکلیں (سیر اعلام النبلا، باب عمرۃ بنت عبدالرحمن /507 4)
حضرت معاذۃ بنت عبداللہ تابعیہ ہیں اور حضرت عائشہ ؓ و حضرت علی ؓکی شاگرد ہیں۔ اپنے وقت کی بڑی عابدہ خاتون تھیں۔ اپنے نفس کو مخاطب کرتیں اور کہتیں کہ اے نفس! نیند تیرے سامنے ہے، اگر تو چاہے تو تیری قبر میں نیند حسرت یا خوشی میں لمبی ہوسکتی ہے۔ جب انہیںنیند نہیں آرہی ہوتی تو فوراً اللہ تعالٰی کی عبادت اور اس کی مناجات میں مستغرق ہوتیں (سیر اعلام النبلا باب معاذۃ بنت عبداللہ4/509)
حضرت معاذۃ کو صبح کی تلاوت بہت محبوب تھی ۔ ان کا دل اللّہ تعالٰی کی حمد و ثنا میں مصروف رہتا تھا۔ عبادت و بندگی کو اپنی عادت بنالیا تھا۔ ان کا معمول تھا کہ روزانہ چھے سو رکعات نماز پڑھتیں اور ہر رات وہ قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتیں، جب سردی کا موسم ہوتا تو حضرت معاذہ پتلے کپڑے پہنتیں؛ تا کہ سردی کی وجہ سے نیند نہ آئے اور عبادت میں سستی پیدا نہ ہو۔ (نساء من عصر التابعین مصنف احمد خلیل جمعہ)
حضرت عبد اللہ بن مسلم عجلی بیان کرتے ہیں کہ مکہ میں ایک نہایت حسین و جمیل خاتون رہتی تھی اور اسے اپنے حسن و جمال پر بڑا ناز تھا۔ ایک مرتبہ وہ عبید بن عمیر کے پاس ایک مسئلہ پوچھنے گئیں اور دورانِ گفتگو اپنے چہرے سے کپڑا ہٹاکر انہیں اپنی طرف مائل کرنے لگی تو عبید بن عمیر نے اس عورت کو (موت، قبر، اللہ کے سامنے حاضری کے ذریعہ) نصیحت فرمائی اور اسے اعمال خیر پر ابھارا، اتنی سی گفتگو پر وہ اس قدر متاثر ہوئی کہ گھر جاکر شوہر سے کہنے لگی کہ ہم دونوں نے آج تک آوارگی اور غفلت میں زندگی گزار ی ہے۔ اس کے بعد سے وہ نماز، روزہ اور عبادت میں مصروف ہوگئی۔ اس عورت کا شوہر کہا کرتا تھا کہ عبید بن عمیر نے میری بیوی کو کیا کردیا ہے جو ہر وقت عبادت الٰہی میں مشغول رہتی ہے اور رہبانیت کی زندگی گزارتی ہے۔ (تنبیہ الغافلین)
قارئین کرام! عورت ذات عبادت کے معاملے میں کبھی مردوں سے پیچھے نہیں رہی بلکہ اس کا ذوق عبادت اور اللّہ تعالٰی سے خصوصی تعلق و محبت مثالی رہا ہے۔ ان مقدس ہستیوں اور ان جیسی لاتعداد خواتینِ امت کے تذکرے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ آج کی خواتین اِن عظیم ہستیوں کی زندگی کو اپنا آئیڈیل بنائیں، اپنے اندر خوداعتمادی پیدا کریں، دین کی اشاعت اور ملکی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، وہ ان کے نقش قدم پر چل کر دنیا و آخرت میں سرخ رو ہوسکتی ہیں۔ اللّہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین)